جو خوفناک صورت حال انڈیا میں کورونا کی وجہ سے پیدا ہوچکی ہے یا پاکستان میں ہونے کا خطرہ بتایا جارہا ہے مجھے اس پر حیرانی نہیں لیکن ایک انسان ہونے کے ناتے دکھ ضرور ہے۔
بھارت میں اس وقت لوگ سڑکوں پر گرے پڑے ہیں، ہسپتالوں میں آکسیجن ختم ہوچکی ہے، شمشان گھاٹوں اور قبرستانوں میں مردوں کی آخری رسومات کی گنجائش ختم ہو چکی۔ جلانے کیلئے لکڑیاں نہیں مل رہیں۔ ہر طرف قیامت کا سماں ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں بھی ایسی ہی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ اسلام آباد کے بڑے ہسپتال نے مزید مریضوں کو داخل کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ فواد چوہدری نے خبردار کیا ہے کہ آکسیجن نوے فیصد تک پہنچ چکی۔ لیکن ہم مطمئن ہیں کہ ابھی بھارت سے بہتر حالات میں ہیں اور ہمیں یہ محسوس نہیں ہورہا کہ ہم دھیرے دھیرے اس طرف جارہے ہیں۔ اسلام آباد میں فوج بلا لی گئی ہے جو لوگوں کو پابند کرے گی کہ وہ کورونا ایس او پیز پر عمل کریں۔ ایس او پیز کیا ہیں؟ منہ پر ماسک پہنچیں، ایک دوسرے سے فاصلہ رکھیں اور جو وقت حکومت نے مقرر کیا ہے اس پر اپنا کاروبار بند کریں۔ یہ وہ کام ہیں جو ہر نارمل انسان کو خود کرنے چاہئیں لیکن اس کام کے لیے بھی پاکستان میں آئین کے تحت حکومت کو ملی پاورز کے تحت فوج بلا لی گئی ہے۔ اندازہ کریں‘ اس ملک میں لوگوں کو منہ پر ماسک پہنانے کیلئے فوج بلائی گئی ہے۔ پولیس اور دیگر سول ادارے ناکام ہو گئے ہیں کہ وہ لوگوں کو قائل کر پاتے کہ وہ ماسک پہن لیں۔
سوال یہ ہے پاکستان میں لوگ سول حکمرانوں یا پولیس کی بات کیوں نہیں سنتے اور بات بھی وہ جس میں ان کا اپنا فائدہ ہے؟ پولیس عوام کو کہے گی سر پر ہیلمٹ پہن لو۔ نہیں پہنیں گے۔ پولیس کہے گی‘ سیٹ بیلٹ لگا لو۔ نہیں لگائیں گے۔ پولیس کہے گی اوور سپیڈنگ نہ کرو‘ تو بھی کریں گے۔ پولیس کہے گی‘ سرخ بتی نہ توڑو، لوگ مر جائیں گے لیکن ان معمولی اور بے ضرر ہدایات پر عمل نہیں کریں گے جن سے ان کی جان بچ سکتی ہے۔
ایک تو وہی بات کہ عوام کے دل سے حکمرانوں کے مسلسل جھوٹ، فراڈ اور کرپشن کی داستانیں سن سن کر ان کی ساکھ ختم ہو چکی ہے۔ کوئی بھی انسان کسی ایسے انسان کی بات نہیں سنے گا جس کی وہ عزت نہیں کرتا‘ لہٰذا حکمران لاکھ عوام کو بھاشن دیتے رہیں کہ یہ کرو‘ وہ کرو‘ وہ نہیں کریں گے۔ حکمرانوں یا اداروں کے سربراہوں کی ساکھ ختم ہو چکی ہے۔ کوئی ایسا نہیں بچ گیا جس کی ایک آواز پر سب خاموش ہو جائیں یا وہی کریں جو ان کا حکمران چاہتا ہے۔ دوسرا یہ کہ حکمران اور لیڈرز یا سیاستدان جو کچھ عوام کو کرنے کو کہتے ہیں‘ وہ خود نہیں کرتے لہٰذا ان کی بات کا کسی پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لیڈروں کو پتا ہے ان کی منافقت اور ان کا جھوٹ ہی بکتے ہیں۔
اب مجھے بتائیں عوام کیسے بازاروں اور شاپنگ مالز میں اکٹھے نہ ہوں جب وہ دیکھتے رہے ہیں کہ عمران خان، مریم نواز، مولانا فضل الرحمن‘ اور دوسرے لاکھوں کے جلسوں کو کراچی، گوجرانوالہ، کوئٹہ، سوات، گلگت، لاہور تک خطاب کرتے رہے ہیں؟ وزیر اعظم دوسروں کے جلسوں پر تنقید اور خود جلسوں سے خطاب بھی کرتے رہے۔ حکمران اور اپوزیشن جماعتوں میں مقابلہ لگ گیا کہ کون زیادہ لوگ اکٹھے کر سکتا ہے۔ جن دنوں کورونا پھیل رہا تھا دونوں پارٹیاں مقابلے پر تھیں۔ داد تو عوام کو دیں جن کا خیال تھا‘ یہ کورونا وغیرہ سب فراڈ ہے‘ مغربی سازش ہے، کسی کو کچھ نہیں ہوگا۔یہی کچھ بھارت میں ہوا۔ وہاں بھی کورونا کے دنوں میں الیکشن ریلیاں ہونے لگیں۔ لیڈروں نے جلسے جلوسوں پر توجہ دی۔ سب کو یہ فکر تھی کہ ووٹ کہیں نہ جائے۔ کرسی کو کچھ نہ ہو چاہے لاکھوں لوگ مرتے ہیں یا سڑکوں پر پڑے جان دیتے ہیں۔ اور تو اور کمبھ کے تاریخی اور مذہبی میلے کی اجازت دے دی گئی جس میں ہزاروں ہندوئوں نے اپنے مقدس دریا میں اشنان کیا۔ یوں کورونا پھیلا جس نے اب پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہندوستان یا پاکستان کے لوگ سازشی تھیوریز پر کیوں جلدی ایمان لے آتے ہیں؟ مغربی معاشرے ان سازشی تھیوریز کا اس طرح شکار کیوں نہیں ہوتے جیسے یہاں کے لوگ ہوتے ہیں؟ مغربی معاشرے کیوں ہر مشکل بات میں کوئی نہ کوئی دلیل ڈھونڈ لیتے ہیں جو عقل کو اپیل کرتی ہے جبکہ ہمارے خطے کے لوگ وہ ذہنی دلیلیں ڈھونڈنے میں ناکام رہتے ہیں لہٰذا جہاں ہمارے ذہن کی پرواز رک جاتی ہے اور ہم کسی ایشو کا ذہنی اور عقلی جواز نہیں ڈھونڈ پاتے تو سازش کی افیون میں پناہ ڈھونڈتے ہیں اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے خود کو یقین دلاتے ہیں کہ اب خطرہ ٹل گیا ہے کیونکہ بلی نظروں سے غائب ہوگئی ہے۔
ہندوستان اور پاکستان مشترکہ طور پر صدیوں بیرونی حملہ آوروں کا شکار رہے۔ کمزور ملک ہوں، غلام معاشرے ہوں یا انسان وہ دھیرے دھیرے سازشوں پر ایمان لے آتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ غریب‘ چاہے وہ معاشی غریب ہو‘ ذہنی پس ماندہ بھاگ کر سازشی تھیوریز پر یقین کرے گا۔ سازشی تھیوری اس کیلئے افیون کا کام دیتی ہے۔ یہ سوچ کر اس کا ذہن سو جاتا ہے کہ یہ اس سے اوپر کا کام ہے۔ دنیا کے کچھ برے لوگ اس کے ملک، مذہب اور ترقی کے خلاف یہاں سے ہزاروں میل دور بیٹھے کچھ سازشیں کررہے ہیں‘ لہٰذا نہ انہوں نے وائرس کو سیریس لینا ہے، نہ انہوں نے ویکسین لگوانی ہے اور نہ ہی ایس او پی ایز کا خیال رکھنا ہے۔ بچوں کی افزائش روکنے جیسے خیالات سب سے پہلے ان کے ذہن میں آتے ہیں اور یہ کہ بل گیٹس نے اکیلے یہ سوچ لیا ہے کہ اس ویکسین کے ذریعے وہ دنیا کی آبادی کم کرنے والا ہے اور ہمارے اندر چپ ڈالوا دے گا۔
دوسری طرف ہمارے اندر یہ یقین ہے جس دن موت نے آنا ہے وہ دن مقرر ہے۔ حالانکہ اسلام کہتا ہے اپنی جان بچانا سب سے اہم اور افضل ہے‘ اس لیے خودکشی کو حرام قرار دیا گیا۔ حکم دیا گیا کہ پہلے اونٹ کو درخت سے باندھ دو پھر اللہ پر توکل کرو۔ایک بات تو ہے‘ چاہے دونوں ملکوں کے ایشوز اور حالات مختلف ہوں لیکن ہم سب کی عادتیں اور رویے ایک جیسے ہیں اور ہم سب سازشی تھیوریز پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ یہی دیکھ لیں دونوں ملکوں کے لوگ مرنے کو تیار ہیں لیکن منہ پر ماسک نہیں چڑھائیں گے۔ ہندوستانی اگر ہزاروں کی تعداد میں دریا پر نہانے چل پڑے تو ہم نے بھی شادیوں کے موسموں میں نئی جان ڈال دی، جلسوں میں شریک ہوئے اور کورونا میں ایسی جان ڈالی کہ اب فوج بلا لی گئی ہے جو ایس اوہ پیز پر عملدرآمد کرائے گی۔پاکستان ہو یا بھارت یہاں عوام اپنے مرنے کا جواز خود ڈھونڈ لیتے ہیں اور حکمرانوں کو کچھ نہیں کہتے۔ وہاں مودی صاحب کورونا کے دنوں میں جلسوں سے خطاب کررہے تھے تو ہمارے وزیراعظم بھی جلسوں سے خطاب کرتے رہے۔خود کورونا کا شکار ہوئے تو ماسک پہننا شروع کیا ۔
آج کل سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ چل رہی ہے جو اس خطے کی ہزاروں سال جاہلیت کو سامنے لاتی ہے۔ بھارت کے پاس ویکسین ہے لیکن آکسیجن نہیں۔ پاکستان کے پاس آکسیجن ہے لیکن ویکسین نہیں‘ لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے پاس بڑے بڑے بم ہیں اور دونوں ممالک روز واہگہ پر مقابلہ کرتے ہیں کہ کس ملک کے سپاہی کا پائوں دوسرے سے زیادہ اوپر جا سکتا ہے۔عوام کو آکسیجن یا ویکسین سے غرض نہیں‘ چاہے وہ سڑکوں پر آکسیجن یا ویکسین کی تلاش میں ناکام ہو کر مرتے رہیں، شمشان گھاٹوں اور قبرستان میں جگہ نہ بچے‘ لیکن بم دونوں ملکوں کے عوام کیلئے زیادہ ضروری تھے۔ کورونا نے بتا دیا‘ بموں کے بغیر بھی دونوں ملکوں میں تباہی لائی جاسکتی ہے۔ ایک ملک کے پاس آکسیجن نہیں تو دوسرے کے پاس ویکسین لیکن خوفناک بم دونوں کے پاس ہیں۔