پاکستان میں گندم کی کٹائی کا سیزن شروع ہو چکا ہے۔ یہی وقت ہے کہ پالیسیاں بنائی جائیں اور ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتر لائحہ عمل طے کیا جائے۔ پچھلے سال گندم کا بحران اس قدر شدت اختیار کر گیا تھا کہ پورے ملک میں آٹے کی قلت پیدا ہو گئی تھی۔ حکومت مل مالکان پر، مل مالکان چکی والوں پر، چکی والے حکومت پر، وفاقی حکومت صوبائی حکومت پر اور صوبائی حکومتیں وفاق پر الزام لگا کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتی رہیں۔ اصل قصوروار کون تھا‘ یہ ایک معمہ ہے جو آج تک حل نہیں ہو سکا۔ بظاہر گندم کی برآمدات قلت کی بڑی وجہ تھی لیکن سرکاری سطح پر ذمہ داری کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے اس سال بھی خدشہ ہے کہ نظر نہ آنے والی طاقتیں ایک مرتبہ پھر اپنے فائدے کے لیے بائیس کروڑ عوام کو مشکل میں مبتلا کر سکتی ہیں۔ چینی کی طرح‘ اگر اس پر بھی ایف آئی اے سے انکوائری کرائی جاتی تو شاید معاملے کا کچھ سر پیر نظر آ جاتا؛ تاہم ایسا نہیں ہو سکا۔ گزشتہ سال سابق وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بظاہر نہ کوئی کوشش کی اور نہ ہی ذمہ داری قبول کی۔ اب موجودہ فصل کی کٹائی کے وقت وزارتِ خزانہ کی باگ ڈور شوکت ترین صاحب کے ہاتھ میں ہے۔ گزشتہ دنوں انہوں نے نیشنل پرائس کنٹرول کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جس میں بتایا گیا کہ ملک میں صرف تین ہفتوں کے گندم کے ذخائر رہ گئے ہیں۔ اگلے بارہ مہینوں میں کھپت کے اعتبار سے 29 ملین ٹن گندم کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان میں پیداوار کا تخمینہ تقریباً 26 ملین ٹن ہے یعنی تقریباً تین ملین ٹن گندم کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے اور یہ فرق درآمد کر کے ہی پورا کیا جا سکتا ہے۔
اس اجلاس سے پہلے اپریل کے دوسرے ہفتے میں قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے کامرس نے گندم کی قلت کے حوالے سے ایک میٹنگ طلب کی تھی جس میں تمام ممبران شریک ہوئے تھے۔ ایجنڈا تھا کہ یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ گندم برآمد کرنے والا ملک کیونکر گندم درآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ سیکرٹری فوڈ سکیورٹی نے بتایا کہ اس سال چھبیس ملین ٹن گندم حاصل ہو سکتی ہے جو پچھلے سال کی نسبت دس لاکھ ٹن زیادہ ہے لیکن ڈیمانڈ بھی بڑھ کر 29 ملین ٹن ہو گئی ہے۔ علاوہ ازیں 1.2 ملین میٹرک ٹن بیجوں کے لیے اور ایک ملین میٹرک ٹن سٹریٹیجک ریزروز کے لیے درکار ہوں گے۔ پچھلے سال 3.6 ملین ٹن گندم یوکرائن اور روس سے درآمد کی گئی تھی۔ کمیٹی رکن شائستہ پرویز ملک نے زور دیا کہ اس میٹنگ کا مقصد سیکرٹری فوڈ سے یہ جاننا ہے کہ کیوں ایک گندم برآمد کرنے و الا ملک درآمد کرنے والا ملک بنا‘ اس کی وجوہات کیا ہیں‘ یہ کس کی ناکامی ہے؟ کوئی مناسب جواب نہ ملنے پر سیکرٹری فوڈ کو پابند کیا گیا کہ وہ ایک رپورٹ تیار کر کے دیں جس میں تمام وجوہات بتائی جائیں لیکن اس میٹنگ کا اختتام کسی مثبت پیغام کے بجائے ایک جھگڑے پر ہوا جس میں ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے چیئرمین اور کمیٹی ممبر سید نوید قمر کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ مدعا گندم نہیں بلکہ ٹی سی ایم کے ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھانے کا معاملہ تھا۔ نوید قمر نے چیئرمین کو میٹنگ سے نکل جانے کے لیے کہہ دیا جس پر تلخی بڑھ گئی۔ یہ ساری تفصیلات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے اکثر مسائل صرف اسی وجہ سے حل نہیں ہو پاتے کہ ہمارا فوکس درست نہیں ہوتا۔ اصل مسائل وہیں رہ جاتے ہیں اور غیر ضروری معاملات پر وقت ضائع ہو جاتا ہے‘ جیسا کہ اس میٹنگ میں ہوا۔
اب وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب کے اجلاس کی طرف واپس چلتے ہیں‘ ترین صاحب کو بتایا گیا کہ پچھلے ہفتے پورے ملک میں آٹے کا سٹاک 6 لاکھ 47 ہزار 687 میٹرک ٹن تھا۔ اپریل کے اختتام پر یہ 3 لاکھ 84 ہزار میٹرک ٹن تک گر جائے گا۔ جس وقت یہ کم ہو گا پاکستان میں گندم کی فصل کی کٹائی عروج پر ہو گی۔ این پی ایم سی کے مطابق پنجاب کا سٹاک 4 لاکھ میٹرک ٹن، سندھ کا 57 ہزار میٹرک ٹن،خیبر پختونخوا کا 58 ہزار میٹرک ٹن کم ہے جبکہ بلوچستان میں گندم کا کوئی سٹاک نہیں ہے۔ وزیر خزانہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ملک کو گندم کی قلت سے محفوظ رکھنے اور قیمتیں بڑھنے سے روکنے کے لیے چھ ملین میٹرک ٹن گندم کے ذخائر موجود ہونے چاہئیں۔ وزارتِ خزانہ سے لی گئی معلومات کے مطابق ذخائر جمع کرنے کے لیے شوکت ترین صاحب نے صوبائی حکومتوں اور سرکاری اداروں کو پابند کیا کہ وہ سب سے پہلے درست اعداد وشمار اکٹھا کریں تا کہ ڈیمانڈ اور سپلائی کا صحیح تعین کیا جا سکے، ایسا نہ ہو کہ جب ضرورت پڑے تو معلوم ہو کہ سٹاک میں آٹا موجود ہی نہیں جیسے پچھلے سال آٹے اور خصوصاً چینی کے معاملے میں ہوا تھا۔ پہلے بتایا جاتا رہا کہ ملکی ضرورت سے زیادہ چینی کا سٹاک موجود ہے مگر جب مارکیٹ میں کمی آنے لگی تو ملز مالکان سے پوچھا گیا کہ چینی کہاں ہے تو جواب ملا کہ ساری بیچ دی گئی ہے، اب ضرورت پوری کرنے کے لیے چینی درآمد کرانا پڑے گی اور جب تک درآمد نہیں ہو گی مارکیٹ میں چینی مہنگی بکے گی۔ بعد ازاں تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ ملز مالکان نے غلط بیانی کی تھی تاکہ کمی پیدا کر کے ناجائز منافع کمایا جا سکے۔ اس کے بعد حماد اظہر صاحب نے یہ قانون منظور کرایا تھا کہ تمام چینی کمپنیوں کے سٹاک کا فزیکل آڈٹ ہو گا اور اس کے بعد چینی کی طلب اور رسد کے اعداد وشمار کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ اس سال امید ہے کہ چینی بحران پر تو قابو پا لیا جائے گا لیکن آٹے کی حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر خزانہ کا زیادہ زور درست ڈیٹا کی کولیکشن پر ہے۔ اسی حوالے سے انہوں نے ادارۂ شماریات کے ڈیٹا پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ خصوصی طور پر فیصل آباد اور کوئٹہ سے جو ریٹس پی بی ایس کی جانب سے رپورٹ کیے گئے ہیں‘ ان پر متعلقہ صوبائی حکومتوں نے اعتراض اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پی بی ایس کے اعداد و شمار حقیقت کے منافی ہیں۔ کہیں ریٹس غلط رپورٹ کیے ہیں اور کہیں مقدار غلط بتائی گئی ہے۔ سرکاری اداروں کی جانب سے ایسی غلطیوں کا ارتکاب پوری قوم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ ماضی میں پیدا ہونے والے بحران بھی غلط اعداد وشمار ہی کا شاخسانہ تھے۔ یہاں پر ان افسران کے خلاف بھی کارروائی کا مطالبہ کیے جانے کی ضرورت ہے جنہوں نے غلط رپورٹنگ کی۔ ابھی صرف دو بڑے شہروں سے شکایات سامنے آئی ہیں‘ ایسے شہر اور بھی بہت سے ہو سکتے ہیں جو ممکن ہے کہ صرف اس بنا پر خاموش ہوں کہ کوئی کارروائی تو ہونی نہیں لہٰذا شکایت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب کا آتے ہی اس معاملے کو سنجیدہ لینا قابلِ تحسین ہے۔ اس ایکشن کے بعد مزید شکایات آنے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ پی بی ایس نے ڈیٹا کولیکشن کے طریقہ کار اور حالیہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے آگاہ تو کیا ہے لیکن وزیر خزانہ مطمئن نہ ہو سکے بلکہ ہدایت کی کہ کسان سے لے کر عام آدمی تک بنیادی اشیائے خور ونوش پہنچنے کی پوری چین کا شروع سے جائزہ لیا جائے تاکہ تھوک اور ریٹیل پرائس کے فرق کو کم سے کم کیا جا سکے۔ کسان کو مناسب قیمت حاصل ہو اور عام آدمی کو ریلیف مل سکے۔ اس کے علاوہ اتوار بازار، رمضان سستا بازار، جمعہ بازار اور یوٹیلٹی سٹورز سے زیادہ ڈیٹا اکٹھا کیا جائے۔ یہاں پر یہ بات واضح رہے کہ اگست 2018ء سے اب تک‘ تحریک انصاف کے پونے تین سالہ دورِ حکومت میں آٹے کی قیمت تقریباً دو گنا ہو چکی ہے۔ اگر اب بھی توجہ نہ دی گئی تو تحریک انصاف کی حکومت کے اختتام تک یہ قیمت چار گنا تک بڑھ سکتی ہے۔