تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     27-04-2021

تخلیق، ترقی اور کتاب

نئے اور جدید خیالات و حالات پر کتاب لکھنے والا محض مصنف ہی نہیں تخلیق کار بھی ہوتا ہے۔ درحقیقت یہی لوگ علم و تحقیق اور جدت پر دسترس کے باعث دنیا کی تشکیل اپنے انداز سے کرتے ہوئے اس پر حکومت کرتے ہیں۔ اس طرز اور ترکیب کو عام الفاظ میں ''ورلڈ آرڈر‘‘ کہا جاتا ہے جیسے روس کے ٹوٹنے کے بعد دنیا کو واحد سپر پاور امریکا نے اپنے طریقے سے چلانا شروع کیا تو اس کو خود امریکا نے ہی ''نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کا نام دیا تھا۔ بہت سے لوگ اس آرڈر کا مطلب ''حکم‘‘ سمجھتے ہیں حالانکہ لفظ Order کا ایک مطلب ترتیب بھی ہوتا ہے۔ البتہ اسے لوگوں کی کم علمی پر محمول نہیں کیا جائے گا کیونکہ امریکا نے دنیا کی ترتیبِ نو بزورِ حکم ہی کی اور اس تخریب نما ترتیب میں مسلمان ممالک مکمل طور پر تباہی کی زد میں ہی رہے۔
بات ہو رہی ہے تھی کتابوں کی‘ جس کا عالمی دن 23 اپریل کو منایا جاتا ہے۔ تاریخ دان جب دنیا کی تاریخ تین الفاظ میں بیان کرتے ہیں تو وہ اسے Religion, Printing Press & French Revolution میں بیان کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ انسانی تاریخ کے ارتقا، تشکیل اور ترقی میں ان تین چیزوں کا سب سے نمایاں کردار ہے۔ مذہب اس کڑی کا سب سے پرانا یا بنیادی حصہ ہے کیونکہ انسان کو اخلاق اور قوانین کاسب سے پہلا درس مذاہب سے ہی ملا تھا۔ مذہب سے بات کتاب کی طرف بھی اسی لیے مڑ جاتی ہے کیونکہ دنیا کی سب سے پرانی کتابیں مذاہب کی کتب ہی ہیں۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ آج کے دور تک مذاہب اور مذہبی تعلیم کا بنیادی ذریعہ اس کی کتابیں
ہی ہیں۔ تاریخ دان دوسرا کریڈٹ پرنٹنگ پریس کو دیتے ہیں جس کی وجہ سے کتاب تک عام انسان کی رسائی ممکن ہوئی، اگرچہ اس سے پہلے بھی کتب تو موجود تھیں مگر انہیں ہاتھ سے لکھا جاتا تھا اور یقینا انہیں ہو بہو نقل کر کے محفوظ کرنا وقت طلب کام تھا اور اس میں خاصا کثیر سرمایہ بھی خرچ ہوتا تھا، پریس کی ایجاد کے بعد یہ کام کافی آسان ہو گیا اور ہر کسی کی کتاب تک رسائی ممکن ہو گئی۔ علم اور تعلیم کی اصل بنیاد بھی پریس کی ایجاد کی بدولت ممکن ہوئی۔ تیسرا ذکر فرانس کے انقلاب کا ہے جو 1789ء میں آیا تھا۔ اس انقلاب کو جمہوریت کی اصل بنیاد اور اساس مانا جاتا ہے۔ یہ انقلاب آزادی، اخوت اور مساوات کے نعرے کی بنیاد پر آیا تھا۔ آج بھی جمہوریت کی اصل روح انہی تین الفاظ کو مانا جاتا ہے کیونکہ ان تینوں میں سے کسی ایک بھی وصف کی کمی سے جمہوریت کی نفی ہو جاتی ہے۔ اب اہم بات یہ ہے کہ فرانس کا انقلاب شہری آبادی کا مرہونِ منت تھا اور شہری آبادی نے یہ انقلاب شعور پیدا ہونے کی بنیاد پر برپا کیا تھا اور اس بیداریٔ شعور میں کتابیں سب سے اہم تھیں۔ واضح رہے کہ پرنٹنگ پریس 1440ء میں ایجاد ہو چکا تھا۔
دنیا کی تاریخ میں صنعتی یا مشینی انقلاب 1750ء کی دہائی میں شروع ہوا تھا۔ اس انقلاب کو انسانی تاریخ کا‘ زراعت کے بعد‘ دوسرا بڑا انقلاب مانا جاتا ہے۔ اس انقلاب کے نتیجے میں دنیا میں بڑے اور جدید شہروں میں آبادکاری کا رجحان پیدا ہوا۔ صنعتی انقلاب جدید علوم کی کتابیں پڑھنے والے انسانی ذہنوں کی تخلیق تھا۔ اس انقلاب کے بعد دنیا دو بڑے واضح حصوں میں بٹ گئی؛ ایک جدید صنعتوں والی ترقی یافتہ حاکم دنیا جبکہ دوسری طرف پسماندہ طرزِ معاش اور معاشرت والی بادشاہتوں کے زیر اثر چلنے والی دنیا۔ بعد ازاں صنعتی ترقی والی یورپی دنیا نے دیگر دنیا کو کلونیلائزیشن کے تحت سرنگوں کر لیا۔ اس کے تحت دنیا کو نہ صرف یوز اور مِس یوز کیا گیا بلکہ ابیوز (abuse) بھی کیا گیا بلکہ کچھ علاقوں کا ابیوز (استحصال) تاحال جاری ہے جیسے جنوبی ایشیا۔ جو علاقے یورپی طاقتوں کی کالونی نہیں رہے‘ ان پر بھی آج یہ ممالک براہِ راست قبضے کے بغیر اپنا آرڈر مسلط کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ علمی برتری کی بنیاد پر ہی ممکن ہوا اور ایسا کرنے والے ممالک میں امریکا سرفہرست ہے جبکہ دیگر ممالک میں تاحال یورپی ممالک ہی شامل ہیں۔ البتہ امریکا نے نیو ورلڈ آرڈر کے تحت جس دنیا کو سب سے زیادہ ٹارگٹ کیا وہ مسلم دنیا ہے۔ ان ممالک میں انتشار، فساد، فرقہ واریت اور دیگر تمام ممکنہ بربریت کے ہتھکنڈے اور ہتھیار استعمال کئے گئے اور تاحال کیے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے کی ایک بڑی مثال مشرقِ وسطیٰ ہے۔ اس خطے کی نظریاتی، معاشرتی اور سیاسی پسماندگی کا سب سے بھیانک وصف یہ ہے کہ تعلیم و تحقیق کے وسائل‘ جن کا ہونا کسی بھی خطے کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے‘ اس خطے میں نہ ہونے کے برابر ہیں حالانکہ یہ خطہ تیل‘ جسے Liquid Black Gold کہتے ہیں، کی دولت سے مالا مال ہے مگر اس کے باوجود یہ نہ تو تعلیم اور نہ ہی تحقیق کو اپنی ترجیح بنا سکا۔
کتاب صرف جدید علم کا بنیادی مآخذ ہی نہیں ہوتی بلکہ یہ انسان کے خیالات و افکار کی نشو ونما بھی کرتی ہے۔ بعض تحاریر اور کتب ایسی ہوتی ہیں جو انقلاب برپا کر دیتی ہیں۔ ان میں سے ایک نمایاں ترین مثال کمیونزم پر لکھی جانے والی کارل مارکس کی کتاب Das Kapital ہے جو 1867ء میں لکھی گئی تھی مگر اس کتاب کے نظریات کی طرز کا کمیونسٹ انقلاب 1917ء میں روس کے شاہی معاشرے میں برپا ہوا۔ اس کمیونسٹ انقلاب نے مغربی طرز کے سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کو نہ صرف چیلنج کیا بلکہ یکسر رد کرکے رکھ دیا۔ اس نظام نے ثابت کیا کہ ترقی کیلئے کیپٹل ازم اور جمہوریت ہرگز ناگزیر نہیں۔ واضح رہے کہ روس میں الیکشن نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ کچھ ایسا ہی آج کے دور کی دوسری بڑی طاقت چین میں ہے‘ جو چند سالوں بعد امریکا پر برتری حاصل کرتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت ہونے کے سبب دنیا کی سپر پاور بن چکی ہو گی۔ کمیونزم انقلاب نے جمہوری طرز کے کسی سیاسی حق کی بات یکسر مسترد کر دی تھی مگر ایک ہی چیز کی بدولت پہلے روس اور پھر چین عالمی طاقتوں کے طور پر ابھرے اور وہ چیز تھی؛ تعلیم و تحقیق۔ روس نے تو امریکا کو زمین کے ساتھ ساتھ سپیس وار میں بھی شکست سے دوچار کیا تھا۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ مغربی طرز کی ترقی کا ایک تاریک پہلو امیر اور غریب کے درمیان پیدا ہونے والا ایسا تفاوت ہے جو وسائل کو امرا کی ایسی دسترس میں کر دیتا ہے کہ امیر کے پالتو کتوں کو جو غذا بکثرت ملتی ہے وہ غریب کی اکلوتی اولاد کو کسی تہوار کے موقع پر بھی میسر نہیں ہو پاتی۔ آج کی دنیا میں یہ تفریق اور بھی بھیانک ہو چکی ہے۔ مغرب کے اپنے ذرائع کے مطابق دنیا کے 80 فیصد وسائل صرف ایک فیصد لوگوں کے قبضے میں ہیں۔ اگر آپ کارل مارکس کی کتاب کی بات کریں تو اس نے دنیا میں غربت کی بنیادی اور بھیانک وجہ وسائل کی تقسیم کے تضاد کو قرار دیا تھا۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ ''داس کیپٹل‘‘ جب لکھی جا رہی تھی‘ اس وقت دنیا میں وسائل کی ناہمواری کا تناسب 80 اور 20 تھا یعنی بیس فیصد لوگوں کے پاس اسی فیصد وسائل تھے اور اب محض ایک فیصد لوگ کے پاس 80 فیصد سے زائد وسائل ہیں۔ اب دنیا کو ایک نئے کارل مارکس کی ضرورت ہے جو اس تقسیم کو نمایاں کرے۔ اگر آ پ اپنے ملک یا امہ کا تصور اپنے ذہن میں لیے ہوئے ہیں تو اپنے آپ پر واضح کر لیں کہ ان سب کی حالت تحقیق، جستجو اور جدید علوم والی منطقی کتابوں سے ہی بہتر ہو سکتی ہے نہ کہ قسمت کا حال بتانے والی اور 'تین ماہ میں کامیاب بننے کے راز‘ بتانے والی کتابوں سے جو سراسر غیر منطقی، غیر حقیقی اور جادوئی طور طریقے بتاتی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved