بھارتی حکومت کی ذہنیت کو سمجھنے کے لیے شیوا جی کے مطالعہ سے بہتر کوئی سبق نہیں!
1627ء میں پیدا ہونے والا شیوا جی ان پڑھ تھا مگر بھیس بدلنے، جنگل میں چھپنے اور نشانہ بازی میں طاق تھا۔ عملی زندگی کا آغاز چوریاں کرنے اور ڈاکے ڈالنے سے کیا۔ پھر پونا کے نواح میں چھوٹے موٹے قلعوں پر قبضہ کرنے لگا۔ بیجا پور (جنوبی ہند) کی سلطنت پر اس وقت عادل شاہ حکمران تھا۔ شروع شروع میں اس نے شیوا جی کو کوئی اہمیت نہ دی‘ اس لیے بھی کہ مکار شیوا جی نے اسے لکھ بھیجا تھا کہ حضور! میں فتوحات آپ کے غلام کی حیثیت سے کر رہا ہوں اور ٹیکس بھی زیادہ وصول کر کے پیش کروں گا۔ پونا کے جنوب میں جاولی کا علاقہ تھا۔ یہاں کے مضبوط حکمران شیوا جی کے توسیعی عزائم کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ اس نے شادی کی تقریب کا ڈھونگ رچایا اور دھوکے سے انہیں قتل کرا دیا۔ اس کے بعد زندگی بھر دھوکہ اور فریب ہی اس کا سب سے بڑا ہتھیار رہا۔ اورنگ زیب عالم گیر اسے موشِ کوہستانی یعنی پہاڑی چوہا کہتا تھا۔ جب شیوا جی نے مغربی گھاٹ کے بہت بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا تو عادل شاہ کو خطرے کا احساس ہوا۔ اس نے اپنے نامور جرنیل افضل خان کو اس کی سرکوبی کے لیے بھیجا۔ افضل خان نے قلعے فتح کر لیے اور شیوا جی کے علاقوں کو تہس نہس کر دیا۔ شیوا جی بھاگا۔ افضل خان تعاقب کر رہا تھا۔ بچنے کی امید نہیں تھی۔ شیوا جی کے ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ ہتھیار ڈال دو مگر اس کے ذہن میں فریب کاری کا منصوبہ تھا۔ اس نے خان کو پیغام بھیجا۔ گڑگڑاتا مگر منافقت سے بھرا پیغام! کہ میری کیا مجال آپ کا مقابلہ کروں۔ میں ہتھیار ڈالنا چاہتا ہوں مگر مجھے از راہ کرم گارنٹی دی جائے کہ توبہ قبول کر لی جائے گی۔ افضل خان نے بات چیت کے لیے ایک برہمن گوپی ناتھ کو بھیجا۔ شیوا جی نے برہمن کو ہندو دھرم اور دیوتاؤں کا واسطہ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا۔ ساتھ ہی تحائف دیے۔ جاگیر میں ایک گاؤں بھی عطا کیا، یوں دونوں نے مل کر پلان بنایا۔ گوپی ناتھ نے واپس جا کر افضل خان کو کہا کہ شیوا جی تو خوف کے مارے لرز رہا ہے۔ آپ اسے ملاقات کا موقع دیجیے تا کہ وہ ہتھیار ڈال سکے۔ سیدھا سادہ جرنیل راضی ہو گیا۔
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ
قلعے کی پہاڑی کے نیچے شیوا جی نے ایک عالی شان خیمہ نصب کرایا۔ پھر جنگل صاف کرا کے راستہ بنایا تاکہ افضل خان اسی راستے سے آئے۔ پھر ایک دستہ خیمے کے قریب جنگل میں تعینات کیا اور فوج کی بھاری تعداد افضل خان کے کیمپ کے پاس چھپا دی۔ طویل قامت افضل خان پالکی میں آیا۔ ململ کی پوشاک میں ملبوس! ساتھ صرف ایک محافظ! دوسری طرف سے پستہ قد شیوا جی قلعے سے نکلا۔ جھُکتا، کورنش بجا لاتا۔ پگڑی کے نیچے اس نے فولادی ٹوپی پہنی ہوئی تھی اور چُغے کے نیچے زرہ۔ دائیں آستین میں خنجر چُھپا تھا رسوائے زمانہ مرہٹہ ہتھیار، ایک خاص قسم کا آہنی پنجہ مٹھی میں دبا تھا۔ افضل خان خود اعتمادی کے ساتھ بغل گیر ہوا۔ یہی لمحہ تھا جس کا شیوا جی کو انتظار تھا۔ اس نے آہنی، نوک دار پنجہ خان کے پیٹ میں گھونپا۔ افضل خان نے تلوار نکال لی اور ایک زبردست وار کیا مگر تلوار چھپی ہوئی زرہ کے اوپر پڑ کر صرف ایک جھنکار پیدا کر سکی۔ شیوا جی نے خنجر کا مہلک وار کیا۔ افضل خان گرا اور پھر کبھی نہ اُٹھ سکا۔ محافظ آگے بڑھا تو شیوا جی کے آدمیوں نے اسے بھی مار دیا۔ قلعے میں واپس جا کر شیوا جی نے بگل بجانے کا حکم دیا۔ یہ سگنل تھا۔ جنگل میں چُھپی ہوئی فوج خان کے کیمپ پر پل پڑی۔ ضمیر جعفری نے کہا تھا:
سچ کہتا تھا افضل خان
تری پورہ تا راجستان
مر گیا ہندو میں انسان
ہم بھارت سے بات چیت کرنے کے مخالف نہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ جنگوں سے مسائل نہیں حل ہوتے‘ مگر یاد رکھیے بنیا ڈپلومیسی، باقی دنیا کی مہذب ڈپلومیسی سے مختلف ہے۔ کل یہی بھارت ہندی چینی بھائی بھائی کے نعرے لگاتا تھا۔ بھارت نے گفتگو کا آغاز خوشی سے نہیں کیا۔ اسے معلوم ہے کہ وہ دو محاذ بیک وقت نہیں سنبھال سکتا۔ شمال میں چینی افواج نے بھارت کو نکیل ڈالی ہوئی ہے۔ اسے وہاں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستانی سرحدوں سے فوج ہٹا کر شمال کو لے جانا پڑی۔ میڈیا بتا رہا ہے کہ پہلی بار ہماری مشرقی سرحد پر بھارت اور پاکستان کی افواج تناسب میں برابر ہوئی ہیں۔ یہ ہے وہ پس منظر جس میں بھارت نے سلسلہ جنبانی شروع کیا ہے۔ ورنہ خود سوچیے، کہاں آر ایس ایس کا خونیں جنونی فلسفہ جو ایک ایک مسلمان کو ہندو بنانا چاہتا ہے اور کہاں صلح کی بات چیت۔ غالب کی نصیحت پر کان دھریے:
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
اس لیے صلح کی بات چیت کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم دفاع سے غافل ہو جائیں۔ ہمیں تو یہ وارننگ دی گئی ہے کہ مقابلے کے لیے تم سے جہاں تک ہو سکے طاقت مہیا کرو اور پلے ہوئے گھوڑوں کو (مستعد) رکھو۔ اس ضمن میں ہم، بطور خاص، دو پہلوئوں کی طرف اربابِ بست و کشاد کی توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ اول‘ کشمیر ہمارے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے مگر بھارت میں رہنے والے مسلمانوں سے بھی ہم بے نیاز رہ سکتے ہیں نہ بری الذمہ! مانا کہ وہ بلند آواز سے کوئی ایسی بات نہیں کہہ سکتے جس سے پاکستان پر ان کا مان ظاہر ہو مگر سچ یہ ہے کہ ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ ان کے حق میں آواز اٹھانے والا ہے بھی کون؟ یوں تو پوری امت مسلمہ ایک جسد ہے مگر اس جسد میں بھارتی مسلمان ہمارے لیے ایک خاص حیثیت کے مالک ہیں۔ وہ ہمارے جسم کا نہیں، ہمارے دل کا حصہ ہیں۔ جو کچھ آسام میں کیا جا رہا ہے، اس سے ہم کیسے غافل رہ سکتے ہیں؟ اور یہ بھارت کا اندرونی معاملہ کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کا طویل المیعاد منصوبہ پورے بھارت کے مسلمانوں کو شہریت سے بے دخل کر کے ویران گاہوں (Ghettos) میں دھکیلنے کا ہے۔ دوسرا پہلو تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لینے کا ہے۔ بھارت کے ساتھ جو بات چیت چل رہی ہے وہ صرف حکومت وقت کا مسئلہ نہیں۔ حکومت پر لازم ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں، بالخصوص پارلیمان کو اعتماد میں لے تا کہ کل کچھ طے ہو تو اس کے دوام کی مستقبل میں بھی ضمانت ہو۔ بد قسمتی سے موجودہ حکمرانوں کا رویہ اس حوالے سے ذہنی نا پختگی کا ہے۔ اپوزیشن کو در خورِ اعتنا نہ گرداننا، ان سے بات چیت نہ کرنا اور قومی معاملات میں انہیں اعتماد میں نہ لینا سیاسی دانش مندی ہے نہ کوئی قابل فخر رویّہ! بھارت سے بات ہو سکتی ہے تو اپنی حزب اختلاف بھی اچھوت نہیں۔ بلند پایہ لیڈرشپ کی یہی نشانی ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلتی ہے اور دلوں کو دھمکیوں سے نہیں، حسنِ اخلاق سے فتح کرتی ہے۔ سیاست میں سب سے زیادہ نقصان دہ عنصر تکبر کا ہے۔ اس سے خدا کی پناہ مانگنی چاہیے۔
بھارت کے ساتھ بات چیت کا ہمیں خیر مقدم کرنا چاہیے‘ جنوبی ایشیا کے عوام امن کے مستحق ہیں‘ مگر احتیاط لازم ہے۔ ہمیں وہ غلطی نہیں کرنی چاہیے جو افضل خان نے کی تھی۔