تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     23-04-2021

پولیس اور ڈاکٹر

لاٹھیوں، ڈنڈوں، پتھروں اور گولیوں کی بارش کو شکست دیتے ہوئے غازی ڈاکٹر فضل الرحمن جاں بلب مریضوں کیلئے زندگی کا پیغام لاتے ہوئے آکسیجن سلنڈرز کا وہ کنٹینر بحفاظت لانے میں کامیاب ہو گئے جس کے انتظار میں گوجرانوالہ کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں جان کنی کی حالت میں 125 مریض اور ان کے لواحقین تڑپ رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب ڈسٹرکٹ ہسپتال گوجرانوالہ میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز ہیں۔ ایک طرف سانسوں کی ٹوٹتی ہوئی ڈوریں تھیں تو دوسری طرف لاٹھیوں، ڈنڈوں سے لیس اور سڑکوں پر دھرنا دیے بپھرا ہوا ہجوم۔ پہلے سوچا گیا کہ پولیس کی بھاری نفری بھیج کر یہ کنٹینر نکالا جائے لیکن ایسا ممکن دکھائی نہیں دے رہا تھا کیونکہ جیسے ہی پولیس کی وردی پر احتجاج کرنے والوں کی نظر پڑتی‘ وہ آگ کا گولہ بن کر اہلکاروں پر ٹوٹ پڑتے اور جس طرح دوسری نجی اور سرکاری گاڑیوں کو آگ لگائی گئی تھی‘ خدشہ تھا کہ وہ اس کنٹینر کو بھی نذرِ آتش کر دیں گے۔ بالآخر انسانیت کی خدمت کے جذبے سے لبریز ڈاکٹر فضل الرحمن نے خود اس کنٹینر کو مشتعل ہجوم کی گرفت سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب کو بھی کانسٹیبل محمد افضل، علی عمران اور ان جیسے سینکڑوں جوانوں اور افسروں کی طرح ہجوم نے کانٹے لگے ڈنڈوں سے ادھیڑنا چاہا لیکن وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر درود پاک پڑھتے ہوئے ہجوم میں کود گئے اور سینکڑوں جاں بلب مریضوں کیلئے آکسیجن کا کنٹینر صحیح سلامت لے کر گوجرانوالہ ہسپتال پہنچ گئے۔ نجانے ہلالِ پاکستان یا ستارۂ امتیاز دینے کا ''کرائی ٹیریا‘‘ کیا ہے لیکن اگر کسی نے انصاف کیا اور اس بہادری اور جانفشانی کو سامنے رکھا تو ڈاکٹر فضل الرحمن کا نام اس کا صحیح حقدار دکھائی دے گا۔
ڈاکٹرز اور پولیس سے مجھے اور آپ کو شکایات رہتی ہیں‘ ان پر غصہ بھی بہت آتا ہے‘ ڈاکٹرز کی مہنگی فیسوں اور سرکاری ہسپتالوں میں ان کی لاپروائی آئے روز دیکھی جا سکتی ہے۔ پولیس اہلکاروں کو رشوت کے نام پر عوام سے لوٹ مار کرتے بھی ہم سبھی دیکھتے ہیں‘ غریب اور کمزور لوگوں سے ان کے ناروا سلوک پر ہم سب کڑھتے ہیں۔ چوری چکاری کی رپورٹ لکھوانے اور داد رسی کیلئے پولیس تھانوں کے دروازوں پر کئی کئی دن دھکے بھی کھانا پڑتے ہیں لیکن ساتھ ہی ہم سب آئے روز پولیس کے جوانوں اور افسروں کو ڈاکوئوں، اغوا کاروں اور دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنتے بھی دیکھتے ہیں۔ سخت سردی، شدید گرمی، تیز دھوپ، بارش، آندھی اور طوفانوں کے دوران بھی پولیس اہلکاروں کو اپنی ڈیوٹی کرتے ہم سب نے دیکھ رکھا ہو گا۔ آئے روز ہونے والے ہنگاموں، جلسوں اور جلوسوں میں انہیں کئی کئی گھنٹے سڑکوں پر خوار ہوتے اور پھر ڈی آئی جی کیپٹن مبین جیسے پولیس افسروں کو خود کش حملوں کا نشانہ بنتے بھی ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ان کے اوقات کار آٹھ یا دس گھنٹوں پر محیط نہیں ہوتے بلکہ انہیں چوبیس گھنٹے آن ڈیوٹی رہنا پڑتا ہے۔ کسی بھی پولیس سٹیشن یا پولیس لائنز جانا ہو تو یہ اہلکار کس تنگی اور دشواری سے یہ نوکری کرتے اور زندگی گزارتے ہیں‘ یہ مناظر ہمارے ہوش ٹھکانے کر دینے کیلئے کافی ہوں۔ کسی دہشت گرد اور ملکی مفادات کے خلاف کام کرنے والے فرد کی تلاش ہو یا خطرناک مجرموں کا پیچھا کرنا ہو‘ کسی قبضہ گروپ کے جبڑے سے پرائیویٹ و سرکاری املاک واگزار کرانی ہوں یا کوئی اور ڈیوٹی، یہی پولیس‘ جس سے ہمیں شکوے بھی ہیں اور شکایات بھی‘ اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر ملکی قانون اور سالمیت کے دشمنوں کے خلاف سینہ سپر ہو جاتی ہے۔ اس کے پاس وہ اسلحہ بھی نہیں ہوتا جو اس کے مقابلے پر اترے دہشت گردوں اور ڈاکوئوں کے پاس ہوتا ہے‘ مگر اس کے باوجود پولیس کو ڈر کر بھاگتے اورچھپتے نہیں بلکہ ہمیشہ سینہ تانے اپنی جانیں قوم اور فرض پر قربان کرتے دیکھا گیا ہے۔
کانسٹیبل علی عمران کی طرح کانسٹیبل محمد افضل بھی اپنے پورے گھر کا واحد کفیل تھا۔ محمد افضل ایسا عاشق رسولؐ تھا کہ درود شریف اور حضور نبی کریمﷺ کی شان میں نعتیہ کلام سنتے ہوئے وہ جھوم جھوم جاتا۔ اس کا معمول تھا کہ پولیس سٹیشن میں بیٹھے ہوئے بھی فارغ اوقات میں نعت رسول مقبول کو اپنے ہونٹوں کی زینت بنائے رکھتا۔ اپنے قتل سے چند لمحے قبل تک بھی وہ حضور نبی کریمﷺ کی شان بیان کر رہا تھا۔
کوئی گل باقی رہے گا نے چمن رہ جائے گا
بس رسول اللہﷺ کا دینِ حسن رہ جائے گا
محمد افضل کا قتل بدقسمتی سے ایسے ہاتھوں سے ہوا کہ غالباً جنہیں دین کی بنیادی باتوں کا بھی علم نہیں۔ وڈیو دیکھیں تو صاف دکھائی دے رہا ہے کہ جو ہجوم پولیس اہلکاروں پر تشدد کر رہا ہے‘ نماز، قرآن تو دور اسے تو مدتوں وضو کی سعادت بھی نصیب نہیں ہوئی ہو گی۔ شالیمار تھانے میں تعینات کانسٹیبل علی عمران کے بچے اب بھی ہر وقت بیرونی دروازے کی جانب دیکھتے رہتے ہیں کہ شاید ابھی کہیں سے علی عمران واپس آ جائے گا اور وہ اس سے لپٹ جائیں گے لیکن ان کی نظریں اور خواہشات آنسوئوں کی شکل میں بہتی چلی جاتی ہیں۔ ان کے شہید بابا علی عمران کی گواہی یقینا یہ ارض و سما دیں گے کہ عشق رسولﷺ اس کی گھٹی میں سمایا ہوا تھا۔ علی عمران مبینہ طور پر ایک سیاسی جماعت کی وحشت کی نذر ہو گیا جس نے حکومت وقت کو نیچا دکھانے کیلئے اپنے کونسلرز کو حکم جاری کر رکھا تھا کہ اپنے لوگوں کو لے کر باہر نکلو۔ علی عمران کے سر اور پسلیوں کو لاٹھیوں اور گھونسوں سے جس طرح نشانہ بنایا گیا وہ کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا۔ کچھ حضرات اور اینکرزکہہ رہے ہیں کہ جماعت پر غلط الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو وائرل ہونے والی وہ وڈیوز دیکھنے کی ہمت کرنی چاہیے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ ان ہنگاموں کے پیچھے کون تھا؟ کس نے ان کے لیے سرمایہ فراہم کیا، کس نے ٹرانسپورٹ مہیا کی، کس نے ٹارگٹ دیے، کس نے رنگین کانٹے لگے ڈنڈے فراہم کیے؟ کانسٹیبل علی عمران کو جب لاٹھیوں، ڈنڈوں اور اینٹوں سے مارا جا رہا تھا تو اس کی زبان اﷲ، رسول اور قران پاک کا واسطہ دیتے ہوئے سب سے فریاد کر رہی تھی کہ مجھے نہ مارو لیکن اسے مارنے والے ان متبرک ناموں کو سن کر بھی نہیں لرزے۔ جان کنی کی حالت میں درد سے کراہتے ہوئے علی عمران نے کہا ''یاد رکھنا میری فریادیںعرش سے خالی واپس نہیں آئیں گی کیونکہ میری ہر فریاد میں وسیلۂ حضورﷺ شامل ہے‘‘۔
سبز رنگ کے کانٹے لگے ایک جیسے ہزاروں مضبوط ڈنڈے ایک رات میں تو تیار نہیں ہوتے‘ آخر کسی نے تو ان ڈنڈوں کی تیاری کا آرڈر دیا ہو گا، ہزاروں کی تعداد میں یہ ڈنڈے کسی ٹرک یا بڑے وہیکل سے ہی لائے گئے ہوں گے، پھر انہیں مخصوص ٹھکانوں پر بھی پہنچایا گیا ہو گا۔ اگر لاہور کے علاقوں کاہنہ، باغبانپورہ، مغلپورہ، داروغہ والا، شاہدرہ، نیازی چوک، سگیاں پل، ہنجروال، ٹھوکر نیاز بیگ اور بھٹہ چوک کی وڈیوز دیکھیں تو خانہ بدوشوں کے پندرہ سے اٹھارہ سال عمرکے سینکڑوں لڑکے اس ہجوم میں دکھائی دیں گے جنہیں لانے والے سہولت کار یقینا جانتے تھے کہ ان کا نادرا کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں، پولیس کے جوانوں اور افسران کو بے دریغ لاٹھیوں سے پیٹتے ہوئے ان لڑکوں کی حالت بتا رہی تھی کہ یہ مدتوں سے نہائے نہیں‘ ان کے لباس کو دیکھ کر بخوبی اندازہ ہو جاتا تھا کہ نجانے کب سے انہوں نے یہ کپڑے پہن رکھے ہیں۔
لاہور کے دس سے زائد مقامات پر ان خانہ بدوشوں کے ٹھکانوں کی ایک ہفتہ تک مانیٹرنگ کیجئے‘ سب شکلیں سامنے آ جائیں گی۔ تحقیقاتی ایجنسیاں اتنا کھوج تو لگا ہی سکتی ہیں کہ ان خانہ بدوشوں کو ان جگہوں پر‘ جہاں یہ آباد ہیں‘ کس کس نے جگہ فراہم کر رکھی ہے یا کس کس نے ان کی آڑ میں قیمتی سرکاری اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved