تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     25-04-2021

احتساب کے خلاف گروہ بندی

احتساب‘ یوں لگتا ہے ہمیشہ دوسروں کا ہوتا ہے‘ ذاتی اور پیشہ ورانہ۔ سیاسی میدان میں اسی سوچ کا غلبہ ہے کہ دوسروں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا آسان ہی نہیں انسانی فطرت کے قریب ترین بھی ہے ۔اپنا محاسبہ کرنے کے بجائے دوسروں سے سوال کرنے کی روایت ہے۔ اس رویے کی وجہ یہ سوچ ہے کہ جو کچھ اچھا ہوا اس کی وجہ ہم ہیں اور جو کچھ خراب ہوا اس کی وجہ دوسرے ہیں ۔ کاروباری اور دفتری دنیامیں بھی اسی طرزِعمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ جونیئرافسران باس کے سامنے اپنے ماتحت ملازمین کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں ‘ ملازمین کے سامنے باس کی غلطیاں اجاگر کی جاتی ہیں ۔ اس سے دوسروں پر ذمہ داری ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ غیر ذمہ داری اور کارکردگی کے بحران کی صورت میں نکلتا ہے ۔ شاید اس رویے کی بہترین مثال سیاست کے میدان میں دیکھنے میں آتی ہے ۔ ہر حکومت نظام کو صاف کرنے کے ایجنڈے کے ساتھ آتی ہے۔سابق حکومتوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اُنہوں نے کچھ نہیں کیا ۔ بے لاگ احتساب کے نعرے بلند کئے جاتے ہیں۔ تحقیقات کا آغاز ہوتا ہے ۔ آخر میں عملی طور پر کچھ بھی نتیجہ سامنے نہیں آتا ہے ۔ انکوائریز کو دبادیا جاتا ہے ‘ مخالفین کو ہراساں کیا جاتا ہے اور اُن میں سے چند ایک کی گرفتاری عمل میں آتی ہے۔ اس لیے جب پاکستان کے لوگ احتساب کو محض ایک دکھاوا سمجھتے ہیں تو ان کے سامنے اس کی واضح تاریخ موجود ہوتی ہے کیونکہ ہمارے ہاں اس طرزِ عمل کی مثالیں تو آپ کو ماضی میں ہر دور ِ حکومت میں مل جائیں گی کہ احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کیا گیا اورانہیں مقدمات میں پھنسا کر سیاسی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ۔ احتساب کے نام سے چلنے والی اس مقدمہ بازی کا مقصد کبھی بھی احتساب حقیقی معنوں میں نہیں تھا۔ ہماری تاریخ میں ایسے واقعات عام ملیں گے۔
موجودہ حکومت نے بدعنوانی کا خاتمہ اور احتساب کا نعرہ لگاکر انتخابی کامیابی حاصل کی تھی ۔اپنی آئینی مدت کا نصف مکمل کرنے کے بعد اسے بھی اُسی بدگمانی کا سامنا ہے جس کا پہلی حکومتوں کو رہا ہے ۔ حزب اختلاف شور مچا رہی ہے کہ احتساب کا مقصد اُنہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا ہے ۔ اب جبکہ ایک اہم رہنما کے خلاف تحقیقات ہورہی ہیں ‘ وہ شخص جسے اپوزیشن حکمران جما عت کا کنگ میکر کہتی تھی تو اپوزیشن‘ میڈیا اور تجزیہ کار حیران پریشان ہیں کہ اب وہ حکومت کو کس طرح مورد ِالزام ٹھہرائیں۔ بہرکیف یہ واضح حقیقت ہے کہ احتساب ہمیشہ سے ہی ایک کٹھن چیلنج رہا ہے کیونکہ اس پر وہ لوگ شدید مزاحمت کرتے ہیں جو اس عمل کی زد میں ہوں۔
1۔ اقتدار سے باہر لوگ: اقتدار کا نشہ ہوتا ہے ‘ خاص طور پر اُن لوگوں کے لیے جو اس کے عادی ہوچکے ہوں ۔ پاکستان میں روایتی طور پر دو مرکزی سیاسی جماعتوں‘ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن) اور آمروں کے درمیان اقتدار کی شراکت داری رہی ہے ۔ ان تینوں میں سے کوئی شراکت دار بھی اپنا اختیار کھونا نہیں چاہتا تھا ۔ وہ اقتدار پر قابض رہنے کی پوری کوشش کرتے ہیں لیکن جلد یا بدیر ہٹا دیے جاتے ہیں ۔ اقتدار میں آنے والے اقتدار سے رخصت ہونے والوں کی لوٹ مار بے نقاب کرنے کے دعوے کریں گے‘ کچھ علامتی گرفتاریاں بھی ہوں گی لیکن ڈیل اور سمجھوتے کی وجہ سے حقیقی اور ٹھوس احتسابی کارروائی عمل میں نہیں آئے گی ۔ ہمارے ہاں یہی معمول تھا ۔ جب تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو احتساب کا عمل پورے زور وشور سے شروع کیا گیا لیکن کچھ دیر بعد اس کے غبارے میں سے ہوا نکلنے لگی اور حکومت او ر اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ملزمان ضمانت پر رہا ہونے لگے ۔ اُن کے موقف میں وزن دکھائی دیتا تھا کہ احتساب دراصل سیاسی انتقام کا ہتھکنڈا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب شوگر انکوائری رپورٹ سامنے آئی اور اس میں جہانگیر ترین کا نام آیا تو اپوزیشن نے شور مچایا کہ جہانگیر ترین پر فرد جرم عائد کیوں نہیں کی جارہی ۔ اب جبکہ اُن پر فرد جرم عائد کی جارہی ہے تو اپوزیشن دہائی دے رہی ہے کہ اُنہیں ابھی تک سزا کیوں نہیں ملی ؟کسی بھی دوسری حکومت کی طرح موجودہ حکومت کے سامنے چیلنج اپنے ڈارک ہارس کو تحفظ دینے یا بڑے صنعتی سپانسرز کو خوش کرنے کے درمیان سمجھوتے کا ہے۔
2۔ اداروں میں مداخلت: احتساب کرنے والے اداروں کے اپنے احتساب کی ضرورت ہے ۔ سیاسی مداخلت اور میرٹ کے فقدان نے اُنہیں کھوکھلا کر دیا۔ ان میں طاقتور دھڑوں پر ہاتھ ڈالنے کی سکت ہی نہیں ۔ ذرا تصور کریں کہ مریم نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی دھمکیوں کے بعد احتساب کے ادارے نے قدم پیچھے ہٹا لیے اور ان کے خلاف تحقیقات کرنے میں ناکام رہا ۔ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی(ایف آئی اے)‘ سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان(ایس ای سی پی)‘اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) جیسے ادارے طاقتور افراد کے خلاف بروقت اور مؤثر کارروائی کرنے کی صلاحیت اور سکت نہیں رکھتے ۔ کیسز شروع ہوتے ہیں لیکن وہ اتنے التوا کا شکار ہوجاتے ہیں کہ اُن میں کوئی جان نہیں رہتی ۔ عمومی تاثر ہے کہ انصاف کے اداروں سے بھی انصاف نہیں ملتا‘ وہاں بھی تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں اور تعصب روا رکھا جاتا ہے ۔
3۔ مستفید ہونے والوں کی طرف سے مزاحمت: احتساب کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ صرف طاقتور دھڑا ہی نہیں بلکہ ملزم کے شراکت داربھی ہیں جیسا کہ سرکاری افسران‘ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور اُن کے دوست اور رشتے دارجو کیک میں اپنا حصہ وصول کرتے ہوں ‘ وہ مرکزی ملزم کاتحفظ کرتے ہیں کیوں کہ اُنہیں پتہ ہوتا ہے کہ اگر وہ پکڑاگیا تو وہ سب بھی پکڑے جائیں گے ؛ چنانچہ یہ نیٹ ورک ساز باز‘ رشوت اور بلیک میلنگ جیسے ہتھکنڈے اختیار کرتے ہوئے احتساب کے عمل کو ناکام بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔
4۔ صنعتی استحقاق کھونے والے: احتساب کے خلاف سب سے طاقتور سٹیک ہولڈرز مخصوص مفادات رکھنے والے صنعت کار ہوتے ہیں ۔ وہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ وہ بھاری بھرکم ٹیکس ادا کرتے ہیں ‘لیکن اُنہیں بھاری سبسڈی بھی تو ملتی ہے۔ سبسڈی کے اس کھیل میں اُنہیں اربوں روپے مل جاتے ہیں ۔ بعض اوقات تو یہ رقم اُن کے ادا کردہ ٹیکسز سے بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ حالیہ شوگرسکینڈل اس کی ایک مثال ہے ۔ ذرا تصور کریں کہ 88 شوگر ملوں نے کل 10بلین روپے انکم ٹیکس ادا کیا جب کہ اُنہیں 29بلین روپے کی سبسڈی مل گئی؛ چنانچہ جب شوگر انکوائری رپورٹ سامنے آئی تو پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن اس کے خلاف حکم امتناع لینے عدالت چلی گئی ۔ اُنہوں نے انکوائری کے خلاف تشہیر ی مہم شروع کردی۔ صرف یہی نہیں‘ شوگر کی قلت پیدا کرکے قیمت بڑھا دی تاکہ حکومت کو تحقیقات سے باز رکھنے کے لیے دبائو ڈالا جاسکے ۔
5۔ بیانیہ گھڑنے والے سہولت کار: اس گٹھ جوڑ کے سب سے اہم ارکان بیانیہ گھڑنے والے سہولت کار ہوتے ہیں۔ وہ ترجمان‘ تجزیہ کار‘ اینکر‘ بلاگر‘لکھاری‘ سوشل میڈیا صارفین ہوسکتے ہیں۔ وہ کسی بھی تحقیقات اور احتساب کے عمل کو غیر منصفانہ کارروائی قرار دیتے ہیں ۔ خدشہ یہ ہے کہ انصاف کا عمل بھی اس مہم سے متاثر ہوسکتا ہے ۔ اس کی حالیہ مثال جہانگیر ترین پر بننے والے متضاد بیانیے تھے ۔ کئی ماہ تک بیانیہ تشکیل دیا گیا کہ حکومت نے جہانگیر ترین کو این آر او دے رکھا ہے ۔ اب اُن کی منی ٹریل کی جانچ کرنے کے لیے تحقیقات شروع ہوئی ہیں تو ایک اور بیانیہ شروع ہوگیا ہے کہ اُنہیں انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔
ایک ملک جہاں بمشکل ایک فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں‘ ہر کوئی شکایت کررہا ہے کہ یہاں نہ قانون کی حکمرانی ہے اور نہ ہی عوامی فلاحی منصوبے ہیں ۔ ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی جائے تو تاجر اور دکاندار ہڑتال کردیتے ہیں ۔ سبسڈی واپس لی جائے تو کاروباری افراد دہائی دینے لگتے ہیں ۔ اس ملک کے اہم افراد کے نزدیک احتساب صرف بیان بازی کا نام ہے ۔ وہ کہتے تو ہیں کہ احتساب بے لاگ اورسب کا ہونا چاہیے لیکن اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اُن کے اور اُن کے سپانسرز کے سوا سب کا احتساب ہو‘ مگربقول تھامس پا ئن :جو خود کو احتساب کے لیے سامنے نہیں رکھتاوہ اعتماد بھی نہیں رکھتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved