تیرہویں پارے کا آغاز بھی سورہ یوسف علیہ السلام سے ہوتا ہے۔ جناب ِیوسف علیہ السلام جب جیل سے آزاد ہوگئے تو بادشاہ نے جنابِ یوسف علیہ السلام کو اپنے قریبی مصاحبین میں شامل کر لیا۔ آپ علیہ السلام ابتدا ئی طور پر وزیر خزانہ اور بعد میں عزیز مصر کے منصب پر فائز ہوگئے ۔جناب یوسف علیہ السلام نے زرعی نظام کو بڑی توجہ سے چلایا اور خوشحالی کے سات سالوں میں مستقبل کے لیے بہترین پلاننگ کی یہاں تک کہ جب پوری دنیا میں قحط سالی عام ہو گئی تو مصر کی معیشت انتہائی مضبوط اور مستحکم ہوچکی تھی ۔قحط سالی اپنے عروج پر پہنچی تو غلے کے حصول کے لیے دنیا بھر سے قافلے مصر پہنچنا شروع ہوگئے ۔جناب یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے بھی مصر کا رُخ کیا ۔جب وہ عزیز مصر کے محل میں داخل ہوئے تو جناب یو سف علیہ السلام اپنے بھائیوں کو پہچان گئے ،جبکہ آپ کے بھائی آپ سے غافل تھے ۔ آپ نے باتوں باتوں میں اپنے بھائیوں سے کہا کہ اگلی مرتبہ اپنے چھوٹے بھائی بنیامین کو بھی ساتھ لانا اگر تم اپنے چھوٹے بھائی کو نہ لائے تو تمہیں غلے سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔ اور ساتھ ہی جو پونجی ان کے بھائی غلہ خریدنے کے لیے لائے تھے اس کو بھی اپنے بھائیوں کے سامان میں ڈال دیا ۔
جب جناب یوسف علیہ السلام کے بھائی جناب یعقوب علیہ السلام کے پاس پہنچے تو انہوں نے عزیزِ مصر کی بہت زیادہ تعریف کی اور ساتھ ہی یہ بھی بتلایا کہ بابا یعقوب علیہ السلام عزیزِ مصر کی خواہش تھی کہ ہم بھائی بنیامین کو بھی ساتھ لے کر جائیں۔جنابِ یعقوب علیہ السلام نے جواب میں کہا کہ کیا میں تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح میں نے اس سے قبل یوسف علیہ السلام کے معاملے میں تم پر اعتماد کیا تھا۔ اس پر جناب یعقوب علیہ السلام کے بیٹے خاموش ہو گئے۔جب سامان کھولا گیا تو اس میں سے غلے کے ساتھ ساتھ پونجی بھی برآمد ہو گئی ۔اس پر یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے کہا: دیکھیے بابا عزیزِ مصر نے تو ہماری پونجی بھی ہمیں دے دی ہے۔ اب جناب یعقوب علیہ السلام نے کہا کہ میں بنیامین کو تمہارے ساتھ اس صورت میں روانہ کروں گا کہ تم اس کی حفاظت کی قسم کھائو۔ بیٹوں نے جناب ِیعقوب علیہ السلام کے سامنے حلف دیا تو جناب یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی کہ جب مصر میں داخلے کا وقت آئے تو علیحدہ علیحدہ دروازوں سے داخل ہونا۔
جب دوبارہ یوسف علیہ السلام کے بھائی ان کے پاس پہنچے تو جنابِ یوسف علیہ السلام نے جناب بنیامین کو علیحدہ ایک طرف کر لیا اور ان کو کہا کہ میں آپ کا بھائی یوسف علیہ السلام ہوں ۔اس کے بعد یوسف علیہ السلام نے اپنا پیالہ جناب بنیامین کے سامان میں رکھوا دیا ۔جب قافلہ روانہ ہونے لگا تو اعلان کروایا گیا کہ قافلے والو تم چور ہو ۔جناب یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے جواب میں کہا کہ اللہ کی قسم ہم زمین پر فساد پھیلانے نہیں آئے اور نہ ہی ہم چور ہیں ۔اس پر ا ن سے کہا گیا کہ اگر تم میں سے کسی کے سامان سے بادشاہ کا پیالہ برآمد ہوگیا تو اس کی کیا سزا ہو گی۔ جواب میں جناب یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے کہا کہ اس کی سزا یہ ہے کہ جو مجرم ہوگا وہ خود اپنے کیے کا ذمہ دار ہو گا ؛چنانچہ جب سامان کی تلاشی لی گئی تو جناب بنیا مین کے سامان میں سے پیالہ برآمد ہو گیا ۔جناب یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اس موقع پر بڑے عجیب ردعمل کا اظہار کیااور کہا کہ اگر بنیا مین نے چوری کی ہے تو اس سے قبل ان کے بھائی یوسف علیہ السلام نے بھی چوری کی تھی۔ اس پر جناب یوسف علیہ السلام نے کہا کہ جو تم الزام تراشی کرتے ہو اس کی حقیقت سے اللہ تعالیٰ بخوبی آگاہ ہیں۔ جناب یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے یہ بھی کہا کہ آپ ہم بھائیوں میں سے کسی ایک کو پکڑلیں۔ جناب یوسف علیہ السلام نے کہا کہ معاذ اللہ ہم کسی مجرم کی جگہ کسی دوسرے کو کس طرح پکڑ سکتے ہیں ۔جناب یوسف علیہ السلام کے ایک بھائی نے کہا کہ میں تو واپس نہیں جا ئوں گا یہاں تک کے بابا یعقوب علیہ السلام مجھے اجازت نہیں دیں گے یا اللہ تعالیٰ میرے حق میں کوئی فیصلہ نہیں فرمادیتے ۔
جناب یوسف علیہ السلام کے بھائی جناب یعقوب علیہ السلام کے پاس پہنچے اور ان کو جناب بنیامین کی گرفتاری کی خبر دی تو جناب یعقوب علیہ السلام نے بلند آواز سے جناب یوسف علیہ السلام کا نام لیا اور آپ اتنی شدت سے روئے کہ آپ کی بینائی بھی گل ہو گئی۔ جناب یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی کہ آپ اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہوں اور جناب یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائی کو تلاش کریں۔
اب جناب یوسف علیہ السلام کے بعض بھائی دوبارہ مصر آئے تو حالت بدلی ہوئی تھی ۔غربت اور مفلوک الحالی نے ان کو بری طرح متاثر کیا ہوا تھا، انہوں نے جناب یوسف علیہ السلام کے پاس آکر اپنی غربت کی شکایت کی اورصدقے کا تقاضاکیا تو جناب یوسف علیہ السلام نے پوچھا کیاآپ بھول گئے جو آپ نے اپنے بھائی یوسف علیہ السلام کے ساتھ کیا۔ بھائیوں نے کہا کہ آپ یوسف کو کیسے جانتے ہیں، کہیں آپ ہی تو یوسف علیہ السلام نہیں۔کہا میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر احسان کیا بے شک جو صبر اور تقویٰ کو اختیار کرتا ہے تو اللہ نیکو کاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ۔اس موقع پر جناب یوسف علیہ السلام کے بھائی انتہائی شرمسار ہوئے اور انہوں نے آپ سے معافی چاہی تو جناب یوسف علیہ السلام نے کہا کہ تم سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا اور اللہ بھی تمہیں معاف کرے۔ جناب یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو اپنی قمیص اتار کر دی اور کہا کہ جناب یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈالناان کی بینائی واپس آجائے گی اور آئندہ ان کو بھی اپنے ہمراہ لانا۔
جناب یعقوب علیہ السلام کے بیٹے جب آپ کی قمیص لے کر روانہ ہوئے ،تو جناب یعقوب علیہ السلام نے اپنے گھر میں موجود بیٹوں کو مخاطب ہو کر کہا کہ مجھے بیٹے یوسف علیہ السلام کی خوشبو آرہی ہے۔ اس پر بیٹوں نے کچھ بے ادبی والے الفاظ کہے، جناب یعقوب علیہ السلام خاموش ہو گئے ،جب مصر سے آپ کے بیٹے آئے اور انہوں نے آپ کے چہرے پر قمیص ڈالی تو جناب یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس آگئی۔ جناب یعقوب علیہ السلام کے گھر میں موجود بیٹوں نے جناب ِ یعقوب علیہ السلام سے معافی کو طلب کیا۔آپ نے اپنے بیٹوں کو معاف کر دیا۔ سب اہلِ خانہ مصر کو روانہ ہوئے جب جناب یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچے تو آپ نے جنابِ یعقوب علیہ السلام کو تخت پر بٹھالیا۔ جناب یعقوب علیہ السلام اور ان کے گیارہ بیٹے جناب یوسف علیہ السلام کے سامنے جھک گئے ۔اس شریعت میں تعظیمی سجدہ جائز تھا جبکہ مسلمانوں کے لیے تعظیمی سجدہ منع ہے ۔حضرت یوسف علیہ السلام نے اس موقع پر پروردگار عالم کا شکرادا کیا اور دعا مانگی کہ ا ے میرے پروردگار !مجھے اسلام پر موت دینا اور صالحین کے ساتھ ملا دینا ۔جناب یوسف علیہ السلام کا واقعہ عروج وزوال کی ایک داستان اور صبر اور استقامت کی دستاویز ہے ۔اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صبر کا پھل ضرور دیتا ہے ،چاہے اس میں کچھ دیر ہو ۔
سورہ یوسف کے بعد سورۃ الرعد ہے اس کے آغازمیں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتیں جتلاتے ہوئے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے انواع و اقسام کے پھلوں کو پیدا کیا۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے ہر قوم میں ایک ہادی کو بھی مبعوث فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ بجلی کی کڑک اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کو بیان کرتی ہے اور فرشتے اللہ کے خوف سے کانپتے ہیں ۔اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ دلوں کا امن اور سکون اللہ کے ذکر اور اس کی یاد سے حاصل ہو تا ہے ۔اس کے بعد سورہ ابراہیم ہے ۔اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کیا ہے ۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کی دنیاوی اوراخروی فلاح وبہبود کے لیے بہت سی دعائیں مانگیں اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے جذبات سے معمور رہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت میں ہمارے لیے یہ درس اور سبق موجود ہے کہ ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہنا چاہیے اور کسی بھی وقت اس کی حمد کو نہیں چھوڑنا چاہیے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں قرآن مجید میں بیان کردہ مضامین سے سبق حاصل کرنے کی توفیق دے ۔ آمین!