جب بھی کوئی حکومت برسرِ اقتدار آتی ہے تو عوام اس سے توقعات وابستہ کر لیتے ہیں کہ یہ پچھلی حکومت سے بہتر ہوگی، عوام کے حقوق کا خیال رکھے گی اور پچھلی حکومت سے بہتر کارکردگی دکھائے گی لیکن ہر حکومت اپنی پیش رو سے اتنی خراب ثابت ہوتی ہے کہ لوگ پچھلی کو یاد کرنے لگتے ہیں۔ نہ جانے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات کیوں راسخ ہو چکی ہے کہ پی پی پی جب بھی اقتدار میں آتی ہے اپنے ساتھ مہنگائی کا ایک طوفان لاتی ہے۔ پی پی پی کی گزشتہ حکومت کے پانچ سال جس طرح عوام نے گزارے، وہ ایک ڈرائونے خواب کی طرح اُن کے ذہنوں سے ابھی تک محو نہیں ہوئے۔ اب مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی ہے لیکن وہ اکیلی نہیں‘ ساتھ میں عوام کے چھکے چھڑا دینے والا ٹیکسوں سے بھر پور سال 2013-14ء کا ایسا بجٹ بھی ہے کہ لوگوں کو گزشتہ پانچ سال سہانے خواب کی طرح نظر آنے لگے ہیں۔ کئی نئے ٹیکس لگا دیے گئے ہیں۔ ہر خریدی اور بیچی جانے والی شے پر پہلے سے لاگو ٹیکسوں میں اضافہ ، چھوٹی گاڑی کی خریداری پر ٹیکس، بجلی کے ماہانہ بلوں پر تین قسم کے نئے ٹیکس ،ایک عام ملازمت والے پر ٹیکس۔۔۔۔یہ ٹیکس جان بوجھ کر بڑھائے اور لگائے جارہے ہیں یا ان بھاری ٹیکسوں کے ذریعے ملکی معیشت کو سہارا دینا مقصود ہے‘ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا لیکن حکومت کی پالیسیوں سے درمیانہ طبقہ جس بری طرح پس رہا ہے وہ مناظر رونگٹے کھڑے کر دینے والے ہیں۔ اس سلسلے میں صوبائی اور مرکزی حکومتیں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومت نے اگر پانچ مرلہ کے گھروں اور ایک ہزار سی سی تک کی گاڑیوں پر ٹیکس لگائے ہیں تو مرکز ی حکومت نے جنرل سیلزٹیکس ‘ انکم ٹیکس سمیت بجلی‘ پٹرول اور سی این جی کی قیمتیں بڑھا کر سفید پوش طبقے کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ میرے ایک قاری ایم بی اے ہیں اور ایک بڑے ادارے میں کام کر تے ہوئے چالیس ہزار ماہانہ تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ تعلیم و تجربے کی بنیاد پر تیس سے ساٹھ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ وصول کرنے والوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک چارٹ بنا کر بھیجا ہے۔ اس چارٹ میں انہوں نے میاں بیوی اور دو بچوں (یعنی ماں باپ اور چھوٹے بہن بھائیوں کے بغیر) پر مشتمل گھرانے کو موصول ہونے والے بجلی اور ٹیلیفون کے بلوں کی تفصیل پیش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے: اگلے ماہ جب مجھے تنخواہ ملے گی تو اس میں سے بجلی پر فیول ایڈجسٹمنٹ ٹیکس اور بجلی کے بڑھائے گئے نرخوں کے حوالے سے رقم الگ کرنا پڑے گی۔ انکم ٹیکس کی صورت میں تنخواہ سے کی جانے والی کٹوتی کا بوجھ الگ ہو گا۔ ان کے فون بل کا جائزہ لیں تو پورے ماہ میں اس گھرانے نے جو لوکل فون کالز کیں ان کی کل قیمت398 روپے اور انٹر نیٹ چارجز1299 روپے ہیں لیکن ان کو جو بل موصول ہوا وہ2 480 روپے کاہے کیونکہ اس میں مختلف نوعیت کے ٹیکس شامل کیے گئے ہیں۔ اس گھرانے کو ملنے والا بجلی کا بل بتا رہا ہے کہ اس صارف کومحصول بجلی155روپے، جنرل سیلز ٹیکس1677روپے، نیلم جہلم سرچارج113روپے، فیول سرچارج392 روپے یعنی کل2337 روپے ٹیکسوں کی مد میں ادا کرنا پڑیں گے۔ شنید ہے کہ جولائی میں ملنے والے بلوں میں ایک نیا فیول سرچارج علیحدہ سے لگایا جا رہا ہے۔ پانی اور گیس کے بلوں کے ذریعے وصول کیے جانے والے ٹیکس ان کے علا وہ ہیں۔ اب اگر کوئی لیکچرار ہے، کسی بینک یا ملٹی نیشنل کمپنی کا ملازم ہے اور اس نے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانی ہے توا س پر بھی ایک نیا ٹیکس لگایا گیا ہے جو ظاہر ہے سکول انتظامیہ کی جانب سے اس سے زائد فیس کی شکل میں وصول کیا جائے گا۔ یہیں پر بس نہیں کیا گیا، ایک سال میں پورے پاکستان کو دن اور رات کی علیحدہ علیحدہ بھر پور ریڈنگ دینے والے ’’ ڈرون میٹروں‘‘ کی نعمت سے سرفراز کر نے کا منصوبہ بھی منظورہو چکا ہے۔ اپنے قاری کے بھیجے گئے چارٹ کے مطابق ان کے دو بیڈروم والے گھر کے لیے لگے ہوئے میٹر کی اس ماہ کی ریڈنگ950 یونٹس ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مئی کی سترہ سے جون کی سترہ تاریخ تک( مدت ریڈنگ) چودہ سے سولہ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ رہی اور کسی دن 6 یا 8 گھنٹوں سے زیادہ بجلی استعمال نہیں ہوئی۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ گھر میں لگا ہوا ایک ٹن کا ایئر کنڈیشنر چھ گھنٹے مسلسل چلنے پر ایک ہزار یونٹ خرچ کرڈالے۔ یہ ناممکن ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جانے والوں اور آنے والوں کی ملی بھگت سے اس ملک کے غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے غریب عوام کی کھال کھینچی جا رہی ہے۔ سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہ ولی اﷲؒ نے ٹیکسوں اور محصولات کے تعین اور وصولی کے متعلق جو اصول پیش کیے تھے ان کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ ٹیکس کم اور وصولی سو فیصد ہو اور یہ وصول کیا جانے والا سو فیصد ٹیکس سرکاری خزانے میں ہی جائے۔ شاہ ولی اﷲ ؒنے لکھا تھا کہ سو فیصد وصولی اسی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے کہ ٹیکس اتنے کم ہوں جو ہر فرد و بشر آسانی اور خوشی سے ادا کر سکے۔ یہ فلسفہ اور محصولات کے یہ اصول اسلام نے پیش کیے تھے۔ ابنِ خلدون اور شاہ ولی اﷲ نے اسی اصول پر اپنے فلسفے کی بنیاد رکھی۔ لیکن کوئی بھی حکمران مسلم دنیا کے ان روشن دماغ اور نیک لوگوں کی دی گئی تجاویز پر عمل کرنے کے بجائے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی پیروی کو قابل فخر سمجھتا ہے۔ یہ دیکھنے اور سمجھنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا کہ ان کے لگائے اور بڑھائے گئے ٹیکسوں اور محصولات نے قوم کو غربت اور کسمپرسی کی کن پستیوں میں دھکیل دیا ہے۔ پسِ تحریر: ایک اور نئی دھماکہ خیز خبر ملی ہے کہ ہر ماہ ملنے والے بجلی کے بلوں پر درج یونٹس کے حساب سے متوسط طبقے پر انکم ٹیکس کا نفاذ بھی کیا جا رہا ہے۔۔۔۔۔ اور پاکستانی عوام پر اس کرمفرمائی کے بدلے میں آئی ایم ایف 5.3بلین ڈالر کے قرضے پاکستان کے خزانے میں ڈالے گا۔ لگتا ہے ایک بار پھر ’’کشکول توڑنے ‘‘کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved