تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     27-04-2021

ہمیں کیا ہو گیا ہے؟

جب کسی کے ساتھ وابستہ توقعات کا آبگینہ چکناچور ہوتا ہے تو دماغ کو جھٹکا اور دل کو چوٹ لگتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وزیراعظم کا میرے ذہن میں ایک شائستہ‘ معتدل اور دلیل کے ساتھ بات کرنے والے شخص کا تاثر قائم تھا۔ مگر چند روز قبل جب سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے انہیں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے حوالے سے دعوتِ کلام دی تو اس وقت تک غالباً شدتِ انتظار سے عباسی صاحب اتنے مغلوب ہوچکے تھے کہ انہوں نے اپنا نقطۂ نظر بیان کرنے کے بجائے ڈائس پر جاکر سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے کہا کہ میں آپ کو جوتا ماروں گا۔ یہ دھمکی‘ یہ اندازِ گفتگو اور یہ غیرشائستہ رویہ بظاہر شاہد خاقان عباسی کی عمومی شخصیت سے میل نہ کھاتا تھا۔ ٹی وی سکرین پر یہ منظر دیکھ کر مجھے بہت ملال ہوا۔
ہر شخص کی زندگی میں کبھی بہت سٹرانگ اور کبھی کمزور لمحات آتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ شاہد خاقان عباسی کی زندگی کا کمزور ترین لمحہ تھا۔ اُن کی شخصیت دیکھتے ہوئے میرا اندازہ تھا کہ وہ ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں گے تو اپنے رویے پر ندامت محسوس کریں گے اور بلاتردد سپیکر سے اظہارِ معذرت کرلیں گے اور یوں یہ معاملہ رفع دفع ہو جائے گا۔ اس کے بجائے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ وہ خدا کے علاوہ کسی سے معافی نہیں مانگتے۔ اُنہیں یقینا معلوم ہوگا کہ رب ذوالجلال حقوق اللہ تو معاف کر دیتا ہے مگر حقوق العباد اس وقت تک معاف نہیں ہوتے جب تک آپ اُس شخص سے معذرت نہیں کرلیتے جس کا آپ نے دل دکھایا ہوتا ہے۔ 22 اپریل کو سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ایک نوٹس کے ذریعے شاہد خاقان عباسی سے کہا کہ وہ اپنے اہانت آمیز رویے پر معذرت کریں۔ اس کے جواب میں عباسی صاحب نے جو کچھ کہا وہ عذرِ گناہ بدتر از گناہ کی ذیل میں آتا ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ اگر سپیکر نے انہیں ایوان میں آنے سے روکا تو بات جوتے سے بھی آگے جائے گی۔ اہلِ نظر اندازہ لگا لیں کہ جوتے سے آگے کا مرحلہ کون سا ہوسکتا ہے۔ بہرحال بقول محمد دین تاثیر ع
بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے
وزیر اطلاعات فواد چودھری اپنی کابینہ میں نسبتاً ایک معقول وزیر سمجھے جاتے ہیں مگر اُن کا بیان بھی معقولیت کے پیمانے پر بھی پورا نہیں اترتا۔ انہوں نے کہا کہ شاہد خاقان ایک جوتا ماریں گے تو ہم جواباً سو جوتے ماریں گے۔ رانا ثناء اللہ نے بھی ساری اخلاقی و پارلیمانی حدود قیود عبور کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپیکر کے گلے میں تو جوتوں کا ہار ڈالنا چاہئے۔
عشقِ رسولﷺ مسلمانانِ عالم کا مشترکہ اثاثہ و سرمایہ ہے۔ اس وقت تک کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک وہ خاتم المرسلین ﷺکی ذات کے ساتھ اپنے آپ سے بڑھ کر‘ اپنے والدین سے بڑھ کر‘ اپنی اولاد سے بڑھ کر اور دنیا کی ہر شے سے بڑھ کر محبت نہ کرتا ہو اور حضورؐ پر دل و جان فدا نہ کرتا ہو۔ مسلمان باعمل ہو یا بے عمل‘ متقی ہو یا عاصی‘ زاہدِ شب زندہ دار ہو یا ''رند ِخانہ خراب‘‘ جناب محمد مصطفی ﷺ کی حرمت پر کٹ مرنے کا یکساں جذبہ رکھتا ہے؛ تاہم عشقِ رسولؐ کے ساتھ ساتھ اسوئہ رسول کی پیروی بھی ازبسکہ ضروری ہے۔ قرآن و حدیث میں اللہ کے راستے کی طرف حکمت اور نرم لب و لہجے کے ساتھ بلانے کا حکم ہے۔
ایک سابق وزیراعظم کے طرزِ کلام اور جارحانہ رویے کی جھلکیاں آپ دیکھ چکے ہیں۔ اب ذرا موجودہ وزیراعظم کے طرزِعمل‘ اندازِ گفتگو اور چوائس آف ورڈز کے کچھ مناظر بھی ملاحظہ فرمالیں۔ جناب وزیراعظم عمران خان جب کبھی اپوزیشن کے کسی بڑے چھوٹے لیڈر کے بارے میں بات کرتے ہیں تو چور‘ ڈاکو‘ لٹیرے سے کم کا الفاظ استعمال نہیں کرتے۔ وہ اپنے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرماتے ہیں کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘ میں اب انہیں مزہ چکھائوں گا۔ صیغۂ واحد متکلم میں یہ دھمکیاں دیتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ اس ملک میں عدالتیں بھی ہیں‘ احتساب کے ادارے بھی ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا کوئی دستور بھی ہے جس کی پابندی ہم سب پر فرض ہے۔ہمارے حکمران اور سیاست دان یہ بھی نہیں سوچتے کہ اُن کے غیرپارلیمانی‘ غیراخلاقی اور غیرشائستہ رویوں کا نوجوان نسل پر کیا اثر پڑرہا ہے۔ اگر یہی حضرات ہمارے رول ماڈل ہیں تو پھر سوچ لیجئے کہ دھول دھپّا‘ گالی گلوچ اور جوتم پیزار ہونا ہی ہمارا کلچر ٹھہرے گا۔ البتہ ہمارا ماضی انتہائی تابناک ہے۔ قائداعظم محمدعلی جناح دیانت‘ صداقت‘ جرأت و بیباکی اور اخلاق و شائستگی کا شاندار مرقع تھے۔ وہ اعلیٰ اقدار اور حق و صداقت کے بے لچک اصولوں پر کاربند تھے۔ ملکی سیاست میں وہی ہمارے رول ماڈل ہیں جبکہ قیام پاکستان کے بعد نوابزادہ نصراللہ خاں اور ملک معراج خالد جیسے سیاست دان نوجوانوں کے لیے رول ماڈل تھے۔
اپنے کارکنوں اور قائدین کی سیاسی و پارلیمانی تربیت ہر سیاسی جماعت کا بنیادی تنظیمی و تربیتی فریضہ ہے۔ مگر پاکستان میں اکثر سیاسی جماعتیں اس فریضے کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتیں۔ ہماری ساری جماعتوں کی تمام تر توجہ الیکٹ ایبلز پر ہوتی ہے لہٰذا یہ جماعتیں اپنے ارکانِ اسمبلی کی کسی پارلیمانی و اخلاقی تربیت کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتیں۔ اس سلسلے میں صرف جماعت اسلامی ایک ایسی جماعت ہے کہ جو برسوں اپنے کارکنوں کی دینی‘ اخلاقی اور پارلیمانی و سیاسی تربیت کرکے انہیں مستقبل کا لیڈر بناتی ہے۔ اس تربیتی پروگرام کا آغاز جماعت اسلامی کے بانی اور مربی جناب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے فیضانِ نظر اور اُن کے ''مکتب کی کرامت‘‘ سے ہوا۔ اُن کی تربیت یافتہ شخصیات پاکستان کے ایوانوں میں جگمگائیں‘ انہیں آج تک دنیا یاد کرتی ہے اور اُن کی اخلاقی و شائستگی برتری‘ اُن کی جرأت و بیباکی اور اُن کی اعلیٰ پارلیمانی کارکردگی کی تعریف و توصیف کرتی ہے۔ جماعت اسلامی انتخابات سے پہلے اپنے متوقع امیدواروں کے لیے باقاعدہ ورکشاپس کا اہتمام کرتی ہے۔ یہ تربیتی ورکشاپس جماعت کے کارکنوں کو پارلیمانی آداب اور ایوان کے بزنس میں زیادہ سے شمولیت کے طور طریقوں سے روشناس کراتی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ متوقع پارلیمانی قائدین ایوانوں میں پہنچنے سے پہلے ہی وہاں کے دستوری و پارلیمانی قواعدو ضوابط سے مکمل آگہی حاصل کرچکے ہوتے ہیں۔
سیاست دانوں کو بالغ نظری سے کام لینا چاہئے مگر وہ عموماً کم نظری سے معاملات بگاڑ دیتے ہیں جس کے دو نتائج نکلتے ہیں: ایک تو یہ کہ تعلیم یافتہ متوسط طبقہ اور نوجوان سیاست سے ہی نہیں جمہوریت سے بھی دلبرداشتہ ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے کہ جب موقع شناس طالع آزما انقلاب لے آتے ہیں اور کبھی مارشل لاء لگاتے ہیں اور کبھی مارشل لاء لگائے بغیر ''پرویزی حیلوں بہانوں‘‘ سے اقتدار پر قبضہ جما لیتے ہیں۔ جب ایسا ہو جاتا ہے تو پھر سیاست دان یوسفِ بے کارواں ہوکر دربدر پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں‘ مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ کوئی سبق حاصل نہیں کرتے اور جب دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو میثاقِ جمہوریت جیسے معاہدوں کو پس پشت ڈال کر آپس میں وہی سرپھٹول شروع کردیتے ہیں جس کی اوپر آپ چند جھلکیاں دیکھ چکے ہیں۔
نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی ارکانِ پارلیمنٹ کے لیے نیشنل سکیورٹی ورکشاپس منعقد کرتی رہتی ہے۔ چھ ہفتوں کی اس ورکشاپ سے ارکانِ پارلیمنٹ کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی جیسے اداروں کو ارکانِ اسمبلی‘ سپیکرز اور چیئرمین سینیٹ کی پارلیمانی تربیت کے لیے ورکشاپس کا اہتمام کرنا چاہئے۔ ان ورکشاپس سے کچھ نہ کچھ بہتری ضرور آئے گی اور ہمیں دھول دھپّا اور کالی گلوچ کے کلچر سے قدرے نجات ملے گی۔ یہ کلچر ہمارے ایوانوں کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔ ابھی تک تو صورتحال یہ ہے کہ اپنے ایوانوں کے غیرشائستہ مناظر کو دیکھ کر منہ سے بے ساختہ یہی نکلتا ہے کہ ہمیں کیا ہو گیا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved