کورونا وائرس کی تباہ کاریوں سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، جو لوگ کووڈ 19 کو محض ڈرامہ یا کوئی عالمی سازش کہتے تھے‘ انہیں بھی خود متاثر ہونے یا اپنے پیاروں کی تدفین کے بعد اس کا یقین آ چکا ہے۔ دوسری طرف حکومت اب اس معاملے میں کافی سنجیدہ دکھائی دیتی ہے اور بار بار عوام کو تنبیہ کر رہی ہے کہ صورتحال خوفناک ہو چکی ہے‘ احتیاط کا دامن بہرطور ملحوظ رکھیں مگر عوام ہیں کہ ایس او پیز پر عملدرآمد کو تیار ہی نہیں۔ وزیرصحت پنجاب کے مطابق‘ گزشتہ چند روز کے اعداد وشمارکے مطابق لاہور میں کیسز کی شرح 19فیصد جبکہ پنجاب بھر میں کورونا وائرس کے مثبت کیسز کی شرح 12 فیصد تک پہنچ چکی ہے جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ مثبت کیسز کی شرح 15 فیصد تک پہنچی تو ہیلتھ سسٹم بیٹھ جانے کا خدشہ ہے۔ منگل کے روز صرف صوبہ پنجاب میں 24 گھنٹوں کے دوران 127 مریض کورونا کے سبب جاں بحق ہوئے جو وبا کے آغاز سے اب تک سب سے زیادہ تعداد ہیں، جبکہ ڈھائی ہزار سے زائد نئے کیسز بھی پنجاب بھر میں رپورٹ ہوئے۔ اس حوالے سے پنجاب کورونا سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان ہر روز کہتے ہیں کہ عوام کورونا ایس او پیز پر عمل کریں ورنہ لاک ڈائون کے سوا کوئی آپشن نہیں بچے گی۔ ادھر کورونا کے حوالے سے فوج کی خدمات بھی حاصل کی جا چکی ہیں۔ وزیر داخلہ کے مطابق‘ گلگت بلتستان، کشمیر، خیبر پختونخوا، بلوچستان، پنجاب اور اسلام آباد اپنی ضرورت کے مطابق کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کرانے کیلئے پاک فوج کی خدمات مستعار لیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک بہت بڑا اور اہم فیصلہ ہے کیونکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی صورتحال انتہائی گمبھیر ہے، وہاں لاکھوں کی تعداد میں روزانہ کورونا میں مبتلا نئے مریض سامنے آ رہے ہیں، وہاں اموات اتنی زیادہ ہے کہ شمشان گھاٹوں اور قبرستانوں میں جگہ ختم ہو چکی ہے۔ خیبر پختونخوا اور سندھ‘ دونوں حکومتوں نے فوج سے مدد طلب کرتے ہوئے مراسلہ وفاق کو ارسال کر دیا ہے جس میں آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت سول ایڈمنسٹریشن کی مدد کے لیے افواج پاکستان کو تعینات کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ پنجاب میں شیڈول آپریشنز دو ہفتے کیلئے ملتوی کر دیے گئے ہیں جبکہ ہسپتالوں میں صرف ایمرجنسی سرجریز ہی کی جائیں گی۔ باقی سرجریز پر پابندی آکسیجن سٹاک کو بچانے کیلئے لگائی گئی ہے؛ تاہم پنجاب میں آکسیجن فراہمی کی صورتحال تاحال اطمینان بخش ہے۔ گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران 200 نئے وینٹی لیٹرز صوبے میں انسٹال کیے گئے ہیں۔
دوسری جانب ہمسایہ ملک بھارت میں نریندر مودی کی فسطائی حکومت کورونا وائرس کی دوسری لہر سے نمٹنے میں مکمل ناکام نظر آ رہی ہے اور منگل کے روز بھارت میں نئے کیسز کی تعداد 3 لاکھ 68 ہزار رہی جبکہ یہ وہ کیسز ہیں جو سرکاری سطح پر ریکارڈ کیے گئے جبکہ پوری دنیا کے ماہرین اور تجزیہ کار بھارت کے حالات کے پیشِ نظر یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ وہاں اصل کیسز کی تعداد‘ ریکارڈ کیسز سے کم از کم پانچ گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح سرکاری سطح پر اموات کی تعداد 3 ہزار 285 بتائی گئی مگر حالات پر نظر رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، صرف دہلی اور ممبئی میں روزانہ اس سے زیادہ ہلاکتیں ہو رہی ہیں اور اس کا ثبوت شمشان گھاٹوں اور قبرستانوں کے ریکارڈ سے لگایا جا سکتا ہے جہاں 24 گھنٹے تدفین اور لاشیں جلانے کا عمل جاری ہے اس کے باوجود پسماندگان کو اپنے پیاروں کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے کئی کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے۔
ہمارے ہاں بھی کورونا کی تیسری لہر شدت اختیار کرتی جا رہی ہے اور منگل کے روز ملک بھر میں اموات کی تعداد 201 ریکارڈ کی گئی جو اب تک کی سب سے زیادہ تعداد ہے اور جو حالات کی سنگینی کا بھرپور اظہار کر رہی ہے۔ پاکستان میں کورونا سے اموات کی کل تعداد 17 ہزار 530 ہو چکی ہے۔ نئے کیسز کی تعداد 5 ہزار 3 سو ریکارڈ کی گئی جس کے بعد ملک بھر کے کیسز کی تعداد 8 لاکھ 10 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ اس وقت پنجاب اور آزاد کشمیر میں سب سے زیادہ ''ڈیتھ ریٹ‘‘ دیکھا جا رہا ہے جہاں یہ تین فیصد تک پہنچ چکا ہے، سندھ اور گلگت بلتستان میں یہ دو فیصد جبکہ بلوچستان اور اسلام آباد میں ایک فیصد ہے۔ اس وقت پانچ ہزار سے زائد کورونا مریضوں کی حالات تشویشناک ہے۔اس سارے ہنگام ایک مثبت بات یہ سامنے آئی ہے کہ منگل کے روز ملک میں پہلی بار ایک لاکھ سے زائد افراد کی ویکسی نیشن کی گئی۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیاتی عمل اسد عمر نے اپنے ٹویٹ میں بتایا کہ 27 اپریل کو ایک لاکھ 17 ہزار 852 افراد کی ویکسی نیشن کی گئی جبکہ اب تک 21 لاکھ افراد کی ویکسی نیشن کی جا چکی ہے۔ انہوں نے ویکسی نیشن کے لیے رجسٹریشن میں اضافے کو بھی خوش آئند قرار دیا۔ اب 40 سال عمر تک کے افراد کی رجسٹریشن کا بھی آغاز کر دیا گیا ہے جبکہ 50 سال سے اوپر کے افراد کی واک اِن ویکسین شروع ہو گئی ہے۔
حکومت کی جانب سے یہ سارے بیانات، اعلانات، اقدامات اور اعداد وشمار اپنی جگہ لیکن زمینی حقائق کاجائزہ لیا جائے تو صورتحال انتہائی تشویشناک نظر آتی ہے۔ حسبِ روایت کورونا کی تیسری لہر آتے ہی سب سے پہلے سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں بند کیں اور کھیلوں کے معاملے میں تو دو قدم آگے جاتے ہوئے مکمل پابندی عائد کر دی حالانکہ پہلی اوردوسری لہر کے دوران نان کنٹیکٹ گیمز کی اجازت تھی لیکن اب نوجوان نسل پر تعلیم اورکھیل کے دروازے مکمل طور پر بند کر دیے گئے کیونکہ آن لائن ایجوکیشن کا تجربہ پہلے ہی ناکامی سے دوچار ہو چکا ہے اور آج بھی ملک کی ستر فیصد آبادی تیز رفتار انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہے، حالانکہ تعلیمی اداروں میں (خصوصاً بڑی کلاسوں میں) ایس او پیز پر عملدرآمد کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ اگر صورتحال واقعی اتنی خطرناک ہے جو بظاہر ہے بھی‘ تو حکومت کو سب سے پہلے بازاروں کو کنٹرول کرنا چاہیے جہاں ایس او پیز مکمل طور پر نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔ دکاندار اور گاہک‘ کوئی بھی احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کر رہا، فیس ماسک کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے، بازاروں، مارکیٹوں میں ہاتھ دھونے کا کوئی انتظام موجود نہیں، سینی ٹائزر تو شاید ماضی کی روایت بن چکا ہے اور اگر سماجی فاصلے کی بات کریں تو یہ بدترین مذاق ہو گا کیونکہ تمام بازاروں میں اس قدر بھیڑ ہے کہ کھوے سے کھوا چھل رہا ہے۔ سب کو دھکے لگ رہے ہیں اور یہیں سے کورونا وائرس خوفناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ جو فرد بازار جاتا ہے‘ اس کا اس عالمی وبا سے بچ کر آنا بہت مشکل ہوچکا ہے۔ گزشتہ برس بھی وبا رمضان المبارک میں بازاروں سے ہی ایک دم بڑھی تھی اور اس میں اس قدر اضافہ ہوا تھا کہ ہسپتالوں میں جگہ کم پڑنے لگی تھی جبکہ اب حکومت اور ماہرین‘ دونوں کا یہ کہنا ہے کہ موجودہ تیسری لہر پہلی اور دوسری لہر سے کہیں زیادہ خطرناک ہے اور اس میں شرحِ اموات بھی زیادہ ہے۔ اربابِ اختیار صورتحال کی سنگینی کی نشاندہی تو کر رہے ہیں کہ اگر ایس او پیز پر عمل نہ کیا گیا تو خدانخواستہ یہاں بھی بھارت جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں لیکن اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ بازار‘ جہاں ایس او پیز پر عمل کرنا ناممکن سا ہے‘ خصوصاً آج کل جب لوگ عید کی شاپنگ کے لیے پوری پوری فیملیز سمیت شاپنگ مالز کا رخ کر رہے ہیں‘ کیوں کھلے رکھے جا رہے ہیں؟ حکومت کی دلیل ہے کہ کمزور معیشت کے باعث لاک ڈائون کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ حکومت قوم کے مستقبل یعنی نوجوان نسل کو تعلیم سے تو دور رکھ سکتی ہے لیکن عید کی شاپنگ روکنے سے گریز کر رہی ہے اور شاید انتظار کیا جا رہا ہے کہ خدانخواستہ بھارت جیسے حالات یہاں بھی پیدا ہو جائیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بازاروں کو بند کر کے کورونا وائرس کو بڑھنے سے روکا جائے کیونکہ ماضی کے تجربات سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ہماری قوم محض بیانات، اعلانات اور گزارشات پر عمل نہیں کرے گی، اور سختی بھی ایک خاص حد تک ہی کارگر ہو سکتی ہے۔ قوم کے جان و مال کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے جبکہ قانون پر عمل کرانا بھی انتظامیہ کا کام ہے اور اب تو کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے پاک فوج کی خدمات بھی حاصل کر لی گئی ہیں‘ اس کے باوجود یہ ضروری ہے کہ غیر ضروری بازاروں اور مارکیٹوں کو فی الفور بند کیا جائے، کیونکہ زندگی ہو گی تو ہی معیشت کام آئے گی۔