تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     21-04-2021

رہا سہا اعتماد ہی بچا لیں!

یا اللہ! ہماری حالت پر رحم فرما دے، تیرا کرم ہی ہمیں اخلاقی گراوٹ سے نکال سکتا ہے ورنہ ہم نے اپنی تمام کشتیاں جلا دی ہیں، ہم تو تمام حدود پار کر چکے ہیں، نہ ہمیں دنیا کا دھیان ہے نہ عاقبت کی کوئی فکر۔ بیس بیس سال تک بے گناہ جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں اور پھر ہم اُن کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے دو الفاظ معذرت کے بول دیتے ہیں۔ ایک ہفتے کے لیے جیل جانے والا چھ سالوں بعد جیل سے نکلنے میں کامیاب ہو پاتا ہے لیکن کہنے کی حد تک سب بہترین چل رہا ہے۔ جھوٹ اور منافقت جیسی قباحتوں کا جادو ہر جگہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ بیانات یوں پل پل تبدیل ہوتے ہیں کہ دیکھنے‘ سننے والا دانتوں تلے اُنگلیاں داب لے۔ اِس سوچ میں پڑ جائے کہ پہلی باتوں کو سچ مانا جائے یا آج کی باتوں کو۔ آج سماعتوں میں یہ الفاظ اُنڈیلے جا رہے ہیں کہ سڑکیں بند کرنا کوئی خدمت نہیں ہے۔ جب ملک بند ہو جائے گا تو روزگار کی تلاش میں گھروں سے باہر نکلنے والے کیا کریں گے، کیسے اپنے بچوں کا پیٹ پالیں گے۔ صرف چند سالوں کے دوران خیالات میں اتنا بڑا انقلاب۔ کمال ہے کہ اپنے سر پر پڑی تو اپنی سابقہ تمام باتیں بھلا دی گئیں۔ چند سال پہلے تک‘ ایک دو مرتبہ نہیں درجنوں بار یہ للکاریں سماعتوں میں زہر گھولتی رہیں کہ فلاں تاریخ کو فلاں شہر بند کر دیا جائے گا۔ کبھی بتایا جاتا کہ کل لاہور مکمل طور پر بند ہو گا، پھر اس کے بعد فیصل آباد بند کیا جائے گا۔ دوسرے روز کانوں میں آواز پڑتی کہ فلاں تاریخ کو پورا ملک بند کر دیا جائے گا اور ایسا ہوتا بھی رہا۔ یاد پڑتا ہے کہ تب کئی مقامات پر ایمبولینسز بھی ہجوم میں پھنسی رہی تھیں اور کچھ اموات بھی ہوئی تھیں۔ جگہ جگہ جلاؤ گھیراؤ بھی ہوا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ آج کی اعلیٰ ترین شخصیت کراچی کو بند کرنے کے بارے میں اعلان کرتی سنائی دی۔ میڈیا نے سوال کیا کہ اِس سے شہریوں کو بہت مشکل پیش آئے گی؟ مگر جواب دینے کی زحمت گوارا کیے بغیر اپنے ساتھیوں کو ہدایت دی جانے لگیں کہ کہیں پر ایک بھی گاڑی نہیں چلنی چاہیے۔
آج ہماری جانوں اور مال کے محافظ محترم وزیر داخلہ صاحب کہتے ہیں کہ کسی کو قانون ہاتھ میں نہیں لینے دیا جائے گا، حکومت اپنی رٹ ہر صورت قائم کرے گی۔ یاد آ رہا ہے کہ چند سال قبل موصوف نے کئی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ تک کہا تھا کہ ایسا نہ ہوا تو یہ ہو جائے گا، ویسا نہ ہوا تو وہ ہو جائے گا۔ جوش و جذبات کے عالم میں کہی گئی اِن باتوں کو مقصد ہمیں تب سمجھ میں آیا تھا نہ اب اِن کی باتیں پلے پڑ رہی ہیں۔ کبھی کبھی تو یہ سوچ پریشان کر دیتی ہے کہ جناب ملک کی داخلی صورتحال کے ذمہ دار ہیں لیکن سنجیدگی نام کو نہیں ہے۔ اِن دنوں محترم وزیر داخلہ کی ایک پرانی وڈیو بہت وائرل ہو رہی ہے جس میں وہ تب کی حکومت کو متعدد مشوروں سے نوازتے نظر آتے ہیں۔ تب ایسے ہی ایک دھرنے پر اُنہوں نے حکومت کو دھمکی آمیز لہجے میں مشورہ دیا تھا کہ آپ کو دھرنا دینے والوں سے گفتگو کرنی چاہیے‘ آخر یہ بھی تو اپنے ہی لوگ ہیں۔ معلوم نہیں اب اِنہیں ویسی اپنائیت محسوس کیوں نہیں ہوئی؟ کیوں اُنہوں نے دھرنے دینے والوں سے مذاکرات کی زحمت گوارا نہیں کی؟ آج وہ امن و امان کی بحالی پر پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خراجِ تحسین پیش کررہے ہیں لیکن تب وہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے، حکومت کو مشورے دے رہے تھے کہ احتجاج کرنے والوں کے ساتھ پیار ومحبت کا سلوک روا رکھا جائے۔ انسان کو اپنی بات کا تو لحاظ ہونا چاہیے۔ کیا صرف حکومت یا وزارت ہی ہمارا مطمح نظر رہ گیا ہے؟
اِس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں سے ہرگز نرمی نہیں برتنی چاہیے۔ یہ بھی تسلیم کہ گزشتہ دنوں جو کچھ ملک میں ہوا‘ وہ انتہائی تشویش ناک تھا لیکن کچھ سوالات اور بھی پیدا ہوتے ہیں۔ جب چند ماہ قبل آپ کالعدم قرار دی جانے والی تنظیم سے معاہدہ کر رہے تھے‘ تب آپ نے ایسی شقیں کیوں تسلیم کی تھیں جن پر عمل کرنا مشکل تھا؟ اِس سے کچھ عرصہ پہلے جب اِسی تنظیم نے پہلے ایک دھرنا دیا تھا تو تب بھی اِس کے کارکنوں کو بڑی عزت سے رخصت کیا گیا تھا۔ یہاں یہ بھی جان لیجئے کہ ہمارے ملک میں کالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں کی تعداد 70 سے بھی زائد ہو چلی ہے۔ کیا یہ بات سوچنے کی نہیں کہ ایسی تنظیمیں کھمبیوں کی طرح کیسے اُگ آتی ہیں کہ بعد میں اِن پر قابو پانا مشکل ہو جاتا ہے؟ ہم دوسروں سے گلے شکوے کرتے رہتے ہیں کہ وہ ہماری بات نہیں مانتے‘ لیکن اپنے آنگن کو دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ عالم یہ ہو چکا ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے ہماری تنزلی ہوئی ہے‘ مختلف ممالک ہم پر سفری پابندیاں عائد کر چکے ہیں۔ کیا صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ پابندیاں کورونا کے تناظر میں عائد کی گئی ہیں؟ اگر ایسا ہوتا تو سب سے پہلے بھارت اِن پابندیوں کی زد میں آتا جہاں کورونا کی صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ اگر تھوڑا ساغور کریں گے تو بخوبی سمجھ میں آ جائے گا کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ ہم چاہے لاکھ دوسروں کو اپنی حالت کے لیے موردِ الزام ٹھہراتے رہیں لیکن حقیقت کو کب تک چھپایا جا سکتا ہے؟ افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ ہم بار بار ایک ہی جیسی غلطیاں کرتے جاتے ہیں اور پھر دہائی دینا شروع کرد یتے ہیں۔
اپنی چارپائی کے نیچے جھانکنے کا وقت تو کب سے آ چکا ہے لیکن اُمید نہیں کہ ہم اپنے رویوں میں کوئی تبدیلی لائیں گے۔ جب ذاتی مفادات، قومی مفادات سے اہم ہو جائیں تو پھر حالات میں بہتری کی توقع نہیں رکھی جانی چاہیے۔ ہمارا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ زیادہ دور کیا جانا‘ رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے کے دوران جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ پوری قوم آٹا، چینی اور گھی حاصل کرنے کے لیے قطارو ں میں لگی ہوئی ہے۔ برائلر، سبزیوں اور لیموں کی صورت حال دیکھ لیں جو عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکے ہیں۔ لاہور میں لیموں کے نرخ 5 سو روپے فی کلو سے بھی تجاوز کر چکے ہیں کیونکہ رمضان میں اِن کا استعمال قدرے بڑھ جاتا ہے۔ دیگر اشیا کے نرخوں کو بھی پَر لگے ہوئے ہیں۔ یہ سب ہمارا اپنا کیا دھرا ہے‘ صورت حال میں بہتر ی کے ذمہ داران کے اپنے ہی مسائل حل نہیں ہوتے‘ وہ عوام کی طرف کیا توجہ دیں گے۔ ''ن‘‘ سے ''ش‘‘ نکلنے کی توقع اور پی ڈی ایم کے عملاً غیر فعال ہو جانے کی خوشیاں ابھی پوری طرح نہیں منائی جا سکی تھیں کہ ترین فیکٹر نے حکومت کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ یہ مسئلہ حل ہو گا تو کوئی دوسرا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ یہی سب کچھ ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے۔ ہماری اپنے رہنماؤں سے صرف اتنی اپیل ہے کہ خدارا اپنی کریڈیبلٹی کو قائم رکھیں‘ ہماری ملکی سیاست میں اعتماد کا پہلے ہی بہت فقدان ہے‘ جو رہا سہا اعتماد بچا ہے‘ اُسے تو بچا لیں‘ یہی بڑی کامیابی ہو گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved