تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     25-04-2021

کرنے کے کام

نالائقی، نا اہلی اور عدم استعداد بارے اب کیا لکھا جائے؟ مگر مجبوری یہ ہے کہ لکھے بغیر چارہ بھی نہیں۔ ان خصوصیات کے اوپر مزید طرہ یہ ہے کہ نان ایشوز کو خواہ مخواہ ایشوز بنانا بھی اس حکومت پر ختم ہے۔ وزیروں کے بارے کیا کہیں؟ ایک سے ایک بڑا تحفہ۔ یہ لفظ تحفہ پنجابی میں اپنا لطف رکھتا ہے اور اسے صرف پنجابی ہی صحیح طور پر لطف لے کر محسوس کر سکتا ہے۔
اللہ خوش رکھے ہمارے وزیر فواد چودھری صاحب کو۔ جب اطلاعات سے تبدیل ہو کر وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی بنائے گئے تو ان کی ساری سائنس اور کلہم ٹیکنالوجی چاند چڑھانے پر ختم ہو جاتی تھی۔ انہوں نے اپنی اس وزارت کے دوران جتنا زور چاند کی دیکھ بھال پہ صرف کیا، اگر اس کا نصف بھی سائنس پر دیتے تو کم از کم ہم بھی کورونا ویکسین ایجاد کر چکے ہوتے مگر ان کی ساری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اس سارا عرصہ چاند کے گرد گھومتی رہی اور صورت حال یہ ہو گئی کہ پہلے ہماری سرکاری رویت ہلال کمیٹی کو صرف مسجد قاسم علی خان پشاور والے مفتی شہاب الدین پوپلزئی ہر عید پر بھسوڑی ڈالتے تھے‘ بعد ازاں ہماری سرکاری رویت ہلال کمیٹی کو دو طرفہ پھڈے سے پالا پڑنے لگ گیا۔ دوسرا پھڈا جناب فواد چودھری صاحب ڈالا کرتے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس بار عید سے قبل ہی ان کی وزارت تبدیل ہو گئی ہے ورنہ اس بار انہوں نے مفتی منیب الرحمن کی جگہ مولانا عبدالخبیر آزاد سے سینگ پھنسا لینے تھے۔ ہمارے ایک مہربان نے نئی چھوڑی ہے اور وہ سب کو کہتے پھر رہے ہیں کہ اس بار حکومت نے عید پر چاند کے معاملے میں متوقع دو طرفہ حملوں سے بچنے کے لیے فواد چودھری صاحب کو رد فساد کے طور پر دوبارہ وزیر اطلاعات بنا دیا ہے اور شنید ہے کہ پشاور کی مسجد قاسم علی خان کے خطیب مفتی شہاب الدین پوپلزئی کو اس بار سرکاری طور پر چاند دیکھنے والی صوبائی رویت ہلال کمیٹی میں شریک ہونے کی دعوت دی ہے۔ واللہ اعلم۔ یہ بات کس حد تک درست ہے‘ کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ لیکن اگر ایسا ہے تو مفتی پوپلزئی صاحب کو اس سے بہتر طریقے سے قابو نہیں کیا جا سکتا۔
میں نے جو نان ایشوز کو ایشوز بنانے کی بات کہی ہے تو اس کی تازہ مثال قومی ایئر لائن کے ہوائی عملے کے دوران ڈیوٹی روزہ رکھنے پر پابندی کا نوٹیفکیشن ہے۔ ایسی حرکت کے لیے پنجابی زبان کی ایک کہاوت ہے جس کا مفہوم ہے کہ اچھے بھلے چلتے بیل کو چابک مارنا یعنی ایسی حرکت کرنا جس کا نہ کوئی منطقی جواز ہو اور نہ ہی ضرورت۔ بھلا دوران پرواز پائلٹ نے جہاز کو دھکا لگانا ہوتا ہے؟ کیا سٹیورڈز نے درمیان میں کسی سٹاپ پر سواریاں گھیر کر لانی ہیں اور ان کا سامان ڈھونا ہے؟ اندرون ملک پروازوں پر الحمدللہ ایک عرصے سے گرم مشروبات پر پابندی ہے اور رمضان کے دوران اگر افطاری کا وقت پرواز کے درمیان آ جائے یا فوراً بعد ہو تو ایک عدد افطار باکس پکڑا دیا جاتا ہے جو بظاہر نہ کسی مشقت کا کام ہے اور نہ ہی محنت طلب۔
یہ بات درست ہے کہ جن کاموں کے دوران روزہ چھوڑنا افضل ہو ان میں روزہ ضرور چھوڑنا چاہیے؛ تاہم ایسے معاملے میں روزے کی قضا ادا کرنے کا حکم ہے، جیسے میرے آقاﷺ نے دورانِ جنگ روزہ چھوڑ کر جنگ کرنے والوں کو روزہ دار مجاہدین سے افضل قرار دیا کہ حالت جنگ میں کمزوری کی کوئی قضا نہیں۔ لیکن دوران پرواز نہ کوئی مشقت ہے اور نہ ہی جسمانی زور آزمائی۔ ایسے میں روزہ رکھنا یا نہ رکھنا عملے کے افراد کا صوابدیدی معاملہ سمجھا جاتا تھا اور عشروں سے اسی پر عمل ہو رہا تھا، لیکن خدا جانے یہ کون بزرجمہر ہیں جو اس قسم کے نابغہ قسم کے مشوروں سے نان ایشوز کو ایشوز بنانے میں مصروف ہیں۔ پہلے ہی بہت سے خود ساختہ مسائل کا شکار اس حکومت کو خدا جانے کیسے کیسے اچھوتے خیال آتے ہیں اور وہ نئے سے نئے مسائل کو گھیر گھار کر اپنے کھاتے میں ڈالنے میں لگی ہوئی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ پی آئی اے انتظامیہ یورپ کے لیے اپنی پروازوں پر لگی ہوئی پابندی کو ختم کروانے کے لیے کوشش کرے۔ جہازوں کے عرصے سے خراب انٹرٹینمٹ سسٹم کو ٹھیک کرنے کی سعی کرے۔ اپنے عرصہ دراز سے چلنے کے بعد بند ہونے والے سیکٹرز کو دوبارہ سے فعال کرے۔ عملے کو خوش اخلاقی کا سبق پڑھائے اور کارکردگی بہتر کرے، لیکن ہو کیا رہا ہے؟
درج بالا ساری خرابیاں ظاہر ہے حالیہ حکومت کی پیدا کردہ نہیں ہیں۔ ان میں سے صرف یورپی ممالک کے لیے پی آئی اے کے آپریشن پر پابندی ہمارے پیارے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کی ذاتی کاوشوں کی مرہونِ منت ہے ورنہ دیگر ساری خرابیاں موجودہ حکومت کو جہیز میں ملی ہیں‘ لیکن انہیں کسی نے تو ٹھیک کرنا ہے۔
میاں نواز شریف کے آئیڈیل دور کی بات ہے، میں لاہور سے نیو یارک جا رہا تھا۔ تقریباً چودہ پندرہ گھنٹے کی اس فلائٹ کے دوران بوئنگ 777 کے سارے جہاز کا انٹرٹینمٹ سسٹم خراب تھا۔ غضب خدا کا‘ پندرہ گھنٹے کی فلائٹ میں کسی مسافر کو وقت گزارنے کے لیے کچھ بھی میسر نہیں تھا۔ دوران پرواز نیند آنے لگی تو ایئر ہوسٹس سے تکیہ اور کمبل مانگا۔ معلوم ہوا کہ جتنے کمبل اور تکیے تھے وہ تو مسافروں میں بانٹے جا چکے ہیں‘ اب مزید میسر نہیں کہ آپ کو دیے جا سکیں۔ گزشتہ حکومتوں نے خسارہ کم کرنے کا بہترین حل یہ نکالا کہ بہت سارے بین الاقوامی روٹ ہی ختم کر دیئے کہ نہ ہو گا بانس نہ بجے کی بانسری۔ نیو یارک، شکاگو، واشنگٹن، برمنگھم، گلاسکو، فرینکفرٹ، ایمسٹرڈیم، روم، ممبئی، قاہرہ، تریپولی، منیلا، ہانگ کانگ، سنگا پور، جکارتہ، کولمبو، ڈھاکہ حتیٰ کہ کویت تک کے روٹ بند ہو گئے۔ اس دوران کاروبار کے ماہر نواز شریف، معاملات چلانے کے ماہر آصف زرداری اور ہوا بازی کے بزنس کے نابغہ اور سپیکر کو جوتا مارنے کی دھمکی دینے والے شاہد خاقان عباسی وغیرہ آہستہ آہستہ اس ادارے کو ڈبوتے چلے گئے۔ اس دوران شاہد خاقان عباسی کی اپنی ایئر لائن تو بہتر سے بہترین ہو گئی اور قومی ایئر لائن خراب سے خراب تر۔ ظاہر ہے عشروں کی خرابیاں پلک جھپکتے تو ٹھیک نہیں ہو سکتیں، لیکن کچھ ابتدا تو ہونی چاہیے تھی اور ہوئی کیا؟ لے دے کے یورپ کے کچھ مقامات تھے جہاں یہ قومی ایئر لائن کسی طرح اپنا وجود منوا رہی تھی۔ وزیر موصوف کے ایک بیان نے اس کا بھی بیڑہ غرق کر دیا۔
1985 کی این بی اے (نیشنل باسکٹ بال ایسوسی ایشن امریکہ) چیمپئن شپ ہو رہی تھی۔ اس چیمپئن شپ کا فائنل رائونڈ اور رمضان فروری میں شروع ہوا ہوسٹن راکٹس کی کپتانی حکیم عبدل اولا جوآن کے کندھوں پر تھی۔ حکیم اولا جوآن عرف حکیم دی ڈریم نے یہ سارے فائنلز اسی رمضان کے دوران کھیلے اور نہ صرف یہ کہ کوئی روزہ قضا نہ کیا بلکہ نہ کوئی میچ ہارا اور نہ ہی کسی میچ میں کمتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ امریکی باسکٹ بال کی این بی اے کی تاریخ میں ہیوسٹن راکٹس نے پہلی بار چیمپئن شپ اسی سال جیتی اور ہیوسٹن راکٹس کی فتح میں حکیم کا کردار سب سے نمایاں تھا۔ وہ اپنی ٹیم کا ٹاپ سکورر تھا۔
اگر دنیا کی تیز ترین گیم باسکٹ بال کا کھلاڑی روزے میں اتنی عمدہ کارکردگی دکھا سکتا ہے تو پی آئی اے کی آرام دہ پرواز میں روزے دار کو کیا دقت پیش آ سکتی ہے؟ جس نے روزہ از خود نہیں رکھنا وہ نہ رکھے لیکن پی آئی اے انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ اس قسم کے طے شدہ اور مروج معاملات کو چھیڑنے کے بجائے ان خرابیوں کو درست کرنے کی کوشش کرے جو سابق حکومتیں ان کے لیے چھوڑ گئی ہیں اور جو ان کے موجودہ وزیر ہوا بازی نے ان کے لیے پیدا کی ہیں۔ قومی ایئر لائن کو تباہی سے بچانے کے لیے فی الوقت یہ کام ہیں‘ جو کرنے کے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved