تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     06-07-2013

مصر میں پھر سیکولر آمریت

ووٹ کی طاقت پر ایمان رکھنے والوں اور جمہوریت کی شان میں قصیدے پڑھنے والوں کی زبانیں گنگ ہیں۔ کس قدر اطمینان اور سکون ہے کہ1920ء میں ایک ایسے نظریے پر قائم ہونے والی اخوان المسلمون کہ جو اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون چاہتی تھی، آج اس کی94سالہ جدوجہد کے صلے میں مصر میں قائم ہونے والی حکومت ختم کر دی گئی۔فوج نے اقتدار سنبھال لیا۔ وہ جو ہر روز گلے پھاڑ کر کہتے تھے کہ ایک جمہوری حکومت کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے، حکومت کو اتارنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے انتخابات‘ وہ سب کے سب صدر مرسی کے ا یک سالہ دور حکومت کو مارشل لاء اور آئین توڑنے کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ اس منافقت سے تو بشارالاسد جیسا ظالم حکمران بہتر ہے کہ اس نے اپنے دل کا بغض نکالتے ہوئے صاف صاف کہہ دیا کہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کا یہی انجام ہونا چاہیے۔ یہ وہ دلی خواہش ہے جو دنیا بھر کے سودی نظام پر قائم سرمایہ دارانہ جمہوریت کے علمبرداروں کے منصوبوں کے پیچھے متحرک ہوتی ہے۔ ایک ایسا جمہوری نظام جس میں نیویارک، لندن، قاہرہ، تہران، بنکاک اور جکارتہ میں بسنے والے افراد ایک طرح کی سوچ اور ایک طرح کی ثقافت اختیار کریں‘ ان کے ہیروز مشترکہ ہوں، ان کے خواب ایک جیسے ہوں اور ان کی اخلاقی اور خاندانی زندگی بھی دنیا بھر میں ایک جیسی نظر آئے۔ اس لیے اگر یہ سب لوگ ایک جیسی جینز، شرٹ اور جاگر نہیں پہنیں گے، ایک طرح کا برگر، پیزا اور چکن نہیں کھائیں گے، عورتیں اپنے حسن کی نمائش کے لیے زیر جاموں سے لے کر میک اَپ اور شیمپو سے لے کر آرائش گیسو تک ایک طرح کافیشن اختیار نہیں کریں گی تو ان کی اربوں ڈالر کی عالمی انڈسٹری کا کیا بنے گا۔ یہ ساری مارکیٹ جس بنیاد پر تخلیق کی گئی ہے وہ ایک سیکولر ثقافت اور کلچر ہے۔ اس ثقافت کو دو ادارے تخلیق کرتے ہیں‘ ایک نظامِ تعلیم اور دوسرا میڈیا۔ ایک سیکولر نظام تعلیم میں پڑھنے والا بچہ اپنے خواب دیکھنے اور کرداروں کی تخلیق کے ابتدائی مراحل یعنی بچپن میںخاص طرح کی کہانیاں پڑھتا ہے اور ان کہانیوں کے کرداروں کو تصویروں کی صورت میں جس طرح نصابی کتب میں دیکھتا ہے وہ اس کے مستقبل کے حسین خواب بن جاتے ہیں۔ وہ سنڈریلا اور سنووائٹ کی کہانی پڑھتا ہے، لٹل برجیڈ کے خواب دیکھتا ہے‘کنگ لیئر اور شائی لاک پڑھتا ہے، اسے کتابوں میں کرسمس ٹری ا ور سانتا کلاز نظر آتا ہے۔ اس کے نزدیک روم کے سیزر اور یونان کا سکندر عظیم ہیرو ہوتے ہیں۔ وہ کہانیوں میں کیک بنانے، پاستہ، لازینا اور برگر جیسے کھانوں کا ذکر ان داستانوں میں بار بار پڑھتا ہے۔ اس کی کتابوں میں پراٹھے پکاتی یا سرسوں کا ساگ گھوٹتی ماں کا کہیں ذکر نہیں ہوتا۔ اس کو ویلنٹائن ڈے یا پھر مدر ز ڈے اور فادرز ڈے پڑھا یا جاتا ہے۔ اس ساری نصابی تعلیم کو سودی معیشت پر قائم سیکولر جمہوریت کا پرور دہ میڈیا ایک معاشرتی مدد فراہم کرتا ہے۔ وہ جن معاشروں کا ذکر کرے گا، جن ہیروز کو خوبصورت بنا کر پیش کرے گا،جس طرح فیشن شو اور عالمی مقابلۂ حسن سے سکرین رنگین کرے گا، ان سب کو دیکھنے کے بعد وہ بچہ جس نے بچپن میں نصاب کی کتابوں میں ایسے ہی ماحول کو اپنے دماغ کے پردے پر رقصاں دیکھا ہو، اسے یوں لگتا ہے کہ اصل دنیا یہی ہے اور مسجدوں کے گنبدوں میں گونجنے والی اذانیں، توے پر تلے جاتے کھانوں کی خوشبو، شلوار قمیض اور دوپٹہ ، سب دقیانوسی چیزیں ہیں اور انہیں کسی عجائب گھر کی زینت ہونا چاہیے جہاں اُس کے سکول کا ایک معلوماتی دورہ ہو اور وہ دیکھ سکے کہ پرانے زمانے کے لوگ کیسے رہتے تھے اور وہ کس قدر فرسودہ تھے۔ اس سارے نظام کے قیام کے لیے دنیا کے ہر ملک میں انتخابات کا ڈھونگ رچا یا جاتا ہے۔ ا ن انتخابات پر یہ تمام طبقات اندھا دھند سرمایہ لگاتے ہیں۔ پارٹیوں کے خزانے بھر دیے جاتے ہیں۔ میڈیا ایک روشن مستقبل کا خواب دکھاتا ہے اور پھر اپنی مرضی کے مطابق چند کٹھ پتلیوں کو اقتدار کے ایوان پر لا کر بیٹھا دیا جاتا ہے۔ برسراقتدار آنے والے یوں تو کہتے پھرتے ہیں کہ ہمیں عوام نے اقتدار پر بٹھایا ہے لیکن وہ ڈرتے ان آقائوں سے ہیں جن کے مفاد کے تحفظ کے لیے ان کو سرمایہ اور میڈیا کی مد د سے الیکشن جتوایا گیا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں عالمی سرمایہ داروں اور مقامی سرمایہ داروں کا ایک خاموش گٹھ جوڑ بن جاتا ہے۔ ان کی دلیلیں نرالی ہیں۔ ہم سود ختم نہیں کر سکتے، دنیا میں تنہا ہو جائیں گے؛ امیروں پر ٹیکس نہیں لگاسکتے، سرمایہ کاری رک جائے گی؛ قرضوں سے انکار نہیں کر سکتے، دنیا ہم پر چڑھ دوڑے گی؛ یہاں تک کہ ہم اپنے دہشت گردوں کو پھانسی نہیں دے سکتے،دنیا بُرا منائے گی۔ اس کی بدترین مثال یہ ہے کہ گذشتہ پانچ برسوں میں پاکستان میں ایسے آٹھ ہزار قاتل ہیں جن کی پھانسی کی سزا سپریم کورٹ سے بھی منظور ہو چکی ہے لیکن انہیں پھانسی نہیں دی گئی۔ جب تک ایک جمہوری حکومت میں یہ سب چلتا رہتا ہے، سودی نظام اور کاغذ کے نوٹوں سے مصنوعی دولت کے بل بوتے پرکارپوریٹ جمہوریت کے علمبردار ہم سے خوش رہتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی انہیں اندزاہ ہوتا ہے کہ کوئی رہنما عوام کے ووٹ لے کر برسراقتدار آیا ہے اور وہ غیرت و حمیت اور عزت و افتخار سے جینا شروع کر دے تو پھر یہ سب کے سب عالمی غنڈے اس کو اتارنے میں لگ جاتے ہیں اور ان کے پالتو دانشور اور مفکرین اس کی توجیہات ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ یہ ہے وہ سارا گورکھ دھندا۔ ایسا مسلمان ممالک میں سب سے پہلے الجزائر میں کیا گیا جب وہاں الیکشن میں اسلام پسند پارٹی، اسلامی فرنٹ نے1991ء کے دسمبر میں الیکشن میں فتح حاصل کر لی تو گیارہ جنوری1992ء کو فرانسیسی افواج نے وہاں کی فوج کا ساتھ دیا اور الیکشن کالعدم قرار دے دیے گئے۔ اس کے بعد اس ملک میں خون کی ایک ہولی کھیلی گئی۔ مصر میں مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں،ایسا ہونا ہی تھا۔ جو شخص ایک اسلامی آئین مرتب کرے،امریکہ کی پالتو فوج کے جرنیلوں کا احتساب کرے‘ غزہ میں برسوں سے قائم دنیا کے سب سے بڑے جیل خانے کے دروازے کھول دے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکی برآمدات کم کردے‘ ایسے شخص کا انجام اس سے مختلف کیا ہوسکتا تھا۔اس کام کے لیے مصر میں نافذ پچاس برسوں سے سیکولر نظام تعلیم میں پروان چڑھنے والی نسل نے اس عالمی سودی مافیا کاساتھ دیا جن کے نزدیک شراب اور نائٹ کلب پر پابندی جرم تھا۔ چند لاکھ لوگ تحریر اسکوائر میں اکٹھے ہوئے اور فوج نے ان چند لاکھ لوگوں کو عوام کی اکثریت سے حاصل کردہ انتخابی مینڈیٹ پر ترجیح دیتے ہوئے مرسی کا تختہ الٹ دیا۔ کاش یہ لوگ جان سکتے کہ جمہوری راستہ اسلام کی گاڑی کے لیے تیار ہی نہیں کیا گیا،وہ اس پر چل کیسے سکتی ہے۔ اللہ پر بھروسہ کر نے والے ان کمیونسٹوں سے بھی کمزور ایمان والے نکلے جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ مزدوروں کی حاکمیت صرف انقلاب سے آتی ہے‘ ووٹ سے نہیں‘ خواہ روس میں آئے یا چین میں۔ اللہ کی حاکمیت بھی عوام کی اکثریت کی محتاج نہیں۔ اگر تین لاکھ لوگ اور مسلح افواج مل کر ایک سیکولر ڈکٹیٹرشپ قائم کرسکتے ہیں تو اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کے لیے یہ راستہ کیوں نہیں چنا جاسکتا۔ اللہ کا تو وعدہ ہے کہ تم قلیل بھی ہوگے تو میں تمہیں بڑے گروہ پر غلبہ دوں گا۔ کاش ہمارا اللہ کے اس وعدے پر ایمان ہوتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved