سب سے پہلے تو حکومت سے یہ پوچھا جائے کہ بیرونی ممالک سے آنے والوں کی سکریننگ کیوں نہ کی گئی؟ برطانیہ میں پھوٹنے والے خاص قسم کے کورونا کی خبر آنے کے بعد بھی لاپروائی برتی گئی۔ شدید مجرمانہ لاپروائی! یہاں تک سن رہے ہیں کہ جن مسافروں نے خود پیشکش کی کہ ان کا ٹیسٹ کیا جائے‘ ان کا بھی نہ کرایا گیا۔ یہی رویہ جنوبی افریقہ سے آنے والوں کے ساتھ برتا گیا۔پھر یہ پوچھا جائے کہ ویکسین خریدنے کے لیے کتنی رقم مختص کی گئی؟ کورونا ریلیف فنڈ کہاں گیا؟ خیراتی ویکسین ہی پر کیوں انحصار کیا گیا ؟ سڑکیں اور پُل تو بن نہیں رہے تو پھر قومی خزانے کا کیا مصرف ہے ؟ سبق یہ پڑھایا گیا تھا کہ شاہراہیں اور پُل بنانے سے ترقی نہیں ہوتی بلکہ انسانی سرمایہ کاری سے اصل ترقی ہوتی ہے۔تو صحت پر پیسہ لگانے سے بڑھ کر کون سی انسانی ترقی ہو گی ؟ پچاس سے زیادہ وزرا ء اور مشیر رکھنے کے بجائے اتنے ہی رکھے جاتے جن کا بہت اونچی آواز میں وعدہ کیا گیا تھا یعنی سترہ! اور اس بھوکی ننگی ‘قلّاش‘ مفلس قوم کی خون پسینے کی کمائی جو اس فوج ظفرموج پر خرچ ہو رہی ہے‘ ویکسین خریدنے پر صرف کی جاتی۔ معاملہ صرف تنخواہوں کا نہیں‘ یہاں داڑھی سے مونچھیں بڑی ہیں۔گاڑیاں‘ جہازوں کے ٹکٹ‘ محلات کی دیکھ بھال‘ لمبا چوڑا سٹاف۔ اب پی اے اور پرائیویٹ سیکرٹری کے علاوہ '' ڈائریکٹر ٹُو منسٹر ‘‘ رکھنے کا رواج بھی چل نکلا ہے۔ یہ چورن بھی کافی بیچا گیا کہ مکمل لاک ڈاؤن نہیں کریں گے کیونکہ اس سے معیشت کو نقصان پہنچے گا۔ کوئی پوچھے کہ معیشت انسانوں کے لیے ہے یا انسان معیشت کے لیے ؟ بقول شاعر ؎
جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
تم بادِ صبا کہلاؤ تو کیا
کون سی معیشت ؟ شرحِ نمو شرمناک ہے۔ اتنی کہ کسی کو بتا تک نہیں سکتے، اور پارلیمان کا کیا رول ہے ؟ ریڑھ کی ہڈی سے محروم اس پارلیمان نے کتنی بار کورونا پر بحث کی ؟ کتنی بار ویکسین خریدنے کے بارے میں پوچھا؟ کیا کسی نے سوال کیا کہ کورونا ریلیف فنڈ کہاں ہے ؟ کتنا ہے ؟ اور کہاں خرچ ہو رہا ہے؟ کبھی سیلابوں کے نام پر فنڈ اکٹھے کیے جاتے رہے! کبھی زلزلہ زدگان کے نام پر !کبھی ڈیم کے لیے اور اب کورونا کے لیے! کوئی حساب کتاب ہے نہ آڈٹ نہ پوچھ گچھ۔ دینے والے بے بس ہیں اور کمزور حافظے کے مالک! لینے والے زور آور ہیں اور منہ زور ! وزیر اعظم پارلیمان میں آتے ہی نہیں۔ تحریک لبیک اور پولیس کے حالیہ سانحہ کے بعد جو اہم تقریر انہوں نے کی وہ بھی پارلیمان میں نہیں‘ ٹیلی وژن پر کی۔ یہی گلہ پچھلے وزیر اعظم سے بھی تھا۔ یعنی کانِ نمک میں جو آتا ہے‘ نمک ہو جاتا ہے۔ واہ رے اقتدار کے ہما! جس کے سر پر بھی بیٹھتے ہو اسے نہ صرف عوام سے‘ نہ صرف اپنے وعدوں سے‘ نہ صرف اپنے دعووں سے ‘ بلکہ پارلیمان سے بھی دور کر دیتے ہو۔ سنا تو یہ تھا کہ جمہوریت میں ‘ بالخصوص پارلیمانی طرزِ جمہوریت میں ‘ پارلیمان ہی حکومتی سرگرمیوں کا مرکز ہوتی ہے۔ اپنے ہاں تو ایسی پارلیمان نہیں دیکھی۔کان مجرم ہیں ‘ مگر آنکھ گنہگار نہیں!
اصل ذمہ دار کوروناکے پھیلاؤ کے ہم عوام ہیں ! ذمہ دارنہیں بلکہ مجرم! لاپروائی اور جہالت میں شاید بہت ہی کم فرق تھا۔ہم نے وہ بھی ختم کر دیا۔ کورونا کو آئے ہوئے ایک برس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ اس دوران ہزاروں بار ہدایات دی گئیں کہ ماسک اور سماجی فاصلہ از حد ضروری ہیں مگر آج بھی آبادی کا ایک قلیل حصہ ہی اس پر عمل پیرا ہے۔ مصافحے اور معانقے ہو رہے ہیں۔ اور تو اور ‘ بڑے بڑے مالز میں جو فُوڈ کورٹ بنے ہیں‘ کنبوں کے کنبے دھڑلے سے وہاں جا رہے ہیں۔ایک خاصے پڑھے لکھے صاحب سے ہاتھ نہیں ملایا تو ناراض ہوئے اور باقاعدہ تمسخر اڑایا کہ تم سمجھتے ہو ہاتھ ملانے سے بیمار ہو جاؤگے۔سازشی تھیوریاں باقاعدہ گردش کر رہی ہیں کہ یہ سب کچھ صرف مسلمانوں کو عبادات سے روکنے کے لیے کیا جا رہا ہے حالانکہ حقائق اس کے خلاف ہیں۔ پوری دنیا میں سیاحت کی انڈسٹری متاثر ہوئی ہے۔کاروبار تباہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ آسٹریلیا میں جو کاروبار برباد ہوئے‘ ان کے مالکان نے انشورنس کمپنیوں سے زرِ تلافی کا مطالبہ کیا۔ انشورنس کمپنیاں عدالت میں گئیں کہ کورونا کی وجہ سے تو ہزاروں کاروبار ٹھپ ہو گئے ہیں ہم کس کس کا نقصان پورا کریں گے۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم اور علما کونسل کے چیئرمین نے کل ہی فتویٰ دیا ہے کہ انسانی جانوں کا تحفظ لازم ہے اور یہ کہ تمام لوگ اپنے اپنے ممالک کی طرف سے نافذ کردہ پابندیوں اور دی گئی ہدایات پر عمل کریں۔ حالت یہ ہے کہ سحری کے وقت ہوٹلوں میں بے تحاشا رش ہے‘ اتوار بازاروں میں ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ چینی لینے والی قطاروں میں لگے لوگ فاصلہ نہیں رکھ رہے۔ دوسرے ملکوں میں اے ٹی ایم مشینوں کے لیے ‘ عام طور پر‘ اس طرح کے کیبن نہیں بنائے جاتے جن کا ہمارے ہاں رواج ہے۔ کھلے عام لگے ہوتے ہیں۔ مگر جو فرد کیش نکال رہا ہوتا ہے‘ دوسرا فرد اس سے کافی فاصلے پر کھڑا ہو کر انتظار کرتا ہے۔ اگر ہمارے ہاں اے ٹی ایم اس طرح‘ کیبن کے بغیر‘ لگے ہوں تو پیچھے کھڑے ہوئے بھائی صاحب غور سے دیکھیں گے کہ کتنے پیسے نکلوائے جا رہے ہیں۔یہ کالم نگار ایک بار ‘ کیمسٹ کی دکان سے دوائیں خرید رہا تھا۔ کاؤنٹر والے نے بل بنا کر دیا۔ ابھی بل پر لکھی تفصیل پڑھ رہا تھا کہ محسوس کیا ساتھ والے صاحب بھی بل کو پڑھنے کی کوشش میں لگے ہیں۔ چارو ناچار بل ان کی خدمت میں پیش کر دیا کہ لیجیے آپ پہلے مطالعہ فرما لیجیے۔ ایک خفیف سی ہنسی کا مظاہرہ انہوں نے کیا۔ اتنی عقل نہیں تھی کہ معذرت کرتے۔ہوتی تو یہ حرکت ہی نہ کرتے۔ آپ کو یہ تجربہ یقینا ہوا ہو گا کہ آپ کاؤنٹر پر کھڑے ہیں اور پیچھے سے ایک ہاتھ ‘ جس میں کرنسی نوٹ ہے‘ آپ کے سامنے نمودار ہوتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ کاؤنٹر والا اسے کہتا بھی نہیں کہ بھائی اپنی باری کا انتظار کیجیے۔ ہم تو وہ لوگ ہیں جو کھانا کھا نے والے کو مسلسل دیکھتے جائیں جیسے نوالے گِن رہے ہوں !
غنیمت ہے کہ بینکوں میں ماسک کی پابندی کرائی جا رہی ہے۔ ماسک کے بغیر کسی کو اندر نہیں جانے دے رہے اور ایک محدود تعداد سے اوپر ‘ باہر ہی انتظار کراتے ہیں مگر باہر جو انتظار کر رہے ہوتے ہیں‘ سماجی فاصلہ نہیں رکھتے۔ایک فیشن یہ بھی ہے کہ ماسک گلے پر لگا ہے۔ کچھ لوگ ناک کو بھی ماسک کی دست بُرد سے بچا کر رکھتے ہیں جو شدید خطرناک حرکت ہے۔خدا نہ کرے کہ ہمارے حالات بھارت جیسے ہو جائیں۔ شاید ہمارا ملک کُرہ ارض پر واحد ملک ہے جہاں ایس او پیز کے نفاذ کے لیے فوج کوبلانا پڑ رہا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ ایک ایک فرد پر ‘ ایک ایک شاہراہ پر‘ ایک ایک قطار پر‘ایک ایک بازار میں‘ ایک ایک ریستوران میں ‘ فوج یا پولیس کے سپاہی کس طرح تعینات کیے جا سکتے ہیں ؟ سعدی نے کہا تھا ؎
وگر بینم کہ نابینا و چاہ است
اگر خاموش بنشینم گناہ است
اندھے کے سامنے کنواں ہو تو اسے بتانا لازم ہے مگر تندرست آنکھوں والا کنویں میں گرنا چاہے تو کب تک کوئی روک سکتا ہے! خدائے قدّ وس رحم کرے۔ ہم تو سمجھنے سمجھانے کی حد سے باہر ہیں!