میں نے لوہے کی ریلنگ پر ہاتھ رکھے اور سامنے کھلے منظر پر ایک نگاہ ڈالی۔ دریائے کابل کا پانی تیزی سے بہہ رہا تھا۔ سکون اور پانی سے بھرا ہوا کوئی دریا اس نیلے سیارے پر زندگی کی خوبصورتیوں میں سے ایک ہے۔ اس جگہ دریائے کابل کا پاٹ خاصا چوڑا ہے۔ دریا پار سامنے دوسرے سرسبز کنارے پرکچے پکے مکان بنے ہوئے تھے اور ان میں زندگی کی چہل پہل نظر آرہی تھی۔ میری بائیں طرف سے افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں اور اونچی نیچی زمینوں سے گزر کر آتا ہوا یہ دریا اپنے اندر بے شمار رنگ سموئے ہوئے ہے اور کتنی ہی کہانیوں اور حکایتوں کا رازدار ہے۔ برف پوش ترچ میر کے پانیوں سے بنا ہوا دریائے چترال پہلے پاکستان سے افغانستان میں داخل ہوتا ہے پھر ارندو کے مقام پر دریائے کابل میں ضم ہوتا ہے۔ یہ دونوں مل کر آگے سفر کرتے پاکستان پہنچتے ہیں۔ چارسدہ کے علاقے میں زمردی سبز رنگت کا دریائے سوات اس میں آملتا ہے اور یہ سب پانی آگے کا سفر جاری رکھتے ہیں۔ میرے دائیں طرف جاتا ہوا یہ دریائے کابل کچھ آگے چل کر اٹک کے مقام پر اباسین میں مدغم ہوجاتا ہے اور یہاں سے آگے دریائے سندھ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ سنگم بھی میرا دیکھا بھالا ہے اور اس منظر سے یادوں کی مہک پھوٹتی رہتی ہے۔
اک دور کی بستی سے/ آیا ہوں تری دھن میں/ اے خواب سرا دریا/ اس خواب میں ملتے ہیں/ خوشبو سے بھرا جنگل/ پانی سے بھرا دریا
میں ابھی کچھ دیر پہلے نوشہرہ شہر سے کچھ آگے اکوڑہ خٹک کی طرف جاتے ہوئے سڑک اور دریا کے درمیان بنے اس خوبصورت ریسٹورنٹ میں داخل ہوا تھا۔ گھنے درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں تلے بچھے ہوئے تخت اور ان پر لگے ہوئے گاؤ تکیوں نے دن بھر کی آدھی تھکن اتار دی تھی اور باقی آدھی اس دریا کے قرب نے کالعدم کردی تھی جو اپنے دھیان میں گم چلا جاتا تھا لیکن اپنے کناروں پر بسی بستیوں کو رزق اور پانی بانٹنا نہیں بھولتا تھا۔ میں جس کام سے آیا تھا اس میں اکوڑہ خٹک اور پشاور کے مابین بار بار چکرا دینے والے چکر لگتے تھے اور اس میں یہ ریسٹورنٹ ایک گوشۂ عافیت کی طرح تھا۔ میں دریا کے اس کنارے رزق اور پانی سے شاد کام ہوا اور یہ خواہش لے کر رخصت ہواکہ بغیر کسی کام کے اوربہت سی فرصت کے ساتھ اس منظر سے جلد پھرہم کلامی نصیب ہو۔
پشاور بہت کچھ بدل چکا ہے۔ بہت سے راستے پہچانے نہیں جاتے۔ فلائی اوورز، بی آرٹی بس، رنگ روڈ اور نئی عمارتوں نے شہر کا ناک نقشہ، رخسار، چشم و لب سبھی تبدیل کردئیے ہیں۔ یہ بات خوشی کی تھی کہ جن علاقوں سے میرا گزر ہوتا رہا وہ پہلے کی نسبت صاف ستھرے نظر آئے‘ ورنہ ایک زمانے میں کوڑے کے ڈھیر جابجا نظر آتے تھے۔ حیات آباد کے مختلف فیز بھی صاف ستھرے دکھائی دئیے۔ رنگ روڈ پر مسائل ہیں لیکن مجموعی طورپر یہ محسوس ہواکہ اس نے مختلف علاقوں کو جوڑنے میں سہولت کاکردار ادا کیا ہے۔ ٹریفک کا دباؤ پورے پشاور میں بہت زیادہ ہے اور اگر ٹریفک جام میں پھنس جائیں تو کئی گھنٹے اسکی نذر ہوجانا معمولی بات ہے لیکن ٹریفک پولیس کا عملہ بھی اہم جگہوں پر مستعد نظر آیا۔
میں خیبر بازار اور قصہ خوانی کی طرف جارہا تھا۔ یہ علاقہ بھی فلائی اوورز بننے کے بعد تبدیل ہوگیا ہے۔ خیبر بازار کی طرف مڑنے سے پہلے ٹریفک پولیس کے کچھ سپاہی نظر آئے۔ میں نے کوئی غلطی نہیں کی تھی اس لیے مجھے حیرت ہوئی جب ان میں سے ایک نے گاڑی روکنے کا اشارہ کیا۔ میں نے گاڑی روک کر وجہ پوچھی تو اس نے ڈرائیونگ لائسنس مانگا اورکہا کہ آج لائسنس چیکنگ کا دن ہے ۔میں نے بتایا کہ لائسنس میر ے پاس ہے لیکن میں جلدی میں ہوں اور لاہور سے آیا ہوا مہمان ہوں۔ یہ سنتے ہی اہلکار نے سینے پر ہاتھ رکھا اورکہا: آپ مہمان ہیں، آپ جائیے۔ اس نے ہماری رہنمائی کرکے راستہ بھی بتایا۔ کہنے کو معمولی بات ہے لیکن مجھے اس حسنِ اخلاق کی خوشی ہوئی اور میں سوچتا رہاکہ کیا لاہور یا کراچی یا کسی اور شہر میں بھی پولیس اہلکار کا یہی رویہ ہوتا؟
خیبر بازار میں ہجوم بڑھ گیا ہے۔ کورونا کی شدت کے باوجود زندگی کی چہل پہل اسی طرح تھی۔ حسب معمول پیدل والوں کیلئے فٹ پاتھ پر دکانداروں اور ریڑھیوں نے اپنا سودا سجاکر چلنے والوںکا ناطقہ اورراستہ دونوں بند کیے ہوئے تھے۔ قصہ خوانی بازار اور ملحقہ گلیوں کی رونق بھی بدستور ہے۔ کئی پلازا نئے بن چکے ہیں اورتیزی سے آباد بھی ہورہے ہیں۔ جاننے والوں کے ہاں خاص خوشبودار پشاوری قہوہ پیتے، بادام، اخروٹ، کاجو اور کشمش کا ڈرائی فروٹ ہر جُرعے کے ساتھ اتارتے، کھانے کی دعوت کیلئے ہر ایک سے معذرت کرتے، ہم نے چند گھنٹے اسی گہماگہمی میں گزارے۔ خدا ان لوگوں کی محبت اوران گلیوں کی رونق قائم رکھے۔ آمین!
رنگ روڈ اور جی ٹی روڈ پر بہت سے وہ طعام خانے کھل گئے ہیں جو ایک زمانے میں صرف نمک منڈی کی پہچان تھے‘ اوراب پشاور ہی کیا، خیبرتا کراچی ہرشہر میں افغانی اور پشتون مخصوص کھانے دستیاب ہیں۔ ایک خاص لفظ چرسی بھی اب بہت سے ناموں کا حصہ ہے۔ یہ لفظ بہت سے سابقوں لاحقوں کے ساتھ نمک منڈی سے نکلا اور پورے پاکستان میں پھیل گیا۔ جی ٹی روڈ پر ایسے ہی ایک سابق لاحق ریسٹورنٹ میں بیٹھے تو انگاروں پر بھنتے گوشت کی مہک نے بے قرار کردیا۔ نمکین تکہ بکرے یا دنبے کا وہ بار بی کیو ہے جس پر صرف نمک ڈالا جاتا ہے، کوئی مصالحہ شامل نہیں ہوتا۔ اسی طرح دنبے یا بکرے کی کڑاہی بھی الگ ذائقہ رکھتی ہے اور وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس میں گھی نہیں ڈالا جاتا بلکہ دنبے کی چربی میں پکایا جاتا ہے۔ کوئی پشاورآئے اورچپل کباب نہ کھائے توبڑی زیادتی ہے‘ اور ہم نے یہ زیادتی کبھی نہیں ہونے دی۔ اس بار بھی نہیں، تمام مصروفیت کے باوجود۔ چارپائی یا تخت پرگاؤ تکیوں کی ٹیک دسترخوانوں کی روایت ہے۔ لمبوترے بڑے بڑے، موٹے موٹے نان اور روٹیاں جنہیں مجھ جیسا شخص ایک سے زیادہ نہیں کھا سکتا، ان دسترخوانوں کی زینت ہے۔ تازہ کٹے ہوئے کھیرے، ٹماٹر، پیاز کی سلاد اور نمکین رائتہ۔ بس سبحان اللہ۔ شکم سیری کیلئے اس سے بہتر کیا ہے۔ اور اس کے بعد جب سنہری رنگت کا مہکتا قہوہ پی لیا جائے توآنکھیں خود بخود بند ہونے لگتی ہیں۔
بات صرف کھانوں کی ہی نہیں، آب و ہوا، موسم اور ماحول کی بھی ہے۔ یہ کھانے ان سب سے مطابقت رکھتے ہیں‘ لیکن صاحب! سب سے اہم چیزکا ذکر تورہ ہی گیا۔ صحت نہ ہوتو سب دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ جس کو یہ نعمتیں صحت کے ساتھ میسر ہوں بس وہ اس پل کا بادشاہ ہے اور ایک وقت میں بہت سے بادشاہ اکٹھے دیکھنے ہوں تو ان طعام گاہوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
کسی بھی شہرکا اصل تجزیہ رہنے والے ہی کرسکتے ہیں۔ اس کے اصل مسائل کو جس طرح وہ سمجھتے ہیں اورکوئی اس طرح نہیں سمجھ سکتا۔ اس لیے میراپشاور کا یہ تاثران کی رائے سے مختلف ہوتو معذرت لیکن میری بھی ایک دلیل یہ ہوگی کہ ایک ہی علاقے میں، ایک ہی شہر میں رہنے والا ان تبدیلیوں کا خوگر ہوچکا ہوتا ہے۔ اسے ایک سیاح کی آنکھ سے وہ مشاہدہ نہیں مل سکتا جودس سال کے بعد وہ شہر دوبارہ دیکھ رہا ہو۔ بہت دن کے بعد دیکھنے والے کو خدوخال کی یہ تبدیلی اورمنظر کا یہ فرق بہت واضح دکھائی دیتا ہے‘ جوممکن ہے مستقل رہنے والوں کواس طرح نظرنہ آتا ہو۔ پشاور قصہ خوانوں اور داستانوں کا شہرہے اوراس نے ہر بدلتے زمانے میں اپنی یہ طلسمی حیثیت باقی رکھی ہے۔ ایک حصارہے جواس شہر میں وارد ہونے والوں کواپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔ یہ حصار دوسرے شہروں کی کشش سے جدا اور الگ ہے۔ کیا میں اسے بالا حصار کہہ لوں؟