مصر کے پہلے باقاعدہ منتخب صدر محمد مرسی کو ایوانِ صدارت میں تشریف فرما ہوئے بمشکل ایک سال ہی ہوا تھا کہ اُن کے مخالفین نے ایک بڑا اتحاد بنا کر اُنہیں نکال باہر کیا۔ سپریم کانسٹی ٹیوشنل کورٹ کے صدر عبوری صدر بن چکے ہیں، فوج اور اخوان المسلمون کے دیگر مخالفین اُن کی پشت پر ہیں۔ صدر مرسی کے ناقد اُن سے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے اور قاہرہ کا مشہور التحریر چوک اُن کے نعروں سے گرما رہا تھا۔ اِسی چوک میں تین سال پہلے صدر حسنی مبارک کے خلاف پُرجوش اجتماعات ہوتے اور دھرنے دیئے جاتے تھے، یہاں تک کہ حسنی مبارک اقتدار سے الگ ہونے پر مجبور ہو گئے۔ اس کے بعد زیرو بم سے گزرتے ہوئے براہ راست صدارتی انتخاب کا انعقاد کیا گیا اور اخوان المسلمون کے امیدوار محمد مرسی، جو امریکہ کے تعلیم یافتہ پروفیسر تھے، قریباً52فیصد ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔ مصر میں صدارتی انتخاب دو مرحلوں میں مکمل ہوتا ہے، اگر پہلے مرحلے میں کوئی امیدوار 50فیصد سے زیادہ ووٹ نہ لے سکے تو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان پھر مقابلہ ہوتا ہے۔ مرسی پہلے مرحلے میں فیصلہ کن اکثریت حاصل نہ کر سکے، اُن کے بعد حسنی مبارک کے وزیراعظم احمد شفیق نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے۔ انہوں نے بڑا اتحاد بنا لیا، لیکن دو فیصد کے لگ بھگ ووٹوں سے وہ مرسی سے ہار گئے۔ ایوانِ صدر کا دروازہ اُن پر کھولنا پڑا۔ اخوان المسلمون نصف صدی سے زیادہ عرصے تک حزبِ اختلاف کا کردار کرتی رہی تھی۔ کبھی اس پر پابندی لگی، کبھی اس کو کام کرنے کی محدود اجازت دی گئی، کبھی اس نے اپنے سیاسی چہرے کو کوئی دوسرا نام دے دیا۔ جمال عبدالناصر کی ’’ون پارٹی سٹیٹ‘‘ میں کچھ نہ کچھ شگاف پڑتے رہے، لیکن بحیثیت مجموعی اس کا غلبہ قومی سیاست پر برقرار رہا۔ فوج اور عدلیہ کے ادارے بھی اِسی تسلسل میں قائم تھے، جس کا نقطہ آغاز جمال عبدالناصر کا دورِ حکومت تھا۔ ایک خاص ماحول اور خاص سانچے میں ڈھلنے والوں کے لئے اخوان المسلمون کی قیادت کو برداشت کرنا آسان نہیں تھا، لیکن ’’عرب سپرنگ‘‘ کا غلغلہ ایسا تھا کہ عوامی رائے کو مسترد کرنا بھی ممکن نہیں رہا تھا۔ اعلیٰ ترین عدالت اپنے دانت دکھاتی رہی؟ اور مرسی اسے کھٹا کرنے میں لگے رہے۔ فوج کی قیادت کو بھی انہوں نے تبدیل کر دیا اور ایک نسبتاً نوجوان فوجی افسر (عبدالفتاح) کو اس کی ذمہ داری سونپ دی۔ مصر میں ایسی نظریاتی حکومت قائم کرنے کا خواب دیکھنا محال تھا۔ بقول ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ کے ایک تبصرہ نگار کے، وہاں کے ڈیمو کریٹ لبرل نہیں ہیں اور لبرل ڈیمو کریٹ نہیں ہیں۔ مغربی تہذیب کے دلدادہ اپنی دُنیا میں مگن رہتے ہیں، اُن کے لئے ریاست اور مذہب کی یک جائی کا تصور سوہان ِ روح ہے۔ عورتوں اور اقلیتوں کے نام پر بھی اودھم مچایا جاتا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے کہ مذہبی لوگ تو ان کو زندہ گاڑ دیں گے۔ مذہب کے نام پر دہشت پھیلانے والے بھی کم نہیں ہیں اور مسلمان معاشروں کا انہوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے، لیکن ان کی ترجیحات کو کسی بھی طور غالب اکثریت سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی دہشت گرد مذہب کا نام استعمال کر سکتا ہے، لیکن مذہب کا نام لیوا ہر شخص دہشت گرد نہیں ہوتا۔ مخصوص مفادات کے پیدا کردہ الجھائو نے مصر میں طوفان بدتمیزی مچا دیا۔ نتیجہ یہ کہ صدر مرسی کے خلاف دستخطوں کی مہم شروع کی گئی اور دعویٰ کیا گیا کہ دو کروڑ سے زائد افراد نے اُن سے استعفے کے مطالبے پر دستخط کر دیئے ہیں، گویا اُن کے ’’مینڈیٹ‘‘ پر خطِ تنسیخ پھر گیا ہے۔ ایسا ماحول بنا دیا گیا کہ فوجی قیادت ’’نقاب پوش‘‘مارشل لاء لگانے پر قادر ہو گئی۔ امریکی صدر اوباما نے اس کارروائی کو ’’فوجی بغاوت‘‘ کا نام دینے سے گریز کیا ہے، امریکی میڈیا اور دوسرے مقتدر حلقے بھی اس کو دستور شکنی قرار دینے سے گریزاں ہیں، اس لئے کہ اگر وہ یہ بات تسلیم کر لیں کہ مصر میں فوجی بغاوت ہو چکی ہے تو پھر امریکی قانون کے مطابق مصر کو کوئی امداد فراہم نہیں کی جا سکتی، اس کے خلاف خودبخود پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں، اِس لئے نکتہ طرازیاں کی جا رہی ہیں کہ بندہ پستول نے مارا ہے، اس شخص نے نہیں، جس کے ہاتھ میں پستول ہے۔ یہ کہنا تو غلط ہو گا کہ صدر مرسی سے کوئی غلطی نہیں ہوئی، اُن کی سب سے بڑی فروگذاشت یہ تھی کہ وہ ایسا دستور نہیں بنا پائے جس پر وسیع تر اتفاق رائے ہوتا۔ اُن کے مخالفین نے کئی دفعات کو شدت سے مسترد کر دیا، لیکن مرسی اور اُن کے ہم خیالوں نے ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کرنے کو کافی سمجھا۔ دوتہائی اکثریت تو انہوں نے حاصل کر لی، لیکن دستور کو وہ تقدیس حاصل نہ ہو سکی، جو اس بنیادی دستاویز کو حاصل ہونی چاہیے۔ صدر مرسی نے سیاسی طاقت کو مستحکم کرنے پر توجہ دی، جبکہ معیشت اُن کے ہاتھ سے نکل گئی۔ انہیں وراثت میں بدحالی ملی تھی۔ گندم، تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کو روکنا ممکن نہ رہا۔ سیاحت کی آمدنی بھی کم ہو گئی، زرمبادلہ کے ذخائر گھٹتے چلے گئے، افراط زر میں اضافہ ہو گیا، دوست ملکوں کی امداد بھی حالات کو سنبھال نہ سکی۔ آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنا ناممکن ہوتا گیا، اس کا پروگرا م دور کا ڈھول بن کر رہ گیا۔ خارجہ پالیسی کے چیلنج بھی اپنے تھے، ایران اور امریکہ، اسرئیل اور شام کے درمیان توازن قائم رکھنے کی کوشش جاری رہی، لیکن ہاتھ خالی ہوتے گئے۔ صدر مرسی کا اقتدار تو ختم ہو گیا، لیکن مصر کو بے یقینی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے۔ ان کے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں، خون بہہ رہا ہے۔ مرسی کے خلاف مہم کے دوران ہلاک ہونے والوں سے زیادہ لوگ تشدد کی اِس لہر میں مارے جا چکے ہیں جو اُن کی معزولی کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ مصر کے نام نہاد لبرلز نے ایک ایسی مثال قائم کر دی ہے،جو کسی بھی مہذب ملک کے لئے باعث اعزاز نہیں ہو سکتی۔ اگر مرسی اور اخوان المسلمون کے 48فیصد مخالف انہیں دھوکا دے کر گرا سکتے ہیں ،تو اخوان کے52فیصد ووٹر اُن کا جینا حرام کیوں نہیں کر سکتے؟ اس سوال پر جتنا غور کیا جائے گا، ان لوگوں کی عاقبت نااندیشی واضح ہوتی جائے گی، جو نام تو جمہوریت کا لیتے ہیں، لیکن اکثریت کی رائے کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ اقلیت کی آمریت کو جمہوریت تو نہیں کہا جا سکتا۔ ( یہ کالم روز نامہ ’’دُنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved