تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     26-04-2021

سرخیاں، متن، ’’مشعلِ غم‘‘ اور فیصل ہاشمی

شہباز نواز شریف کو چھوڑ دیتے تو وزیراعظم ہوتے: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف نواز شریف کو چھوڑ دیتے تو وزیراعظم ہوتے‘‘ اور اگر میں چھوڑ دیتی تو وزیراعظم نہ سہی، کوئی اور ایسا بڑا عہدہ مل جاتا جس کے تحت میں ان کی سزا معاف کر دیتی جبکہ میری ساری تیاری وزارتِ عظمیٰ کی تھی لیکن ان کا بیانیہ ہم دونوں کو لے کر بیٹھ گیا؛ اگرچہ شہباز شریف ان کے بیانیے کے حق میں نہیں لیکن انہوں نے کبھی کھل کر اس کی مخالفت بھی نہیں کی اور اب جبکہ چڑیاں سارا کھیت چگ چکی ہیں تو پچھتانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔ آپ اگلے روز دیگر پارٹی رہنمائوں کے ساتھ جاتی امرا میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
لیگی قیادت وینٹی لیٹر پر، ش لیگ جیل سے باہر آ گئی: فردوس
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''ن لیگی قیادت وینٹی لیٹر پر، ش لیگ جیل سے باہر آ گئی‘‘ اور اب جبکہ ہمارے اپنے ہاں کورونا زوروں پر ہے اور وینٹی لیٹرز کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہمیں ہے تو حکومت کی طرف بھارت کو وینٹی لیٹرز اور دیگر ساز و سامان بھجوانے کی پیشکش نامناسب ہے کیونکہ ہماری اپوزیشن ہمیں جان سے بھی زیادہ پیاری ہے اور اگر وینٹی لیٹرز کی کمی کی وجہ سے اسے کچھ ہو گیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی، اگرچہ اس کے علاوہ بھی تاریخ کو ہمیں معاف کرنا بے حد مشکل نظر آ رہا ہے۔ آپ اگلے روز گوجرانوالہ میں رمضان بازار کا دورہ کر رہی تھیں۔
اللہ نے ایک بار پھر سرخرو اور سچائی کو ظاہر کیا: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''اللہ نے ایک بار پھر سرخرو اور سچائی کو ظاہر کیا‘‘ اور یہ سچائی میرا 70 سال کا ہونا تھا جس کی وجہ سے مجھے رعایت دی گئی اور میری ضمانت منظور ہوئی اور اسے سرخروئی اس لیے بھی کہا جا رہا ہے کہ عمر کا یہی پیمانہ شاید سزا یابی کے موقع پر بھی کام آ جائے جبکہ اس وقت تک تو میں اس سے بھی زیادہ سن رسیدہ ہو چکا ہوں گا اور کسی بزرگ کو جیل بھیجنا ویسے بھی ہمدردی کے اصولوں کے خلاف ہے اور یہ وہ سچائی ہے جو آئندہ بھی ظاہر ہو سکتی ہے اور ہر مقدمے میں سرخروئی کا باعث بن سکتی ہے جبکہ سرخرو ہونا دونوں صورتوں میں ممکن بلکہ یقینی ہے کیونکہ ہمارے خلاف ہر فیصلہ سرخروئی ہی کے مترادف ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی رہنمائوں اور کارکنوں سے اظہارِ تشکر کر رہے تھے۔
اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں کمی آئی ہے: فواد چودھری
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ ''اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں کمی آئی ہے‘‘ اور میں آج کی بات کر رہا ہوں کیونکہ اگر کل پرسوں ان میں اضافہ ہو گیا تو کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ قیمتیں بہت آوارہ گردی کا شکار ہو چکی ہیں اور ایک جگہ پر ٹک کر بیٹھ ہی نہیں سکتیں جن کا انسدادِ آوارہ گردی کے قانون کے تحت مواخذہ بھی ہو سکتا ہے اور جس پر غور و خوض سنجیدگی سے جاری ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
پیپلز پارٹی کشمیر الیکشن بھرپور قوت سے لڑے گی: فریال تالپور
پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنما فریال تالپور نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی کشمیر الیکشن بھرپور قوت سے لڑے گی‘‘ جس میں روپے پیسے کا استعمال کچھ زیادہ نہیں ہوگا، کیونکہ بھائی صاحب نے اپنی نیک کمائی میں سے پیسہ دینے سے انکار کر دیا ہے اور افہام و تفہیم کے حوالے سے جو رقم انہیں دینا پڑی ہے ابھی اس کا زخم اس قدر تازہ ہے کہ مزید چھوٹی سی خراش بھی ان کی برداشت سے باہر ہے، اگرچہ وہ رقم آٹے میں نمک کے برابر ہی تھی لیکن خون پسینے کی کمائی میں سے اگر ایک پیسہ بھی کم ہو جائے تو اس کا غم ایک عرصے تک برقرار رہتا ہے ۔آپ اگلے روز زرداری ہائوس اسلام آباد میں پارٹی رہنمائوں سے خطاب کر رہی تھیں۔
مشعلِ غم
یہ ہمارے سینئر شاعر اور نقاد حسن عسکری کاظمی کا مجموعۂ غزل ہے۔ انتساب سید مجتبیٰ احسن عسکری کے نام ہے کہ سائنس اور ادب سے گہرا شغف اور قومی مسائل کا شعور ان کی پہچان ہے،''قاری سے مکالمہ‘‘ کے عنوان سے پیش لفظ شاعر کا قلمی ہے جبکہ پسِ سرورق شاعر کی تصویر اور تعارف کے علاوہ دیگر تصانیف کی فہرست ہے۔ تزئین و اہتمام سید محسن رضا کا ہے۔ نمونۂ کلام:
یہ عشق ہے یا عشق کا آزار ہے‘ کیا ہے
کھلتا نہیں، زنجیر کی جھنکار ہے‘ کیا ہے
اک طوقِ گراں بار ہے گردن میں ہماری
یہ کوفے کا بازار ہے، دربار ہے‘ کیا ہے
جاں رکھے ہتھیلی پہ نکل آئے ہیں گھر سے
اے شہرِ ستم ہم سے تو بیزار ہے‘ کیا ہے
اور‘ اب آخر میں فیصل ہاشمی کی یہ نظم:
چلتے چلتے
اور پھر اس کے دل نے/ چلتے چلتے، رُک کر/ تھام لیا تھا، ابر کے اڑتے کونے کو/ شاید اس کے بھیتر/ چھوٹا بچہ زندہ تھا/ اُڑ کے سفر کرنے کی خواہش/ کس میں نہیں ہے!/ اُس منظر کو دیکھنے والے/ کیا کیا سوچ رہے تھے/ کسی نے ایسے عمل کی بابت/ سن رکھا تھا لوگوں سے/ کوئی مقدس تحریروں کے/ اکھڑے، بوسیدہ صفحوں پر/ اس کی حقیقت ڈھونڈ رہا تھا!/ لیکن اسی ہجوم کے بے حس،/ پُرہیبت قدموں کے تلے/ کچلا پڑا تھا وہ دل/ جس کو اُڑتے سب نے دیکھا تھا!
آج کا مقطع
ظفر ؔیہ وقت ہی بتلائے گا کہ آخر ہم
بگاڑتے ہیں زباں یا زباں بناتے ہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved