آج کی بات تو نہیں‘ ایک عرصے سے ہم معاشرتی انتشار کا شکار ہیں۔ ہر آنے والی نئی جماعت‘ نئے ابھرنے والے رہنمائوں اور نئی حکومتوں‘ آمرانہ ہوں یا خستہ حال جمہوری‘ سے امیدیں باندھ لیتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے تاریکیوں میں رہنے والے نورِ سحر کے پھوٹنے کی تمنا میں جی رہے ہوں۔ کبھی کسی نے سوچا ہے کہ ریاست کمزور ہو جائے یا کر دی جائے تو سب کچھ بکھرنا شروع ہو جاتا ہے۔ ریاست کا مقصد کروڑوں لوگوں کو‘ جو مختلف زبانیں بولتے ہیں‘ سب اپنی خوبصورت تاریخی ثقافتوں کے رنگ میں رنگے ہوتے ہیں اور ہر گروہ اپنے مقامی مفادات سے جڑا ہوا ہوتا ہے‘ کو ایک لڑی میں سلیقے سے پرو کر مضبوطی کے ساتھ ایک سمت میں رواں رکھنا ہوتا ہے۔ منزل متعین ہوتی ہے۔ ریاست جو بھی ہو‘ اور جہاں بھی‘ مقصد داخلی امن اور سلامتی‘ انصاف‘ روزگار‘ تعلیم اور اقتصادی ترقی ہوتا ہے۔ یہ بھی طے ہوتا ہے کہ یہ سب مشترکہ مفادات کیسے حاصل ہوں گے۔ اس کی ذمہ داری کس کے کاندھوں پر ہو گی۔ صرف موجودہ دور میں نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘ معاشرے استحکام سے توانائی حاصل کرتے ہیں۔ کاش ہمارے ڈنگ ٹپائو حکمران ٹولوں نے کچھ اوراق پلٹے ہوتے‘ کچھ عروج و زوال کے اسباب ذہن میں سمو لئے ہوتے‘ کچھ انسانی حکمت کے وسیع خزانوں سے پلے باندھ لیا ہوتا۔ ہمارے مذہبی اور تہذیبی دھاروں کے منبعے کتاب اور حکمت ہیں‘ جس شخص یا قوم نے یہ راز پا لیا‘ اسے سب کچھ روزِ روشن کی طرح دکھائی دے گا‘ کہ علم اور حکمت سب اندھیروں کو اجالوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ اگر دانائی اور حکمت نصیب میں لکھ دیئے جائیں تو سمجھیں آپ کو سب کچھ مل گیا۔ معاشرتی ترتیب‘ تہذیب‘ انسانیت‘ ترقی‘ اطمینان‘ ہم آہنگی اور امن جذبات اور اضطراب و انتشار پیدا کرنے سے نہیں‘ فہم و ادراک اور دانش مندی سے پیدا ہوتے ہیں۔
جو مناظر ہم نے گزشتہ ہفتے ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں دیکھے‘ کوئی نئے تو نہیں‘ لیکن غیر یقینی امن کی صورت میں جو سکون محسوس ہو رہا تھا‘ وہ دم توڑ چکا۔ ایک اور معاہدہ‘ ایک اور مصلحت پسندی‘ ایک اور پسپائی‘ اور ہم بے بس پاکستانی شہریوں کیلئے ایک اور بری خبر کہ ہماری ریاست لشکروں کے سامنے ڈھیر ہو چکی ہے۔ بہت نعرے سنے اور گرجنے کی آوازیں سنیں کہ ریاست کی رٹ کو ہر صورت قائم رکھا جائے گا۔ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور ثقافت و روایتی پنجابی تہذیب کا مرکز‘ لاہور‘ جہاں شاعر‘ ادیب‘ فنکار‘ ہنرمند‘ پیشہ ور اور ہر نوع کے انقلابیوں کی آوازیں گونجا کرتی تھیں‘ اب کن کے نرغے میں ہے۔ آٹھ پولیس اہلکاربیدردی سے متشدد مجمعوں نے موت کے گھاٹ اتار دیئے۔ سینکڑوں ہسپتالوں میں پڑے ہیں‘ اور نہ جانے کتنے عام شہری‘ ہمارے جیسے عام اور زیادہ تر غریب گھرانوں سے‘ جو ان بلا جواز خونیں مقابلوں کیلئے تیار کئے تھے‘ جان کی بازی ہار بیٹھے۔ پولیس کے سپاہی ہوں یا وہ جو ان پر پتھر اور لاٹھیاں برسانے والے تھے‘ سب ہمارے ہی تو لوگ ہیں۔ سب کیلئے دل میں دکھ ہے‘ مگر بات تو کچھ اور ہے کہ حکومت‘ جس سے ریاستی طاقت کا اظہار ہوتا ہے‘ بے بس نظر آئی۔ ایک بار ریاست کمزوری دکھا دے تو پھر واپسی کا سفر مشکل ہو جاتا ہے۔
اگر سابق وزیرِ ریلوے‘ حالیہ وزیرِ داخلہ شیخ صاحب کی باتیں سنیں تو لگتا ہے‘ ان جیسا بہادر‘ نڈر‘ بیباک سپوت پوٹھوہار کی دھرتی نے جنا ہی نہیں۔ ریاست کی رٹ کے نعروں کی گونج میں انہوں نے ہی دینی جماعت کو کالعدم قرار دینے کا اعلان کیا تھا۔ افسوس‘ صد افسوس‘ کیسے وہ منہ لٹکائے معاہدے کا اعلامیہ پڑھ رہے تھے۔ یہ بات تو ہر مبصر کے منہ پر تھی کہ اگر ایسا ہی کرنا تھا تو اتنا خون خرابہ کرانے کی ضرورت کیا تھی؟ وزیر اعظم عمران خان نے جب قوم کو اعتماد میں لینے کیلئے تقریر کر ہی ڈالی تھی تو اس عہدے کا تقاضا تھا کہ وہ اپنی جگہ قائم بھی رہتے۔ غالباً چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ حکومت الٹے پائوں چلنا شروع ہو گئی۔
پاکستان ہو یا کوئی اور ملک‘ پسپائی سے وقتی طور پر حالات ٹھنڈے ہو جاتے ہیں‘ مگر یہ عمل بار بار دہرانے سے ریاستی طاقت کو گھن لگ جاتا ہے‘ جو اسے چاٹتا رہتا ہے۔ بظاہر سب کچھ ٹھیک‘ لیکن اندر سے گودا لکڑی کی طرح کھایا جا چکا ہوتا ہے۔ اس سے ملک میں اضطراب‘ بے چینی اور ریاست پہ بے اعتمادی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس وقت ہم دنیا میں دو قسم کے معاشرے دیکھ رہے ہیں۔ ایک وہ جہاں استحکام ہے‘ سیاست اپنے بنائے ہوئے راستوں پہ گامزن رہتی ہے‘ ایک جماعت اقتدار میں آتی ہے تو دوسری حزبِ اختلاف کی جگہ سنبھال لیتی ہے‘ چار سال یا پانچ ‘ اگلے انتخابات کا انتظار کرتی ہے۔ ملکی مسائل پر سب جماعتیں اکٹھی بھی ہو جاتی ہیں‘ اگر نظریات اور پالیسیوں میں فرق ہو تو اپنا نقطہ نظر عوام اور حکومت کے سامنے رکھنے کے بعد راستہ دینا سیاسی اور اخلاقی فرض بن جاتا ہے۔ فیصلہ آخر میں عوام ہی کرتے ہیں کہ کس کا موقف اور پالیسی درست ہیں۔ انتظار کرتا پڑتا ہے۔ دوسرے کو کام کرنے کی مہلت دی جاتی ہے۔ حکومتیں گرانا‘ بازاروں میں شور شرابہ برپا رکھنا‘ ذمہ دار جمہوریت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ نظام کی بھی اتنی اہمیت اب نہیں‘ جو بھی آپ کا سیاسی نظام ہو‘ مستحکم ہو تو معاشرے میں توازن آتا ہے‘ ترقی کی رفتار بڑھ جاتی ہے‘ لوگ امن اور سکون سے زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی توانائیاں تخلیقی کاموں میں صرف ہوتی ہیں۔ انکے شہر بارونق‘ باترتیب‘ جنگلات گھنے‘ باغات اور زراعت بارآور‘ تعلیم کا معیار اعلیٰ‘ سائنسی تحقیق میں بہت آگے‘ فنون میں بے مثال کارکردگی‘ غربت ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے‘ لوگ آسودہ حال ہو جاتے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کا نظام جمہوری ہے‘ مگر آزادیٔ رائے کے ساتھ قانون کی حکمرانی ہے‘ اقتدار ایک پارٹی سے دوسری پارٹی کو منتقل ہوتا رہتا ہے‘ پالیسیوں میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے‘ مگر ریاستی اور معاشرتی زندگی کا ہر شعبہ اپنے اپنے مدار میں حرکت میں رہتا ہے۔ سیاسی موسموں کی تبدیلی اثرانداز نہیں ہوتی۔
دوسری جانب بالکل متضاد مثال سنگاپور اور چین کی ہے۔ جمہوریت کا لبادہ انہوں نے پہننے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ سنگاپور کے رہنما لی کوان یو پر انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں کے حوالے سے مغرب کے دانشور اور آزادیٔ فکر کے عادی ادارے ٹوٹ ٹوٹ کر حملہ آور ہوتے رہتے تھے‘ مگر تمام مشرقی ایشیا کے ممالک کا اصرار تھاکہ مغربی جمہوریت اپنے پاس رکھیں‘ ایشیائی روایات کچھ اور ہیں اور ہم ہی جانتے ہیں کہ ہم نے وہ منزلیں‘ جو آپ نے صدیوں میں طے کیں‘ چند عشروں میں کیسے حاصل کرنی ہیں۔ جو کہا وہ کر دکھایا۔ سنگاپور ایک مچھر کالونی‘ مچھلی کی بندرگاہ اور گارے مٹی میں لپٹی چند بستیوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ خیرہ کن ترقی کے اہداف ایک ہی نسل میں حاصل کر لئے گئے۔ فرید زکریا نے ان کا ایک لاجواب انٹرویو مشہور رسالے 'فارن افیئرز‘ کیلئے کیا تھا۔ پوچھا: یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ کہا: جب اقتدار سنبھالا تو معلوم کیاکہ سرمایہ کار خائف کیوں ہیں‘ معلوم ہوا کہ چند سینکڑے بدمعاشوں کے گروہ بھتہ خوری کرتے ہیں‘ نہ صنعت نہ تجارت‘ نہ کاروبار نہ روزگاران کی کارستانیوں کی وجہ سے چل سکتا‘ فوج کو کہا کہ ان کو پکڑلو‘ سب ٹھیک ہونا شروع ہوگیا۔ آج سنگاپور دنیا کے صاف ترین اور خوشحال ترین معاشروں کی صفِ اول میں ہے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے‘ چین ہمارا دوست‘ ہمسایہ اور ہمارا برے وقتوں کا ساتھی‘ کہاں سے کہاں پرواز کر گیا۔ استحکام‘ منزل کا تعین اور کٹھن راستوں پہ چلتے رہنے کا عزم۔
نظام تو جو ہے وہی چلے گا‘ جاگیرداری اور موروثی سیاست‘ مگر چلے تو سہی۔ اس میں ہی استحکام آ جائے تو ہر سمت تبدیلی رونما ہونے لگے‘ مگر اس کیلئے قانون کی حکمرانی لازم ہو گی‘ ریاستی رٹ کو منوانا ہو گا‘ جو مناظر ہم نے دیکھے ہیں‘ دل مانتا نہیں کہ استحکام نصیب ہو گا۔ چلو ادھورے ہی سہی خواب تو ہیں!