کوئٹہ کے ایک معروف ہوٹل میں چند روز قبل ہونے والے خودکش کار بم دھماکے نے ہمیں دو تلخ حقیقتوں کی یاد دلا دی۔ پہلی، پاکستان میں دہشتگردی کی لعنت بدستور موجود ہے‘ اگرچہ دہشتگردی کے واقعات کی شدت اور تعدد میں واضح کمی آئی ہے۔ ایک وقت تھا جب ہر دوسرے دن دہشتگردی کے واقعات رونما ہوتے تھے۔ فوج، نیم فوجی دستے، پولیس اور متعلقہ خفیہ ایجنسیاں‘ سب وقتاً فوقتاً ایسے گروہوں کے خلاف کارروائی کرتے رہتے تھے۔ دو بڑے مسلح آپریشن سوات (2009) اور جنوبی وزیرستان (2009-2010) میں کیے گئے۔ 15 جون، 2014 کو آرمی نے نیم فوجی دستوں، پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے تعاون سے شمالی وزیرستان میں ایک بڑا سکیورٹی آپریشن شروع کیا تھا۔ تب تک شمالی وزیرستان دہشتگرد گروہوں کا بڑا ٹھکانا بن چکا تھا۔ اس سکیورٹی آپریشن کو بعد ازاں دوسرے قبائلی علاقوں تک وسیع کردیا گیا تھا‘ اور ملک کے مختلف علاقوں میں ٹارگٹڈ کارروائیاں کی گئی تھیں۔ 2018 کے اوائل تک، یہ آپریشن دہشتگردوں کے مارے جانے یا زخمی ہونے یا ان کے سرحد کے پار چلے جانے کے بعد مکمل ہوچکا تھا۔ پاکستان میں ستمبر 2001 کے بعد سے اب تک دہشتگردی کے واقعات میں ستر ہزار سے زیادہ افراد شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں سکیورٹی اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے حکام اور اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔
اب ہم اعتماد کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ پاکستان کی سکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے 85 تا 90 فیصد دہشتگردی اور دہشتگرد گروپوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔ ٹی ٹی پی اور دیگر گروپوں کے باقی ماندہ کارکنان اب افغانستان سے آپریٹ کر رہے ہیں۔ ان کے کچھ کارکن یہاں زیر زمین چلے گئے‘ لیکن انکے پاکستان میں خیر خواہ موجود ہو سکتے ہیں۔ہوسکتا ہے انکے یہ ہمدرد دہشتگرد گروہوں کی سرگرمیوں میں شامل نہ ہوں، لیکن وہ ان کو سیاسی اور مالی مدد فراہم کرتے ہیں۔
کوئٹہ کے سانحے سے یاد آنے والی دوسری حقیقت یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان‘ پاکستان میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کو نشانہ بنانے کے اپنے ہتھکنڈوں کی طرف لوٹ آئی ہے۔ ایسے واقعات کا مقصد پاک چین تعلقات کو مجروح اور عالمی سطح پر پاکستان کو سبکی سے دوچار کرنا ہے۔ کوئٹہ کا تازہ ترین واقعہ پاکستان میں چینی سفیر کے دورے کے موقع پر سٹیج کیا گیا‘ جو ایک چینی وفد کے ہمراہ تھے۔ دہشتگردی کے اس واقعہ کا مقصد پاک چین اقتصادی راہداری کو نقصان پہنچانا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے چین اور پاکستان‘ دونوں کو فائدہ ہوگا۔ یہ گروہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر شرمندہ کرنا اور سی پیک میں خلل ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ قومی معیشت میں بہتری کے امکانات کو ختم کیا جا سکے۔
ماضی میں، یہ دہشتگرد گروہ پاکستان میں چینی انجینئروں، تکنیکی ماہرین اور پاکستان میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے مزدوروں کو نشانہ بناتے رہے۔ کچھ چینی رواں صدی کے پہلے عشرے میں ایسے واقعات میں ہلاک یا زخمی ہوئے تھے۔ جب 2015 میں سی پیک پروجیکٹ شروع کیا گیا تو دہشتگرد گروہوں کو اس منصوبے اور چینی حکام کو نشانہ بنانے کے زیادہ مواقع ملے تھے۔ 2018 میں، کراچی میں چینی قونصل خانے کو ایک دہشتگردانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر، سویلین حکومت نے پولیس کو چینی حکام کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے استعمال کیا۔ فوج نے اس سکیورٹی سسٹم کو تقویت بخشی۔ سی پیک کے آغاز کے بعد، آرمی نے چینی اہلکاروں اور سی پیک منصوبوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے خصوصی یونٹ تشکیل دیا۔
دہشتگردی کا تازہ ترین واقعہ ٹی ٹی پی اور کچھ دیگر دہشتگرد گروہوں کی دہشتگردی کی سرگرمیوں کیلئے بلوچستان پر توجہ مرکوز کرنے کی مجموعی حکمت عملی کا ایک حصہ نظر آتا ہے۔ اس طرح سے دہشتگرد گروہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں اور پاکستان کے معاشی مفادات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ سی پیک کی کامیابی کی کلید بلوچستان کے پاس ہے۔ دہشتگرد گروہ چینیوں کو اس پروجیکٹ پر عمل درآمد کرنے اور خاص طور پر گوادر بندرگاہ کی تعمیر سے روکنے کیلئے بلوچستان کے کچھ حصوں میں عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ دو ممالک‘ بھارت اور امریکہ‘ نے سی پیک اور چین کے 'بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘ پر کھلے عام تنقید کی ہے۔ اس حوالے سے چین کی نئی عالمی پالیسی کی مخالفت کرنے کی دونوں کے پاس اپنی اپنی وجوہ ہیں۔ ایسے بیرونی کھلاڑی پاکستان کے اندر تک رسائی رکھنے والے دہشتگرد گروپوں کو بلوچستان میں اپنی سرگرمیاں بڑھانے کا بالواسطہ مشورہ دے سکتے ہیں تاکہ کوریڈور منصوبے کو پٹڑی سے اتارا جا سکے۔ مواصلات اور انفارمیشن کی جدید ٹیکنالوجی نے اس طرح کے ایجنڈے کی پیروی کیلئے جعلی گروپس بنانا آسان بنا دیا ہے۔ ایسے گروپ سوشل میڈیا کے ذریعے سی پیک اور پاکستان‘ دونوں کیخلاف پروپیگنڈا میں ملوث ہیں اور تشدد پسند گروپوں سے رابطے استوار کرتے ہیں۔ یہ صورتحال اس طرح کی سرگرمیوں کی سرپرستی کرنے والے حقیقی کھلاڑی کا سراغ لگانے کو مشکل بنا دیتی ہے‘ لیکن اگر اس طرح کے پیچیدہ رابطوں کا سراغ لگا لیا جائے تو بھی یہ مجرم جعلی گروپوں کے ساتھ اپنے تعلقات سے انکار کرسکتا ہے۔
پاکستان کو اپنی معیشت اور خارجہ پالیسی کو درپیش دہشتگردی کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے سہ شاخی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اول‘ دہشتگرد گروہوں کے عالمی روابط کی مانیٹرنگ کی ضرورت ہے۔ اینٹی پروپیگنڈا کو جاننے کیلئے سوشل میڈیا کا مشاہدہ کیا جانا چاہئے۔ اس طرح کے پروپیگنڈا کا جواب سوشل میڈیا پر دیا جانا چاہئے اور سوشل میڈیا پر اینٹی پروپیگنڈا لوڈ کرنے والے گروپوں کا پتا چلانا چاہئے۔ اگروہ کسی تیسرے ملک میں مقیم ہیں تو، اس ملک کو ان کی ناپاک سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ کیا جاسکتا ہے۔ ایسے گروپوں کو انٹرنیٹ نیٹ ورک سے ہٹوانے کیلئے مختلف سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پلیٹ فارموں کا انتظام کرنے والی عالمی کمپنیوں سے رابطہ بھی کیا جانا چاہئے۔ سب سے اہم معاملہ انٹرنیٹ پر مبنی گروپوں، یا دہشتگرد گروہوں کی حمایت میں فنڈز کی نقل و حرکت کا سراغ لگانا ہے۔
دوم‘ کسی علاقے میں دہشت گرد گروہوں اور ان کے رابطوں کی ٹریکنگ کیلئے موثر انٹیلی جنس جمع کرنے کی ضرورت ہے۔ متشدد گروہوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے بعد اس طرح کے گروہوں کو کچلنے کیلئے طاقت کا موثر استعمال کرنا ہوگا۔ اگر دہشتگرد گروہ کسی ہمسایہ ملک سے چل رہا ہے تو اس مسئلے پر براہ راست اس ملک کے ساتھ بات کی جائے یا اس مسئلے کو بڑی طاقتوں کے سامنے اٹھایا جائے اور، اگر ضرورت ہو تو، یہ مسئلہ مختلف بین الاقوامی فورمز پر بھی اٹھایا جائے۔
سوم‘ پاکستان کو اس بات پر بھی توجہ دینی چاہئے کہ نوجوان انتہا پسندی کی طرف کیوں مائل ہو جاتے ہیں۔ ان معاشرتی اور معاشی عوامل کو دور کرنا ہوگا جن کی وجہ سے نوجوانوں میں بیگانگی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان میں انسانی ترقی پر مزید وسائل صرف کرنے کی ضرورت ہے۔ توجہ سب سے زیادہ بلوچستان میں غربت کے خاتمے اور پسماندگی کے مسائل سے نمٹنے پر مرکوز ہونی چاہئے۔ نوجوانوں کو بہتر مستقبل کی امید دلائی جانی چاہئے۔
پاکستان کو ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے جس میں جدید میڈیا کے ذریعے پیدا ہونیوالے چیلنجوں کا مقابلہ کرنا بھی شامل ہو۔ دہشتگردوں سے نمٹنے کیلئے سخت سکیورٹی پالیسی اپنانی چاہئے اور نوجوانوں کو یہ یقین دلانے کیلئے ایک مثبت معاشرتی ترقی کے نقطہ نظر کو اپنانا چاہئے کہ وہ پاکستان کے ریاستی نظام کے اندر ایک بہتر اور محفوظ مستقبل کے حامل ہیں۔