جو ہولناک مناظر بھارت میں دکھائی دے رہے ہیں وہ کورونا کی وبا سے زیادہ خوف کا نتیجہ ہیں۔ جس زندگی سے پیار کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی اُس زندگی کے ختم ہونے کا خوف مار رہا ہے۔ بھارت میں لوگوں نے کورونا کی وبا کے پھیلنے پر وہی رسپانس دیا ہے جو گزشتہ برس امریکا اور یورپ کے باشندوں نے دیا تھا۔ یہ وبا سے زیادہ ذہن و اعصاب کو متوازن رکھنے کی لڑائی ہے۔ محض ایک ہفتے میں وبا ایسی پھیلی کہ لوگوں کے حوصلے ماند پڑگئے۔ ممبئی اور دہلی میں ایسے مناظر دکھائی دیے جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ وبا کے زور پکڑنے پر لوگوں کے طرزِ فکر و عمل سے متعلق سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے وڈیو کلپس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومتی سطح پر ایسی کوئی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی جس کا مقصد لوگوں کا حوصلہ بڑھانا ہو۔ ریاستی مشینری نے کورونا کی وبا کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے بھی کنبھ کا میلہ منعقد کرنے کی اجازت دی۔ مودی سرکار نے گزشتہ برس امریکا اور یورپ کا ''حشر نشر‘‘ ہوتے دیکھا تھا مگر کوئی سبق نہ سیکھا۔ بھارت بھی ترقی پذیر و پسماندہ ممالک کی طرح ایک بے ہنگم ملک ہے۔ وہاں ریاستی نظم کا ڈھانچہ کچھ مضبوط ضرور ہے مگر معاشرے کی مجموعی کیفیت وہی ہے جو ہمارے ہاں یا اس خطے میں ہے۔ انتہائی افلاس کی چکی میں پسنے والوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ ذات پات کے نظام نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ بیشتر ریاستوں کے دیہی علاقوں میں ذات پات کا نظام آج بھی اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ یہی سبب ہے کہ بعض طبقے بالکل پس کر رہ گئے ہیں۔ کورونا کی وبا کے دوران امتیازی سلوک کی کئی مثالیں سامنے آئی ہیں۔
گزشتہ برس ریاست ہائے متحدہ امریکا، اٹلی، فرانس، بلجیم، برطانیہ اور دیگر یورپی ریاستوں میں کورونا کی وبا کے ہاتھوں مرنے والوں میں اکثریت اُن کی تھی جو درحقیقت خوف سے مرے تھے۔ چند سانسوں پر مشتمل اس زندگی ہی کو کُل متاع اور دنیا کو حتمی منزل سمجھنے والے کسی بھی بڑی بحرانی کیفیت میں تیزی سے ہمت ہار بیٹھتے اور میدان چھوڑ جاتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس وقت ایک وبا موجود ہے اور زندگی کو مشکل تر بنانے کے درپے ہے مگر اب ایسی بھی کیا بے اعتمادی کہ انسان اپنے ہی وجود پر بھروسہ نہ کر پائے۔ ممبئی، دہلی اور چند دوسرے شہروں میں لوگ شدید بدحواس ہوئے اتنے کہ ایک دوسرے کا سہارا بننا بھی بھول گئے۔ ہسپتالوں کے باہر داخلے کے انتظار میں اور سڑکوں پر چلتے چلتے لوگوں کا لڑھک جانا کوئی اور ہی کہانی سنارہا ہے۔ اس پورے ہنگامے میں بھارت کی مرکزی حکومت نے مجموعی طور پر خاموش رہنے کو ترجیح دی ہے۔ کنبھ کا میلہ منعقد کرنے کی اجازت دے کر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ایسی غلطی کا ارتکاب کر بیٹھے کہ اب عوام کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہے۔ ماہرین کے سخت انتباہ کے باوجود کنبھ کا میلہ منعقد ہونے دیا گیا اور ملک میں قیامتِ صغریٰ برپا ہوگئی۔
بھارت کے بڑے شہروں میں آکسیجن کی شدید قلت کی خبریں آنے پر لوگوں کے بچے کھچے حوصلے نے بھی ہتھیار ڈال دیے۔ وبا سے مرنے والوں کی آخری رسومات کے حوالے سے درپیش مسائل نے صورتِ حال کو خطرناک حد تک نازک بنادیا۔ مردے جلانے کے لیے لکڑی کم پڑگئی۔ بہت سوں نے اپنے پیاروں کے لاشیں وصول کرنے سے گریز کیا اور یہ معاملہ غیر سرکاری تنظیموں کے حوالے کردیا کہ وہی کریا کرم کریں۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُن کے دل و دماغ پہ کیا گزری ہوگی جو اپنے پیاروں کی موت ہی کے غم سے نبرد آزما نہیں ہوئے بلکہ پورے احترام کے ساتھ‘ طے شدہ رواج کے تحت اُن کی آخری رسومات ادا کرنے کے قابل بھی نہ رہے! بھارت میں کورونا کی وبا کا شکار ہونے والوں کا دکھ پاکستان میں بھی بجا طور پر پوری شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا ہے۔
کورونا کے حوالے سے جو کچھ اٹلی، فرانس یا امریکا میں ہوا تھا اور اب جو کچھ بھارت میں دکھائی دے رہا ہے وہ جسم کی کمزوری سے کہیں زیادہ فکر و نظر کی کمزوری کا معاملہ ہے۔ پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا میں‘ چاہے ہزار خرابیاں ہیں‘ اِس دنیا ہی کو سب کچھ سمجھنے کی بیماری تو بہرحال نہیں۔ گزشتہ برس کورونا کی وبا اور لاک ڈاؤن کے دوران پاکستانیوں کی غالب اکثریت اعصاب کی سطح پر مضبوط رہی۔ بیماری کے حوالے سے بدحواسی شاذ و نادر ہی دکھائی دی۔ زیادہ سے زیادہ امداد وصول کرنے کی کوشش میں کچھ لوگوں نے شدید بے نظمی اور بدحواسی کا مظاہرہ ضرور کیا مگر مجموعی طور پر معاملات قابلِ فخر حد تک اطمینان بخش رہے۔ ہم (یعنی پاکستانی) بھی اللہ ہی کے خلق کیے ہوئے ہیں مگر آسمان سے براہِ راست اُتارے ہوئے ہرگز نہیں۔ ہم بھی اسی مٹی سے بنائے گئے ہیں جس سے امریکا اور یورپ کے لوگ بنائے گئے ہیں۔ مغرب کے ترقی یافتہ معاشروں میں عمومی سوچ دنیا پرستی کی ہے یعنی اُن کے نزدیک یہ دنیا ہی سب کچھ ہے، اِس کے بعد کچھ نہیں۔ آخرت کا متحرک تصور اُن معاشروں میں چونکہ موجود ہی نہیں اِس لیے دنیا کو خیرباد کہتے جان جاتی ہے۔ مرنا تو سبھی کو ہے مگر جو اِس دنیا ہی کو سب کچھ مان کر جیتے ہیں وہ دنیا سے بچھڑنے کے تصور ہی سے بدحواس ہو اُٹھتے ہیں، روح فنا ہونے لگتی ہے۔
دبی زبان سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ بھارت جیسے معاملات یہاں بھی ہوئے تو کیا ہوگا۔ پاکستانی قوم نے اب تک تو ہر بحرانی کیفیت میں مکمل بے حواسی کو گلے لگانے سے گریز ہی کیا ہے۔ صحتِ عامہ کا معیار ہمارے ہاں بھی ویسا ہی ہے جیسا بھارت یا خطے کے دیگر ممالک میں پایا جاتا ہے، ہاں! سوچ کے فرق سے فرق پیدا ہوتا ہے۔ کورونا کی وبا کے حوالے سے حقیقت پسندانہ کوریج کے ذریعے لوگوں کو ایس او پیز پر عمل کرنے کی تحریک ضرور دیں مگر بدحواسی پیدا کرنے والی خبریں پھیلانے سے گریز ضروری ہے۔ سوشل میڈیا پر اگرچہ بہت کچھ آ جاتا ہے مگر لوگ اب بھی استناد اور اطمینان کے لیے مین سٹریم میڈیا ہی کی طرف دیکھتے ہیں۔ بھارت کے ہولناک مناظر سے ڈرنے اور ہتھیار ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ اُن کے اپنے حالات ہیں اور ہمارے اپنے۔ وہاں بہت کچھ ایسا ہے جو بحرانی کیفیت میں انسان کو ضرورت اور گنجائش سے زیادہ بدحواس کردیتا ہے۔ ہمارے ہاں عمومی مزاج اپنے خالق اور رب کے سہارے جینے کا ہے۔ بہت سے گناہوں سے آلودہ ہوکر بھی ہم میں سے بیشتر اللہ سے لَو لگانا نہیں بھولتے۔ اور اللہ بھلا کب اپنے بندوں کو بھولتا ہے!
کورونا کی وبا کے حوالے سے ہمیں بھی محتاط رہنا چاہیے مگر اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اپنے خالق و رب کو بھول کر خود کو بے حواسی کے گڑھے میں گرنے دیا جائے۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ خوف پر قابو پانے کا ہے۔ ایمان کی کمزوری کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ انسان موت سے ڈر کر اُس سے بچنے کے لیے بے ذہنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے! دنیا بھر میں کورونا کی وبا کے دوران یہی ہوا ہے۔ بہر کیف بھارت میں معاملات نے جو رُخ اختیار کیا ہے اُسے دیکھتے ہوئے فوری ضرورت اس بات کی ہے کہ اللہ سے لَو لگائی جائے اور بے جا طور پر خوفزدہ ہونے سے گریز کیا جائے۔ کورونا کی وبا سے موثر طور پر نمٹنے سے متعلق ہماری تیاریاں قابلِ رشک تو کیا ہوں گی، اطمینان بخش بھی نہیں مگر بدحواس ہونے سے گریز کی صورت میں ہم معاملات کو درست کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ہدف یہ ہونا چاہیے کہ خوف ہار جائے۔
کراچی میں پاکستان سٹیل جیسا ادارہ بند پڑا ہے۔ اُس میں آکسیجن بنانے کا پلانٹ بھی ہے۔ یہ پلانٹ ایک ہفتے میں آپریشنل سطح پر لایا جاسکتا ہے۔ اس پلانٹ کی یومیہ پیداواری صلاحیت 592 ٹن تک ہے۔ وفاقی حکومت کو اس طرف فوری توجہ دینی چاہیے تاکہ ملک میں آکسیجن کی رسد اطمینان بخش سطح پر رہے اور وبا کے زور پکڑنے کی صورت میں معاملات کو قابو میں رکھنا کوئی بڑا دردِ سر نہ ہو۔