تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     29-04-2021

کفالتِ یتیم اور رحمۃ للعالمینؐ کی قربت

اگر یہ دن مغرب کے عطا کردہ دنوں میں سے ہوتا تو یقینا ہمارا لبرل طبقہ اور موم بتی مافیا اسے اپنے مذہبی تہوار کی طرح مناتا اور ہمیں بتاتا کہ یتیم کے کیا حقوق ہیں اور یورپ کس قدر رقیق القلب اور انسان دوست ہے کہ وہ یتیموں کے حقوق اور اس معاملے میں معاشرے کے فرائض پر کس قدر زور دیتا ہے لیکن یہ مغرب کا، یورپ یا امریکہ کا اعلان کردہ دن نہیں تھا‘ اس لیے کسی این جی او نے اسے نہیں منایا‘ کسی نے جلوس نہیں نکالا، کسی نے بینر نہیں لہرائے، کسی نے سوشل میڈیا میں کھپ نہیں مچائی، لے دے کر دو چار وہ تنظیمیں تھیں جو اس ملک میں واقعتاً غریب، مجبور، مقہور اور ضرورت مندوں کے ساتھ ساتھ ملک میں معاشرے کی عدم توجہی کے شکار پینتالیس لاکھ یتیم بچوں کے لیے اپنی استطاعت سے بہت بڑھ کر کچھ کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔
کل یعنی گزرے روز پندرہ رمضان المبارک بمطابق اٹھائیس اپریل تمام مسلم ممالک میں Orphan,s day یعنی یومِ یتامیٰ منایا گیا۔ یہ دن اپنی اہمیت اور ضرورت سے قطع نظر نہایت خاموشی سے گزر گیا اور میڈیا نے اسے اس طرح ہرگز کوریج نہیں دی جو اس کا حق تھا اور ہماری انسانی حقوق اور بشر کی عظمت کا نام نہاد الاپ کرنے والی روشن خیال تنظیمیں اس سے اس طرح دور رہیں جیسے برہمن اچھوتوں سے دور رہتے ہیں۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ یہ دن ان تنظیموں کے آقائے ولی نعمت کی جانب سے نہیں بلکہ او آئی سی کی طرف سے اعلان کردہ تھا اس لیے اس دن کے تحت حقوق کے منتظر یتامیٰ دراصل وہ والے یتامیٰ نہیں تھے جن پر انسانی حقوق کا اطلاق ہوتا ہے اور جن کے حقوق معاشرے پر واجب ہیں۔ سو یہ دن ان روشن خیالوں کے تعصب اور منافقت کی نذر ہو گیا‘ لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے‘ چند دردِ دل رکھنے والی تنظیموں نے یتیموں کی کفالت اور فلاح و بہبود کے لیے اپنی ہمت سے بڑھ کر کام کیا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں اس کا اجر عطا کرے۔
فی الوقت عالم اسلام اس انسانی المیے کا سب سے بڑا شکار ہے اور مسلم ممالک میں یتیم بچوں کا معاملہ بہت سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ ناگہانی آفات، بد امنی، خانہ جنگی، دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ، صحت عامہ کی سہولیات کی عدم فراہمی، خاندانی دشمنیاں اور حادثات۔ یہ وہ بڑے بڑے مسائل ہیں جن سے دنیا عموماً جبکہ عالم اسلام خصوصیت کے ساتھ نبرد آزما ہے اور ان حالات کے نتیجے میں عالم اسلام میں یتامیٰ کی تعداد روز افزوں ہے جبکہ اس گمبھیر اور سنجیدہ مسئلے کے حل کے لیے جو کچھ ہونا چاہیے اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہو رہا۔ صرف پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً پینتالیس لاکھ یتیم بچے ہیں جو نہ صرف والد کے شفقت بھرے سائے سے محروم ہیں بلکہ روزمرہ کی ضروریاتِ زندگی اور تعلیم جیسی نعمت سے بھی محروم ہیں۔ یتیم کی کفالت شاید دنیا میں صدقہ، خیرات اور زکوٰۃ کا سب سے بہتر مصرف ہے۔ رحمۃ للعالمین ﷺ نے فرمایا کہ روز آخرت میں اور یتیم کی کفالت والا اس طرح، یہ کہتے ہوئے میرے آقا ﷺ نے اپنی شہادت کی اور درمیانی انگلی کو باہم جوڑا اور فرمایا کہ ''یوں ہوں گے‘‘۔ اپنی قربت کے لیے اس سے بڑھ کر اور اشارہ بھلا کیا ہو سکتا تھا؟
پاکستان میں رفاہ عامہ اور فلاحِ انسانیت کے شعبے میں کئی تنظیمیں سرگرمِ عمل ہیں۔ کچھ شہروں اور دیہات میں تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں ہے تو کچھ غریب اور نادار بچوں کے لیے کام کر رہی ہے۔ کئی تنظیمیں یتیم، نادار اور مستحق طلبہ و طالبات کے لیے بلا معاوضہ معیاری تعلیم کی سہولیات کے ساتھ ساتھ مالی معاونت بھی کر رہی ہیں جو قابل تعریف ہے‘ لیکن کفالتِ یتامیٰ کے حوالے سے جو تنظیمیں کام کر رہی ہیں‘ ان کی خدمات خصوصی طور پر سراہے جانے کے قابل ہیں۔
ویسے بھی پاکستان میں غیر ملکی فنڈز کو حلال ثابت پر مامور ہماری روشن خیال این جی اوز نے سوائے جلوس نکالنے، بینرز لہرانے، نعرے مارنے اور تصویریں کھنچوا کر اخباری تشہیر کے علاوہ کیا ہی کیا؟ دوسری طرف جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں ایک تنظیم پاکستان کے دیہاتوں میں تقریباً پچاس ہزار غریب اور نادار بچوں کو جبکہ دوسری آزاد کشمیر میں بارہ ہزار سے زائد مستحق بچوں کو مفت تعلیم کی سہولت مہیا کررہی ہے۔ زبانی دعوے اور تصویری مارچ کے برعکس خدمت کے حوالے سے ایک نیک نام تنظیم کفالت یتامیٰ پروگرام کے تحت پندرہ ہزار یتیم بچوں کی گھر بیٹھے کفالت کے علاوہ بارہ ہزار بچوں کو پاکستان اور آزاد کشمیر کے تیرہ شہروں میں ''سٹیٹ آف دی آرٹ‘‘ جو رہائشی اور تعلیمی سہولیات دے رہی ہے ۔ ان تمام یتیم، نادار اور مستحق بچوں کی تعلیم اور کفالت ایک مسلسل خرچ ہے جس کو صاحب دل اصحاب نے اٹھا رکھا ہے تاہم یہ ضرورت اور ارادوں کی نسبت ابھی بہت ہی کم ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب، عامر جعفری، محمود احمد اور میاں عبدالشکور اور دیگر افراد اس سعی میں مصروف ہیں کہ یہ سلسلہ چلتا اور پھیلتا رہے۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں ایسی تنظیموں کے زیر اہتمام ہونے والی ڈونر کانفرنسز اور فنڈ ریزنگ ڈنرز میں اپنی استطاعت کے مطابق حصہ بھی لیتا ہوں اور اس مہم میں ان کا رضا کار بھی ہوں اور اچھی طرح جانتا ہوں کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران کورونا کی وبا کے پیش نظر فنڈز کی کمی اور ڈونر کانفرنسز کے انعقاد میں در پیش مشکلات نے فلاحی تنظیموں کے لیے بے شمار مالی مسائل کھڑے کر دیئے ہیں۔
پاکستانی قوم صدقات، خیرات، زکوٰۃ اور مالی معاونت کے حوالے سے اپنی فی کس آمدنی کے لحاظ سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ عطیہ کرنے والی اقوام میں سے ایک ہے لیکن ہمارے ہاں ان عطیات، صدقات اور خیرات کا بیشتر حصہ پیشہ ور بھیک مانگنے والوں اور غیر مستحق افراد بٹور کر لے جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مغرب کی طرح معاشرے کے نادار اور مجبور لوگوں کے لیے ان کے حال کو آسان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے روشن مستقبل کا اہتمام کرنے میں مصروف تنظیموں اور اداروں کو اپنی مالی معاونت کا حصہ دار بنائیں۔ میرے جیسے کئی عاجز ان کے ساتھ اس نیک مقصد کی خاطر وابستہ ہیں اور یتیم بچوں کی کفالت کے لیے چلائے جانے والے ان پراجیکٹس میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے آقا و مولیٰ سید کونین، رحمۃ للعالمینﷺ کی قربت کے طالب ہیں۔
رمضان کا مبارک اور برکتوں والا مہینہ اپنا نصف گزار چکا ہے اور بقیہ دن بھی یوں چٹکی بجاتے گزر جائیں گے۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں۔ آپ کے گھر کے پاس، آپ کی دیوار کے پار، آپ کی گلی کے دوسرے سرے پر، آپ کے عزیز و اقارب میں، دورپار کے رشتہ داروں کے ہاں، آپ کے دوستوں کے قرب و جوار میں اور اس کے علاوہ کئی تنظیمیں ملک میں پینتالیس لاکھ بچوں کی کفالت، تعلیم اور بہتر مستقبل کے آپ کی معاونت کی امیدوار بھی ہیں اور طلب گار بھی۔ ایک قدم آگے بڑھائیں۔ آقائے دو جہاں کی قربت اتنی آسان بھی ہو سکتی ہے؟ یقین کریں یہ واقعتاً بہت ہی آسان کام ہے۔ اتنا آسان کہ بہت سے لوگوں کو تو اس کا اندازہ ہی نہیں کہ محض یتیم کی کفالت ان کے لیے رحمت اور کرم کے کتنے دروازے وا کر سکتی ہے۔ ویسے تو یہ دروازے سارا سال کھلے رہتے ہیں لیکن رمضان میں نیکیاں سمیٹنے کا لطف ہی دوسرا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved