غزوۂ بدر نہ صرف تاریخِ اسلام بلکہ انسانی کا بھی عظیم الشان واقعہ ہے۔ اس پہلے معرکے میں اہلِ ایمان کی شاندار فتح کے بعد پورے جزیرہ نما عرب میں اسلام کی دھاک بیٹھ گئی اور کفر کی ہوا اکھڑ گئی۔ بدر مدینہ منورہ سے مکہ کی جانب تقریباً اسی میل کے فاصلے پر واقع ایک چھوٹی سی آبادی ہے۔ یہاں چند بدوؤں کے گھر اور پانی کے چشمے یا کنویں تھے۔ مکہ معظمہ سے بدر کا فاصلہ جانب شمال تقریباً سوا دو سو میل تھا۔ اس میدان میں تاریخِ انسانی کی وہ معروف جنگ لڑی گئی جسے قرآن مجید نے فیصلہ کن معرکہ قرار دیا اور جس دن کو ''یوم الفرقان‘‘ کہا۔
جب حضور اکرمﷺ میدانِ بدر میں پہنچے تو آپﷺ نے ایک مقام پر خیمے لگانے کا ارادہ فرمایا۔ اس موقع پر آپﷺ کے 33 سالہ صحابی حضرت حبابؓ بن المنذر نے عرض کیا: ''یا رسول اللہﷺ کیا یہ حکم ربانی ہے یا یہ آپ کا فیصلہ ہے؟ اگر خدا کا فیصلہ ہے تو تاب مجال نہیں‘ لیکن اگر ایسا نہیں تو عرض ہے کہ یہاں خیمے لگانے کے بجائے اس جگہ خیمے لگائے جائیں جہاں بدر کے کنویں ہیں‘‘۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا ''یہ میری رائے ہے اور جنگ میں تو تدبیر ہی کی جاتی ہیں‘‘۔ حضرت حبابؓ نے عرض کیا ''کنوئوں پر خیمے لگانے سے ایک تو پانی پر ہمارا قبضہ ہو گا اور دشمن کی رسائی وہاں تک نہ ہو سکے گی۔ نیز اگر بارش ہوگئی تو وہ جگہ اونچی ہے لہٰذا خشک رہے گی اور یہ جگہ نیچی ہے اور یہ دلدل بن جائے گی‘‘۔ آنحضورﷺ نے ان کے دلائل سن کر ان کی بہت تعریف کی اور ان کی رائے کے مطابق کنوئوں کے پاس خیمے لگوائے۔ اسی موقع پر نبی پاکﷺ نے حضرت حبابؓ کو صاحب الرائے کا لقب عطا فرمایا۔
جنگ بدر میں اہل ایمان کے لیے بے شمار سبق ہیں۔ مندرجہ بالا واقعہ سے اسلام میں مشورے کی اہمیت اور اس کے آداب کا پتا چلتا ہے۔ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ مشورے میں خیر اور بھلائی ہوتی ہے۔ حضور پاکﷺ کا ارشاد ہے: جس نے مشورہ کر لیا وہ شرمسار نہ ہو گا۔ دوسرا یہ معلوم ہوا کہ مشورہ دینے والا کوئی بھی ہو‘ صاحبِ امر کو اس کے مبنی بر صواب ہونے کی صورت میں اپنی رائے سے رجوع کر لینا چاہیے۔ خاتم المرسلینﷺ سے بڑا مرتبہ کس کا ہے؟ آپﷺ نے اپنی رائے تبدیل کر کے امت کو ایک عظیم درس سکھایا۔ تیسری بات جو نہایت اہم ہے‘ یہ معلوم ہوئی کہ مشورہ دلائل پر مبنی ہونا چاہیے۔
جنگِ بدر کے دوران عملاً یہی ہوا کہ بارش ہو گئی اور قریش کے خیموں کی جانب پانی جمع ہو جانے سے دلدل سی بن گئی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر یوں فرمایا ہے: ''اس وقت کو یاد کرو جب اللہ آسمان سے تمہارے اوپر پانی نازل کر رہا تھا تاکہ تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دور کرے اور تمہاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعے سے تمہارے قدم جما دے‘‘۔ (الانفال:11)
حضرت سعدؓ بن معاذ نے مشورہ دیا کہ حضور اکرمﷺ کے لیے ایک نسبتاً بلند اور محفوظ مقام پر عریش (کمان پوسٹ) بنا دی جائے؛ چنانچہ اس مشورے کے مطابق حضرت سعدؓ بن معاذ نے خود یہ عریش تیار کرایا اور حضورﷺ اس میں جلوہ افروز ہوئے۔ اس عریش میں حضور اکرمﷺ نے یوم بدر سے پہلی شب جس گریہ و زاری سے بارگاہ ایزدی میں دعا کی اس کا تذکرہ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں تفصیل سے ملتا ہے۔ عریش کی تجویز اور تیاری پر نبی اکرمﷺ نے سیدنا سعدؓ بن معاذ کی بہت تعریف فرمائی اور ان کے حق میں دعا کی۔ اس موقع پر حضور اکرمﷺ نے نصرت اور فتح کی بشارت دی تھی اور صحابہ کرامؓ کو اس کا یقین بھی تھا مگر اس کے باوجود حزم و احتیاط کا ہر پہلو صحابہ کرامؓ نے ملحوظ رکھا تھا اور جنگ کی حالت میں یہی حکم ربانی ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق پوری احتیاط اور تیاری کا اہتمام کیا جائے۔
حضرت سعدؓ بن معاذ نے عریش کے قریب تیز رفتار اونٹنیوں کا بھی انتظام کر رکھا تھا۔ ان کے پیش نظر یہ تھا کہ فتح کی صورت میں اہل مدینہ کو جلد از جلد خوشخبری سنا دی جائے اور اگر خدا نخواستہ جنگ کا پانسہ پلٹ جائے تو حضور اکرمﷺ کو بحفاظت مدینہ منورہ پہنچایا جائے۔ حضور اکرمﷺ نے حضرت سعدؓ کو دعا دی اور مسکراتے ہوئے فرمایا: ''اے سعد! اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اچھا ہی فیصلہ کرے گا‘‘۔ پھر حضور اکرمﷺ نے میدانِ بدر میں ایک چکر لگایا۔ آپﷺ کے دست مبارک میں ایک نیزہ تھا، آپ نے نیزے سے میدان کے مختلف مقامات پر نشان لگائے اور فرمایا: ''یہاں ابوجہل کل قتل ہو گا‘ یہاں فلاں سردار قتل ہوگا...‘‘ یہ پیش گوئی یوں پوری ہوئی کہ نامزد سردارانِ قریش میں سے کوئی بھی بالشت بھر ادھر ادھر نہ تھا۔ سبھی اپنے اپنے متعین مقتل ہی پر قتل ہوئے۔
قریش کی فوجوں کی آمد سے قبل حضور اکرمﷺ اپنے ساتھیوں سمیت بدر پہنچ گئے تھے۔ ابوسفیان اپنا راستہ بدل کر مکہ کی جانب نکل گیا تھا۔ اس نے مکہ کے قرب و جوار سے ابوجہل کے نام پیغام بھی بھیجا کہ کاروان بخیریت مکہ آگیا ہے اس لیے تم بھی واپس آجاؤ‘ مگر ابوجہل قوت کے نشے میں بدمست تھا۔ وہ جگہ جگہ تقریریں کرتا پھر رہا تھا کہ اہل مدینہ کو تباہ و برباد کر کے لوٹے گا۔ راستے میں کئی مقامات پر اس سے مختلف قبائل کے سردار ملے اور اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ اس نے شکریے کے ساتھ ان کی مدد لینے سے انکار کر دیا۔ اس کے نزدیک اس کے لشکر جرار کو کسی مزید مدد کی حاجت نہ تھی۔ بنوغفار کے علاقے سے قریش کا گزر ہوا تو رئیس قبیلہ خفاف بن ایماء الغفاری نے اپنے بیٹے کو ابوجہل کے پاس بھیجا۔ وہ اپنے ساتھ ضیافت کے جانور بھی لے کر گیا تاکہ لشکر کی خدمت کی جا سکے۔ پھر اس نے اپنے والد کی طرف سے یہ پیغام پہنچایا کہ اگر ضرورت ہو تو اسلحہ اور جنگجو جوان حاضر ہیں۔ اس کے جواب میں ابوجہل نے کہا: اپنے باپ کو میرا سلام اور شکریے کا پیغام دے دینا۔ تم لوگوں نے دوستی کو خوب نبھایا ہے۔ میری عمر کی قسم! آج کوئی فوج ہمارے سامنے نہیں ٹھہر سکتی۔
قرآن مجید نے ابوجہل کا نقشہ یوں کھینچا ہے: ''اور ان لوگوں کے رنگ ڈھنگ نہ اختیار کرو جو اپنے گھروں سے اِتراتے اور لوگوں کو اپنی شان دکھاتے ہوئے نکلے اور جن کی روش یہ ہے کہ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے۔ ذرا خیال کرو اس وقت کا جبکہ شیطان نے ان لوگوں کے کرتوت ان کی نگاہوں میں خوشنما بنا کر دکھائے تھے اور ان سے کہا تھا کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا اور یہ کہ میں تمہارے ساتھ ہوں‘‘۔ (سورہ انفال: 47 تا 48)
قریش نے بدر کے میدان میں پہنچ کر عمیر بن وہب الجمحی کو بھیجا کہ وہ مسلمانوں کی تعداد کا اندازہ لگائے۔ اس نے گھوڑے پر سوار ہر کر اسلامی لشکر کے گرد چکر لگایا اور آکر بتایا کہ تین سو کے لگ بھگ تعداد ہے۔ پھر اس نے مسلمانوں کی جرأت و ہمت کا جو نقشہ کھینچا وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ اس نے کہا کہ یثرب کے اونٹ تمہارے لیے موت کا پیغام اٹھائے ہوئے یہاں پہنچے ہیں۔ ان لوگوں میں سے کوئی شخص زندگی سے محبت کرنے والا نظر نہیں آتا۔ وہ مرنے اور مارنے کے لیے ہی گھروں سے نکلے ہیں۔
عمیر بن وہب کی باتوں سے کئی قریشی سرداروں کے حوصلے پست ہوئے۔ حکیم بن حزام نے عتبہ بن ربیعہ کے پاس جاکر کہا ''اے ابو الولید! بخدا تمہارا قوم کے درمیان ایک عظیم مقام ہے۔ اس موقع پر تم کوئی ایسا کام کر جاؤ جس کی بدولت ہمیشہ تمہارا نام زندہ ہو جائے‘‘۔ عتبہ نے پوچھا ''کیا مطلب؟‘‘ حکیم نے جواب دیا '' مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونے والا عمرو بن الحضرمی تمہارا حلیف تھا‘ تم اس کا خون بہا معاف کر دو اور اپنے دوست ابو الحکم (ابوجہل) کو بھی سمجھاؤ کہ ہم خونریزی کے بجائے واپس مکہ چلے جائیں۔ ابوجہل کے سوا کوئی بھی اس معاملے میں تمہاری مخالفت نہیں کر سکتا‘‘۔
عتبہ بلاشبہ سمجھدار اور حلیم الطبع انسان تھا۔ اس نے اپنے گرد ونواح میں جمع نوجوانوں کو مخاطب کر کے کہا ''اے اہل قریش! محمد (ﷺ) کے ساتھ لڑائی کوئی پسندیدہ اور خوشگوار عمل نہیں ہوگا۔ تمہیں اپنے چچا یا ماموں‘ بھانجے یا بھتیجے بلکہ ممکن ہے باپ یا بیٹے پر تلوار اٹھانی پڑے۔ میرا خیال ہے ہم واپس چلتے ہیں۔اگر محمد (ﷺ) دوسرے قبائل سے نبرد آزما ہوئے تو وہ ان کا کام تمام کر دیں گے (معاذ اللہ) اور تم خوش ہو جاؤ گے اور اگر انہیں فتح مل گئی تو بہرحال وہ تمہارے ہی بھائی بھتیجے ہیں‘‘۔
حکیم بن حزام ابوجہل کے پاس گیا اورکہا کہ عتبہ نے اسے بھیجا ہے کہ لڑائی سے اجتناب کیا جائے۔ ابوجیل یہ بات سن کر غصے سے دہاڑا اور کہا: خدا کی قسم! عتبہ پر محمد (ﷺ) کا جادو چل گیا ہے۔ عتبہ اپنے بیٹے ابوحذیفہ کی وجہ سے بھی ڈگمگا گیا ہے جو محمد (ﷺ) کے ساتھ ہے۔ ہم تو رب کعبہ کا نام لے کر اس گروہ کا خاتمہ کیے بغیر یہاں سے نہیں ٹلیں گے‘‘۔ پس اگلے دن معرکہ ہوا اور ابوجہل سمیت 70 کفار تہہ تیغ ہوئے اور ستر جنگی قیدی بنا لیے گئے۔ کفر کی طاقت کچل دی گئی اور کافروں کے بلند بانگ دعوے ہوا میں اُڑ گئے۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی