تحریر : محمد اعجاز میاں تاریخ اشاعت     23-04-2021

ہم آہنگی کی ضرورت

مذہب انسان کو بہترین زندگی جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے‘ اسے اخلاقیات کا درس دیتا ہے‘ اچھائی اور برائی میں فرق بتاتا اور محبت و بھائی چارے کا پیغام پہنچاتا ہے۔ مذہب کے بغیر کسی بھی معاشرے میں منظم سوشل آرڈر کا قیام ممکن نہیں۔ دنیا کے تمام مذاہب ہی امن و اتفاق کی تلقین کرتے ہیں مگر یہ ہمارا پختہ ایمان اور کامل یقین ہے کہ اسلام کو دیگر ادیان پر افضل بنا کر بھیجا گیا‘ جس کی حقیقی تعلیمات استحکام‘ برداشت‘ عزت انسانیت‘ معتدل مزاجی اور صلح صفائی کا پُرزور حکم دیتی ہیں‘ لیکن افسوس کہ آج کا مسلمان اسلام کی خود ساختہ تشریح کرتے ہوئے اپنے لیے غلط راہوں اور نقصان دہ رجحانات کا انتخاب کر چکا ہے۔ اس کی سوچ میں عدم برداشت بڑھتی جا رہی ہے‘ جس کے نتیجے میں وہ بے شمار الجھنوں اور مسائل سے دوچار ہے جبکہ چند بھولے بھٹکے مسلمانوں نے تو دین کی حفاظت اور تبلیغ کو باقاعدہ جبر‘ جنگ اور قتل و غارت سے مشروط کر کے شدت پسندی اختیار کر لی ہے۔مصر کی اخوان المسلمون کے چند عناصر‘ افغانستان کے طالبان اور عراق میں بننے والی داعش انتہا پسندی ہی کے شاخسانے ہیں جن میں تعصب‘ تنگ نظری‘ بدعملی‘ بد اخلاقی اور بے راہ روی گھر کر گئی ہے۔ یہی رجحانات عالم اسلام میں تفرقات کا سبب بھی ہیں‘مشرق وسطیٰ میں شیعہ سنی اختلافات کے باعث سالوں سے خونریزی جاری ہے‘ جبکہ فرقہ واریت کی سلگتی آگ نے عالم اسلام کی دو بڑی طاقتوں ایران اور سعودی عرب کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ انہی آپسی رنجشوں کے باعث دنیا میں نہ کبھی ہماری او آئی سی اور نہ دیگر اسلامی قوتیں کوئی پختہ فیصلہ کر سکی ہیں۔ شدت پسندی نے دین اسلام کو فائدہ تو ہر گز نہیں البتہ ناقابل تلافی نقصان ضرور پہنچایا ہے؛چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انتہا پسند‘ ناجائز ‘ خود ساختہ اور پر تشدد رجحانات نے مسلمانوں کو جہالت کی اندھیر نگری میں دھکیل دیا ہے۔
یہ تاثر ہرگز غلط نہیں کہ معتدل مزاج اور رواداری کا حامل پاکستان بھی سالوں سے کہیں کھو چکا ہے۔ایک وقت تھا جب اس قوم کو ریاست کا اور ریاست کو قوم کا احساس ہوا کرتا تھا‘ ہر معاملے میں میانہ روی تھی۔ قائد اعظم نے پہلی قانون ساز اسمبلی کی تقریر میں جس مثالی پاکستان کا خواب دکھایا تھا وہ ایک آزاد‘ روشن خیال اور پر امن پاکستان تھاجس میں انہوں نے باہمی احترام‘ مذہبی ہم آہنگی اور ساتھ چلتے ہوئے ریاست کی خدمت کی تلقین کی تھی۔ ہمیں تو قائد کے بنائے ہوئے اس نقشے پر چلتے ہوئے سال بہ سال سماجی ترقی کی منزلیں طے کرنا تھیں مگر ہم ہر گزرتے برس پستی کی جانب جانے لگے۔50 ء اور 60ء کی دہائیوں میں پاکستان میں روشن خیالی کا جو سورج ابھر رہا تھا‘ 80ء کی دہائی میں اسے انتہا پسندی اور تنگ نظری کا ایسا گرہن لگنا شروع ہوا جس نے پھر کبھی ختم ہونے کا نام نہ لیا۔ افسوس کہ اس ملک میں مذہب کو کبھی سیاسی کارڈ ‘ کبھی فرقہ واریت کو ہوا دینے تو کبھی ریاست سے ناجائز مطالبات منوانے کی خاطر خوب استعمال کیا گیا ۔ مسلکی اختلافات کی بھینٹ چڑھتے ہوئے درجنوں بے گناہوں کا قتل انتہا پسندی نہیں تو اور کیا ہے؟ اسی طرح مذہب کے نام پر جذباتی اور مشتعل ہجوم کا بے گناہوں کو خاک و خون میں نہلانا بھی معیوب عمل ہے۔ ناموس ِدین کے واقعات کو دیکھ لیںجن میں متعدد بے گناہ لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ البتہ الزام لگتے ہی قانون ہاتھ میں لینے والوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں‘ جس کا دل چاہے کسی کو زندہ جلا دیتا ہے‘ کسی کو گولی مار دیتا ہے‘ کسی کو سنگسار کر دیا جاتا ہے یا کسی کے گھر میں گھس کر پورے خاندان کو قتل کر دیا جاتا ہے۔
اب حال ہی میں ملک کے مختلف شہروں میں ایک احتجاج بھی اشتعال انگیز مظاہروں میں بدل گیا۔ تین دن لگاتار پنجاب کے تمام بڑے چھوٹے شہروں میں موٹرویز سے لے کر جی ٹی روڈ تک‘ ہسپتالوں سے لے کر بس اڈوں تک ہر جگہ عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا‘ نجی اور سرکاری املاک کو بھاری نقصان الگ پہنچا۔ بند سڑکیں‘ برباد ہوتی قومی ملکیت اور لہو لہان پولیس اہلکار یہ باور کرا رہے تھے کہ ملک میں ریاستی رِٹ ختم ہو گئی ہے اور ریاست اپنی اہم ذمہ داریاں (تحفظ ِجان و مال‘ قانون کی بالادستی اور انصاف کی فراہمی) میں ناکام ہو چکی ہے۔اس صورتحال نے بتا دیا کہ ہمارے حکمرانوں کی فیصلہ سازی انتہائی کمزور ہے‘ جو کبھی ایکشن پر نہیں بلکہ ہمیشہ ری ایکشن پر یقین رکھتی ہے اور اُس وقت فیصلے لیے جاتے ہیں جب پانی سر سے گزر جائے اوران کے پاس ہنگامی حالات سے نمٹنے کا کوئی منصوبہ بھی موجود نہیں ہوتا۔ انتظامی مشینری بھی اپنی سٹرکچرل کمزوریوں اور سیاسی دباؤ کے باعث ایسی صورتحال کو ٹھوس انداز میں سنبھالنے میں ناکام رہتی ہے۔
حالیہ احتجاج بے قابو ہونے کی پہلی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ریاست اپنی روایتی گرفت کھو بیٹھی۔ ریاست کے پاس امن و امان یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرنے اور طاقت کے استعمال کا قانونی جواز اور صوابدیدی اختیار ہوتا ہے جس پر وہ مکمل اجارہ داری رکھتی ہے‘ مگر مختلف اندرونی اور بیرونی اداروں کی ریاستی معاملات میں بے جا مداخلت سے اس اختیار کو غیر مؤثر کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ دوسری بڑی اور سب سے اہم وجہ ریاست کا ہجوم کے ساتھ نمٹنے کا طریقہ کار تھا‘ وردی کا ڈر ہمیشہ ہجوم کیلئے Red Ragثابت ہوتا ہے جس پر وہ ہر صورت حملہ کرتے ہیں؛چنانچہ یہی ہوا‘ پولیس اس ہجوم کے ساتھ نمٹنے اور لاء اینڈ آرڈر یقینی بنانے میں بری طرح ناکام رہی۔ دراصل پولیس کو بہتر اور مؤثر کارکردگی دکھانے کیلئے ہمیشہ قابل سیاسی اور صوبائی لیڈر شپ کی ضرورت رہتی ہے‘ جس طرح نو آبادیاتی دور کا مجسٹریٹی نظام تھا‘ اُس دور میں مضبوط ریاستی رِٹ قائم ہونے کی وجہ قابل انتظامی مجسٹریٹس کی کارکردگی اور ان کی عمدہ حکمت عملی کے باعث لاجواب طرزِ حکمرانی تھی‘جہاں عوام بشمول احتجاجی ہجوم کے ساتھ معاملات نچلی سطح پر خالص انتظامی طریقہ کار سے نمٹائے جاتے تھے اور پولیس کی معاونت ہوتی تھی؛ چنانچہ ہجوم سے نمٹنے‘ مذاکرات اور مسائل کے حل کیلئے انتظامی نوعیت کی مصلحتیں ہی درکار ہوتی ہیں۔ ویسے بھی ہم اپنے عسکری اداروں کو کہاں کہاں استعمال کرتے رہیں گے؟
لب لباب یہ کہ انتہا پسندی پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے ‘جس سے نمٹنے کیلئے ریاست کو دانش مندانہ فیصلے کرنے اور مؤثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ حالیہ واقعے نے یہ بتا دیا کہ ایسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہماری منصوبہ بندی صفر ہے۔پرویز مشرف کے دور میںNational Crisis Management Cell کی بنیاد رکھی گئی تھی جس ادارے نے اندرونی اور بیرونی دہشت گردی اور انتہا پسندی پر قابو پانے کیلئے قابلِ تعریف اقدامات کئے۔آج ملک میں ایسے اداروں کو مزید مضبوط‘ وسیع اور فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح صوبائی خود مختاری کے بعد ملک میں سیاست سے لے کر انتظامیہ تک ہر ادارہ تقسیم ہوچکا ہے؛ چنانچہ انتہا پسندی جیسے مسئلے سے نمٹنے کیلئے سب کا یکسو ہونا ناگزیر ہے۔ اسی طرح ملک میں علماء کی یکجہتی کیلئے بھی کوئی میکنزم یا ٹھوس ڈھانچہ موجود نہیں ہے‘ لہٰذا علماء پر مشتمل ایسا ایک مضبوط ادارہ بنایا جائے جو فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے بھرپور کردار ادا کرے۔ہمارے گلی کوچوں میں فرقوں ‘ مسالک‘ برادری اور لسانیت کا شور تو ہر وقت برپا رہتا ہے مگر کیا ہمیں بہترین مسلمان بنانے اور اتحاد و اتفاق کی تلقین کیلئے تعلیم میں کوئی نصاب موجود ہے؟ حکومت کو تعلیمی نصاب کی طرف بھی خاص توجہ دینا ہوگی۔ ویسے تو اب کالعدم ٹی ایل پی اور حکومت کے درمیان مذاکرات طے پا گئے ہیں اور احتجاج بھی ختم ہو چکا ہے‘ لیکن اگر ریاست نے جلد ہی قومی سطح پر ہم آہنگی بڑھانے کیلئے ذمہ دارانہ اور ٹھوس اقدامات نہ کئے تو ایسے طوفان پھر سے اٹھ سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved