تحریر : مسعود اشعر تاریخ اشاعت     21-04-2021

قطار بنانا سیکھئے

اگر ایک دن پہلے آپ کو کسی شخص‘ کسی محکمے یا کسی ادارے میں دنیا بھر کی خوبیاں نظر آتی ہوں‘ لیکن دوسرے دن آپ کو اس میں برائیاں اور خامیاں دکھائی دینے لگی ہوں تو آپ کی حالت کیا ہو گی؟ اس وقت ہماری وہی کیفیت ہے۔ دو ہفتے پہلے جب ہم ایکسپو سنٹر میں کورونا سے بچائو کی پہلی ویکسین لگوانے گئے تھے تو ہمیں وہ ادارہ‘ اس کی کارکردگی اور اس کے عملے کی مستعدی اتنی اچھی لگی تھی کہ ہم نے اس کی تعریف میں پورا کالم لکھ دیا تھا‘ لیکن صرف دو ہفتے بعد آج ہم اس کے بارے میں لکھ رہے ہیں تو ہمیں اس میں اتنی خرابیاں نظر آ رہی ہیں کہ ان خرابیوں کے بارے میں یہ کالم لکھنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ پہلی ویکسین لگوانے کے وقت ہمیں معلوم ہو گیا تھا کہ ایکسپو سنٹر میں ہم جیسے بزرگوں کے لئے گیٹ نمبر ایک مخصوص ہے۔ ہم اس گیٹ پر پہنچے تھے۔ اُس وقت وہاں دو تین آ دمی ہی کھڑے تھے۔ ہماری باری آنے پر معمولی سی کاغذی کارروائی کے بعد ہمارے ہاتھ میں وہ ٹیکہ لگا دیا گیا تھا۔ کوئی ہنگامہ نہیں‘ کوئی افراتفری نہیں‘ کوئی دھکم پیل نہیں‘ لیکن اس بار وہاں کا ماحول ہی یک دم بدلا بدلا دکھائی دے رہا تھا۔ وہاں ایک افراتفری اور ایک بھاگ دوڑ کی حالت تھی۔ ہم نے بتایا تھا نا کہ بزرگوں اور معذور افراد کے لئے گیٹ نمبر ایک مخصوص تھا۔ اس گیٹ سے صرف وہی افراد اندر جا سکتے تھے جن کے لئے یہ گیٹ رکھا گیا تھا۔ پچھلی مرتبہ اس پر سختی سے عمل کیا گیا تھا لیکن اس بار لگ رہا تھا کہ ہر بوڑھا اور جوان شخص گیٹ نمبر ایک پر ہی چلا جا رہا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اس گیٹ پر رعایت مل جاتی ہے۔ وہاں انہیں روکنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ اس وجہ سے وہاں ایک ہجوم ہو گیا تھا۔ یہ ایسا ہجوم تھا جس میں کوئی نظم و ضبط نہیں تھا۔ عورتوں اور مردوں کاایک ہجوم تھا جو اندر جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ داخلے کا دروازہ اندر سے بند کر لیا گیا تھا۔ اس وجہ سے وہاں اور بھی ہجوم ہو گیا تھا۔ اب حالت یہ تھی کہ یہ سارا ہجوم ایک دوسرے پر چڑھا جا رہا تھا۔ آپ یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ نظم و ضبط اور صبر‘ شکر ہماری سرشت میں ہی نہیں ہیں۔ اس لئے ہر ایک کی کوشش یہ تھی کہ دوسروں کو دھکے دے کر کسی نہ کسی طرح اندر داخل ہو جائے۔ یہاں بزرگوں اور جوانوں کی تخصیص بھی نہیں تھی۔ جو بزرگ مرد اور خواتین وہیل چیئر پر بیٹھے تھے ان کی حالت دیکھنے کے قابل تھی۔ وہ اس ہجوم سے منتیں کر رہے تھے کہ ان کا تو کچھ خیال کر لو‘ مگر وہاں ان کی سننے والا کون تھا۔ ہر شخص اس فکر میں تھا کہ سب سے پہلے وہ اندر چلا جائے۔
دروازے پر ہجوم بڑھتا جا رہا تھا حتیٰ کہ دھکم پیل بھی شروع ہو چکی تھی۔ خدا خدا کر کے دروازہ کھلا تو یہ ہجوم ایسے آگے بڑھا جیسے کسی زمانے میں فلم دیکھنے والے ایک دوسرے کو کہنیاں مارتے سینما ہال کے اندر جاتے تھے۔ اندر انتظار کے لئے کرسیاں لگا دی گئی تھیں لیکن ہجوم کو دیکھتے ہوئے یہ کرسیاں بہت ہی کم لگ رہی تھیں‘ اس لئے کچھ لوگ ادھر ادھر بھی ٹہل رہے تھے۔ اس سے آگے وہ کیبن تھے جہاں ہر آدمی کا بلڈ پریشر وغیرہ چیک کیا جاتا ہے اور اس کے بعد ان کے ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ یہاں بھی افراتفری کا یہ عالم تھا کہ کوئی اس کیبن کی طرف جا رہا تھا اور کوئی اس کیبن کی طرف۔ وہاں سنٹر کا عملہ تو موجود تھا مگر کسی کی رہنمائی کرنے والا وہاں کوئی نہیں تھا۔ سب جیسے اپنے کام میں مشغول تھے۔ اب یہ ٹیکہ لگوانے والے پر منحصر تھا کہ وہ کس کیبن میں جائے۔ وہاں تو کسی نے یہ بھی نہیں بتایا کہ ٹیکہ لگوانے سے پہلے اپنا بلڈ پریشر بھی چیک کرا لیں۔ یہ بھی ٹیکہ لگوانے والا خود ہی اندازہ لگا لیتا تھا۔ اب اسے کوئی یہ بھی بتانے والا نہیں تھا کہ اس کے بعد وہ کہاں جائے؟ وہ خود ہی اندازے سے کسی کیبن کے سامنے جا کر کھڑا ہوتا۔ جب اس کی باری آتی تو اس کے ٹیکہ لگا دیا جاتا۔ اس کے بعد وہ کہاں جائے؟ یہ اسے خود ہی تلاش کرنا ہوتا۔ ایسا نہیں ہے کہ اس سنٹر میں اس کام کے لئے عملہ مو جود نہیں ہے لیکن ہم نے دیکھا کہ اس عملے کے لئے مخصوص کیبن خالی پڑے تھے۔ اس میں کام کرنے والے صبح نو بجے تک گھر سے نہیں آئے تھے‘ یا پھر جو وہاں موجود تھے انہیں اس سے غرض نہیں تھی کہ وہاں آنے والوں کو کسی مدد یا رہنمائی کی ضرورت بھی ہو سکتی ہے۔
اب ہم اس ہجوم کی طرف چلتے ہیں جو گیٹ نمبر ایک سے اندر آ رہا تھا۔ ہر لمحے ہجوم بڑھتا جا رہا تھا اور ہر شخص سب سے پہلے اندر داخل ہو نے کے لئے بے چین تھا۔ اس وجہ سے افراتفری بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے دوسرے کسی گیٹ سے لوگ اندر نہیں جا رہے ہیں۔ انہیں یہی گیٹ نمبر ایک قریب تر معلوم ہوتا تھا۔ یہ ہم صبح نو بجے کی بات کر رہے ہیں۔ اس کے بعد تو حالات اور بھی خراب ہو گئے ہوں گے۔ ہم نے تو کسی نہ کسی طرح اپنا دوسرا ٹیکہ لگوا لیا‘ لیکن ہمارے بعد آنے والوں کے ساتھ کیا ہوا ہو گا؟ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔
اب ہم سوچ رہے ہیں کہ کیا اس کھڑکی توڑ ہجوم سے بچا جا سکتا ہے؟ ظاہر ہے بچا جا سکتا ہے۔ آپ قطار بنانے والی روایت کو اپنائیں۔ ٹھیک ہے آپ گیٹ نمبر ایک سے اندر آنے والوں سے قطار بنانے کو نہیں کہہ سکتے لیکن اندر جس دروازے پر بھی ہجوم ہو جائے وہاں تو آپ قطار بنانے کی پابندی لگا سکتے ہیں۔ وہاں جو عملے کے ارکان ادھر ادھر گھومتے نظر آتے ہیں ان کی ڈیوٹی لگائی جائے کہ ہر دروازے پر وہ قطار بنوائیں۔ قطار بنانے سے اندر آنے والوں کو تھوڑا انتظار تو کرنا پڑے گا‘ لیکن اس طرح سب کا کام ہو جائے گا۔ یہ ساری باتیں ہمیں لاہور کے ایکسپو سنٹر میں افراتفری دیکھ کر یاد آئی ہیں۔ ہم پہلی بار جب وہاں گئے تھے تو وہاں اتنے لوگ نظر نہیں آئے تھے۔ اب جوں جوں یہ شعور بڑھتا جا رہا ہے‘ ٹیکہ لگوانے والوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔اس کیلئے ایک تو ایکسپو سنٹر کا یہ مرکز کافی نہیں ہے‘ دوسرے اس سنٹرکا عملہ بڑھایا جائے۔ ہم نے بتایا نا کہ اندر اس عملے کے کئی کیبن خالی پڑے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کافی بڑے عملے کی گنجائش موجود ہے۔ باہر سے لا کر یہ عملہ پورا کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں ہر روز خبر دار کیا جا رہا ہے کہ کورونا کی ایک اور لہر آنے والی ہے۔ ہمیں بہر حال اس کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ اس مقابلے کے لئے جہاں ایسے سنٹر کام آئیں گے وہاں عام آدمی کی تربیت بھی ضروری ہو گی۔ اصل میں یہاں عام آدمی کی تربیت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے۔ آپ یقین کریں یا نہ کریں ہمارے معاشرے میں ایسے لو گ ابھی تک موجود ہیں جو مانتے ہی نہیں کہ کورونا کوئی جان لیوا بیماری ہے۔ جب تک یہ وبا ان کے قریب تک نہ پہنچ جائے اس وقت تک وہ اس کی موجودگی تسلیم ہی نہیں کرتے۔ اب یہ کام صرف حکومت کا ہی نہیں ہے کہ وہ اس وبا کا مقابلہ کرے۔ عام آ دمی کو بھی اس کام میں حکومت کی مدد کرنا چاہیے۔ لیجئے ہم چلے تھے ایکسپو سنٹر کی خامیاں بیان کرنے اور پہنچ گئے وعظ و نصیحت پر۔ لیک یہ وعظ و نصیحت بھی تو ضروری ہیں۔ ہمیں ہر روز کہیں نہ کہیں سے اس وبا کے شکار انسان کی خبر ملتی ہے تو ہم پریشان ہو جاتے ہیں۔ اور یہ خبر کسی نہ کسی طرح ملتی ہی رہتی ہے۔ اور یہ ایک دن کی بات نہیں ہے‘ ہر روز کی بات ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved