تحریر : مسعود اشعر تاریخ اشاعت     29-04-2021

فخر کی بات

وزیر اعظم صاحب نے کہا ہے کہ انہیں اپنی پالیسیوں پر فخر ہے۔ یہ اعلان کرنے کے لئے انہیں اپنی زبان کو زحمت دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ عام آدمی سے پوچھ لیجئے، وہ اس بارے میں کیا کہتا ہے؟ وہ کہے گا کہ ان کی پالیسیوں کی کامیابیاں تو ہمیں قدم قدم پر نظر آ رہی ہیں۔ آپ صرف یوٹیلٹی سٹورز پر چینی کے خریداروں کی لمبی لمبی قطاریں ہی دیکھ لیجئے۔ اس بار ان پر یہ مہربانی کی گئی ہے ان کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں لگا دی گئی ہیں۔ اس طرح خریداروں کو آرام سے انتظار کرنے کا موقع مل جاتا ہے‘ لیکن اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان خریداروں کو کتنا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ چینی کی کمیابی اور مہنگائی کا تو عدالت نے بھی نوٹس لے لیا ہے۔ اب خاں صاحب کہتے ہیں کہ چینی کی مہنگائی اس کارٹل کی وجہ سے ہے‘ جو چینی کے کارخانہ داروں نے بنا لیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خاں صاحب کی حکومت ان کارخانہ داروں کے سامنے بے بس تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک حکومت کوئی قدم اٹھاتی اس کارٹل نے بازار سے چینی غائب کر دی‘ اس طرح اس کے نرخ بڑھتے ہی چلے گئے۔ یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر حکومت کے پاس اجارہ داری کے خلاف قانون موجود ہے تو اس کارٹل کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ اور کارخانہ داروں کو یہ موقع کیوں دیا گیا کہ وہ چینی کے نرخ اپنی مرضی سے بڑھاتے چلے جائیں؟ یہی حال آٹے کا ہے۔ ہر روز آٹے کے نرخ بڑھ جاتے ہیں۔ ہمیں تو وہ زمانہ بھی یاد ہے جب پاکستان میں گندم آٹھ روپے من ہوئی تھی تو ملک بھر میں شور مچ گیا تھا‘ اور اس وقت کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو 'قائدِ قلت‘ کا خطاب دیا گیا تھا۔ یہ قائدِ ملت کے وزن پر تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ آج کل ایسے خطاب دینے کا رواج ختم ہو گیا ہے، ورنہ خدا جانے ہمارے وزیر اعظم کو کیا خطاب دیا جاتا۔ مگر یہ چینی اور آٹے پر ہی تو منحصر نہیں ہے۔ ہر روز کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں۔ عام آدمی بھی کیا کرے؟ کسی نہ کسی طرح اسے یہ قیمت ادا کرنا ہی پڑتی ہے۔ اسے زندہ جو رہنا ہے۔ ادھر وزیر اعظم نے پوری قوم کو بھیک مانگنے اور اس بھیک پر زندہ رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ پناہ گاہیں اور کیا ہیں؟ عام آدمی کو روزگار فراہم کرنے کے بجائے ان پناہ گاہوں کا لولی پاپ دے دیا گیا ہے۔ آئو کوئی کام نہ کرو، ان پناہ گاہوں میں آرام کرو‘ اور مفت کا کھانا کھائو‘ لیکن یہ مفت کا کھانا دوسری جماعتیں بھی مہیا کر رہی ہیں۔ آپ شام کو میکلوڈ روڈ اور ایبٹ روڈ پر جا کردیکھئے۔ صبح شام وہاں غریبو ں کے لیے کھانے کا انتظام ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ لاہور شہر کے کئی اور مقامات پر بھی ایسا ہی انتظام ہوتا ہو گا۔ صاحب ثروت اصحاب برسوں سے یہ کام کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اسی لئے تو لوگ سوال کرتے ہیں کہ کہاں گیا آپ کا یہ دعویٰ کہ کروڑوں لوگوں کو روزگار فراہم کیا جائے گا‘ اور غریبو ں کے لیے مفت مکان مہیا کیے جائیں گے۔ آج کل ہر بینک کی طرف سے غریبوں کے لیے مکان فراہم کرنے کے اشتہار دیئے جا رہے ہیں۔ کہنے کو تو یہ مکان غریبوں کے لیے ہیں لیکن آپ کسی بھی بینک جاکر معلوم کر لیجئے۔ ہر سستے سے سستے مکان کے لیے بھی آپ کے پاس گروی رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ ہونا چا ہیے۔ بینک آپ کو قرض دینے سے پہلے پوچھے گاکہ آپ کے پاس کتنی رقم ہے یا گروی رکھنے کو کیا ہے؟ پہلے آپ وہ رقم یا وہ جائیداد بتائیں گے اس کے بعد آپ کو قرض ملے گا۔ ہائوس بلڈنگ کارپوریشن سے بھی اسی طرح قرض ملتا ہے۔ آپ وہ زمین دکھاتے ہیں جس پر آپ مکان بنانا چاہتے ہیں۔ اسی کے حساب سے آپ کو قرض ملتا ہے۔ یہاں بھی یہی طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ اب بتائیے غریب آدمی کے پاس دکھانے کو کیا ہوگا؟ اسی لئے اس خطرے کا اظہا ر کیا جا رہا ہے کہ اس سکیم سے بھی ریئل اسٹیٹ والے ہی فائدہ اٹھائیں گے۔ حکومت جو میگا پروجیکٹ بنا رہی ہے، عام آدمی کی نظر اس پر تو بعد میں جائے گی۔ اس سے پہلے اپنے پیٹ پر نظر جائے گی جس کے لیے وہ دن رات محنت کرتا ہے۔
عام آدمی کو جو کچھ نظر آرہا ہے وہ پلک جھپکتے وزیروں کی تبدیلی ہے۔ محاورہ ہے کہ خالی بنیا کیا کرے‘ اس کوٹھے کے دھان اس کوٹھے میں‘ لیکن ہمارے وزیر اعظم خالی نہیں ہیں، بہت ہی مصروف ہیں۔ لیکن وزیروں کی تبدیلی کا یہ حال ہے کہ اس عرصے میں کتنے ہی وزیر خزانہ بدلے جا چکے ہیں۔ ہمیں تو یاد نہیں‘ لیکن معیشت کا حال جوں کا توں ہے۔ اسی طرح وزیروں کے محکمے بھی اٹھتے بیٹھتے تبدیل کئے جا رہے ہیں۔ آج ایک وزیر کے پاس ایک محکمہ ہے تو کل اس کو کوئی اور محکمہ دے دیا جائے گا۔ وزیر اطلاعات کے بارے میں ہی دیکھ لیجئے۔ پہلے فواد چودھری وزیر اطلا عات تھے۔ پھر انہیں کوئی اور محکمہ دے دیا گیا‘ اور ہمارے دوست احمد فراز کے صاحب زادے شبلی فراز کو یہ وزارت سونپ دی گئی‘ لیکن یوں ہوا کہ شبلی کی جگہ پھر فواد چودھری اس وزارت کے حق دار ٹھہرے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ وزیر اعظم صاحب کو ایسے وزیر چاہئیں جو ان کے حق میں بولنے کے ساتھ مخالف جماعتوں کے لتے لینا بھی خوب جانتے ہوں۔ شبلی فراز نے اپنے طور پر تو بہت کوشش کی کہ مخالفوں کے چھکے چھڑا دیئے جائیں، لیکن وزیر اعظم کے لیے صرف اتنا ہی کافی نہیں تھا۔ انہیں ایسے وزیر چاہئے ہیں جو جب بولنے پر آئیں تو بولتے ہی چلے جائیں۔ دوسرے کو بات کرنے کا موقع ہی نہ دیں۔ شبلی فراز میں یہ صفت نہیں ہے اس لئے ان سے یہ وزارت واپس لے لی گئی۔ فواد چودھری چو نکہ خوب بولنا جانتے ہیں‘ اس لئے اطلاعات کی وزارت پھر ان کے حوالے کر دی گئی۔ لوگ کہتے ہیں اس طرح ہمارے وزیر اعظم ہر ایک کی صلاحیت جانچتے ہیں۔ لیکن کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیر اعظم خود بھی ڈھلمل یقین رہتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جس شخص کو فلاں وزارت دی گئی ہے وہ ٹھیک ہے یا نہیں۔ کچھ دن وہ انتظار کرتے ہیں اس کے بعد اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ہاں تو ہم اپنی پالیسیوں پر فخر کرنے سے چلے تھے اور کہاں پہنچ گئے۔ جناب وزیر اعظم کو پورا حق ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں اور اپنی حکومت کی کارکردگی پر جتنا بھی فخر کرنا چاہیں کر لیں، لیکن انہیں اپنے اردگرد بھی تو دیکھنا چاہئے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے؟ ہم نے تو صرف چینی کے خریداروں کی قطاروں کا ذکر کیا ہے۔آپ بازار میں جا کر دیکھ لیجئے۔ جس چیز پر بھی آپ ہاتھ رکھیں گے وہ آپ کا ہاتھ جلا کر رکھ دے گی۔ ادھرعام آدمی سے لے کر متوسط طبقے تک اس کی آمدنی میں ایک دھیلے کا اضافہ بھی نہیں ہو رہا ہے‘ بلکہ اس مہنگائی کی وجہ سے اس کی آمدنی کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم جن میگا پروجیکٹ کا اعلان کر رہے یا ان کا افتتاح کر رہے ہیں تو ان کے مکمل ہونے تک کم سے کم متوسط طبقہ مسلسل نیچے گرتا چلا جائے گا۔ اب بھی اسے سفید پوش ہی کہا جا سکتا ہے۔ اسی لئے عام آدمی وزیر اعظم کو یاد دلا رہا ہے کہ کہاں گیا وہ کروڑوں نوکریاں دلانے اور لاکھوں گھر بنانے کا وعدہ؟ حکومت کو اپنی کارکردگی پر فخر تو اس وقت کرنا چاہئے جب وزیر اعظم کے وعدوں میں سے کسی ایک وعد ے پر بھی عمل ہوتا نظر آ جائے‘ لیکن اگر خاں صاحب اسی میں خوش ہیں تو ان کا حق ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved