تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     01-05-2021

تقسیم نہیں استحصال

بی بی سی نے گزشتہ صدی کے آخری سالوں میں ایک بین الاقوامی سروے کروایا جس میں 1001ء سے 2000ء تک یعنی ایک ہزار سال (Millennium) کی سب سے زیادہ موثر مفکر شخصیت کا پوچھا گیا تھا۔ اس وقت ایک واضح اکثریت نے جواب میں جدید کمیونزم کے بانی کارل مارکس کا نام لیا تھا، حالانکہ یہ وہ دور تھا جب دنیا میں کمیونسٹ سپر پاور یعنی سوویت یونین زوال پذیر ہوکر 15 ریاستوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ یہ سروے نہ صرف کیپٹل ازم کے حامی ممالک بلکہ برطانیہ‘ امریکا اور فرانس کے علاوہ ان ممالک میں بھی کیا گیا تھا جنہوں نے روس میں بادشاہت کی حمایت جاری رکھتے ہوئے کمیونزم کے انقلاب کے مخالف گروہ White Bolshevikکی حمایت کی تھی۔ بی بی سی کے سروے کے نتائج کارل مارکس کے حق میں آنے کے باوجود اسے شائع کیا گیا۔ یہ وہی دور تھا جب جاپانی نژاد امریکی سکالر فرانسس فوکو یاما نے End of History کتاب لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ صرف مغربی طرز کا کیپٹل از م والا جمہوری نظام ہی دنیا کا آخری نظام ہے‘ یعنی اب سیاسی و معاشی نظریات کی تاریخ ختم ہو گئی ہے۔ اگرچہ دنیا میں یہ نظام تقریباً پچھلی ڈیڑھ‘ دو صدیوں سے رائج ہے مگر اس نظام کا ایک پہلو اس کی تمام خوبیوں کو نڈھال کر دیتا ہے، اور وہ ہے دولت کی غیر مساویانہ تقسیم! اس کا کچھ ذکر گزشتہ کالم میں بھی ہوا تھا کہ اس وقت دنیا کے صرف ایک فیصد افراد کے قبضے میں دنیا کی 81 فیصد دولت ہے۔ اس المیے کا مزید تاریک پہلو یہ ہے کہ یہ ناہمواری اور استحصال بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ آپ خود اندازہ کریں کہ یہ معیشت کی دنیا ہی نہیں بلکہ انسانی تاریخ کا سب سے بھیانک پہلو ہے۔
پہلے بھی ذکر ہوا تھا کہ امیر آدمی کے پالتو کتے وہ اعلیٰ ا ور مہنگی خوراک روزانہ استعمال کرتے ہیں جو غریب کی اکلوتی اولاد کسی خاص تہوار کے موقع پر بھی نہیں کھا پاتی۔ اس تلخ حقیقت پر جہاں لوگوں نے طرزِ بیاں پسند کیا وہیں حیرانی کا اظہار بھی کیا۔ حالانکہ یہ بات بہت ساد ہ طریقے سے ثابت کی جا سکتی ہے۔ آپ شہر کے کسی بڑے سٹور پر جا کر کتے اور بلیوں کی خوراک کا پوچھیں‘ ایک پورا سیکشن اس حوالے سے مل جائے گا جس میں جانوروں کی خوراک کے امپورٹ کردہ ڈبے ہوں گے اور ان کی قیمت دیکھ کر آپ کو مذکورہ حقیقت کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی‘ پالتو جانوروں کے علاج کیلئے قائم درجنوں کلینکس آپ کو لاہور جیسے شہروں میں مل جائیں گے اور اگر آپ ان شفا خانوں کا دورہ کریں تو آپ کی حیرانی وحشت میں بدل جائے گی کہ ان کلینکوں کی حالت، انسانی علاج کے لیے بنے سرکاری ہسپتالوں سے کہیں بہتر ہے۔ اب اگر آپ ان جانوروں کی قیمت دیکھیں تو مزید ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں کہ اعلیٰ نسل کے کتوں کی قیمت دس لاکھ فی کس سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ ان جانوروں کی رجسٹریشن بھی ہوتی ہے، جو ان جانوروں کے رکھنے والے لوگوں کی اپنی قائم کردہ تنظیم کرتی ہے۔ اگر آپ کے پالتو جانور کی رجسٹریشن نہیں ہوئی یعنی ایک گاڑی کی طرح ان کی کاپی نہیں بنی ہوئی تو اس جانور کی مارکیٹ میں قیمت کم لگے گی۔ ان پالتو جانوروں کی ویکسی نیشن بھی کی جاتی ہے جو تین سے چار ٹیکوں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی لاگت پندرہ سے بیس ہزار روپے ہے۔ کچھ اعلیٰ نسل کے کتے چونکہ ٹھنڈے ممالک سے امپورٹ کیے جاتے ہیں اس لئے پاکستان میں گرمیوں کے موسم میں ان کیلئے ایئر کولر یا ایئر کنڈیشنر کا الگ سے اہتمام کیا جاتا ہے، اسی طرح ان کی دیکھ بھال کیلئے ملازمین بھی رکھے جاتے ہیں۔ ان ملازمین کو وہی دال سبزی کھانے کو ملتی ہے مگر یہ بلیاں اور کتے‘ یہ سبزیاں وغیرہ نہیں کھاتے، مطلب یہ جانور مکمل طور پر Non- Vegetarian ہوتے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں بھی ان کتوںکیلئے خاص قسم کے گرم کپڑے یا چمڑے کا خصوصی لباس تیار کیا جاتا ہے۔ بقول شاعر ؎
امیراں دے کتیاں نوں ریشم دے چگھے
غریباں دے بالاں نوں کھدر وی نہ لبھے
(امیروں کے کتوں کو ریشم کے کپڑے ملتے ہیں جبکہ غریب کے بچے کو کھدر بھی میسر نہیں آتی) ایسے ہی کچھ خیالات کی غمازی اس شعر میں بیان کی گئی ہے کہ؎
شیرگی سے پیرگی میں قدم رکھتا ہے
بچہ غریب کا کبھی جواں نہیں ہوتا
اب واپس آتے ہیں کارل مارکس کے کمیونزم پر، وہ اپنی تحریروں اورکتاب Das Kapital میں لکھتا ہے کہ دنیا کی تاریخ اصل میں صرف معاشی تاریخ ہے‘ مطلب معیشت ہی زندگی کے تمام شعبوں کی بنیاد ہے۔ سب سے پہلے دنیا میں آقا اور غلام کی تقسیم پائی جاتی تھی، زرعی انقلاب کے بعد یہ تقسیم جاگیردار اور مزارع میں بدل گئی، وقت کا پہیہ چلتا رہا اور صنعتی انقلاب آ گیا۔ معاشی پیداوار میں یہ تقسیم جمع نہیں بلکہ ضرب کھانے کے حساب سے بڑھنے لگی۔ دولت کی ریل پیل ہو گئی مگر دولت کا ارتکاز چند مخصوص ہاتھوں میں ہی رہا جبکہ طبقاتی تقسیم میں جاگیردار کی جگہ سرمایہ دار جبکہ مزارع کی جگہ مزدور آ گیا۔ وہ اس کو Shapes changed but not the conditionsکہتا ہے، مطلب معاشروں کی ہیئت تبدیل ہوتی ہے آقا اور غلام کی جگہ جاگیردار اور مزارع آ گئے، پھر یہ جاگیردار اور مزارع‘ سرمایہ دار اور مزدور میں تبدیل ہو گئے، مگر امیر اور غریب کا فرق نہ صرف قائم رہا بلکہ وقت کے ساتھ بڑھتا رہا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ مزدور طبقہ‘ جو اجرت حاصل کرتا ہے اور اس میں بمشکل گزارہ کرتا ہے‘ یہ سمجھتا ہے کہ اس کو اس کا حق مل گیا ہے‘ حالانکہ یہ ایک دھوکا False Consciousness ہے۔ درحقیقت اس مزدور، اس پسے ہوئے طبقے کو اپنے استحصال کا احساس ہی نہیں ہے۔ کارل مارکس کے مطابق‘ جب ان مزدوروں کو احساس ہو گا تو وہ انقلاب برپا کرتے ہوئے زمینوں اور مشینوں پر قبضہ کر لیں گے جس سے معاشی طور پر سب انسان برابر ہو جائیں گے۔ اس کے خیالات میں مکمل معاشی برابری تو ممکن نہیں کیونکہ ایک تعلیم یافتہ ڈاکٹر یا انجینئر اور ایک مزدور کی تنخواہ برابر نہیں کی جا سکتی مگر روٹی، کپڑا اور مکان پر سب انسانوں کا حق بہرحال ممکن ہے۔ اس کو سوشلسٹ کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ وسائل کی تقسیم مساویانہ نہ سہی‘ منصفانہ تو ہو۔
اب آپ خود اندازہ کریں کہ جب صرف ایک فیصد لوگ 80 فیصد سے زائد وسائل لے جائیں گے بلکہ ان پر قابض ہو جائیں گے تو باقی لوگوں کے حصے میں کیا آئے گا۔ کسی مفکر کا کہنا ہے کہ وسائل کی اس غیر منصفانہ تقسیم نہیں بلکہ تضاد کہنا پڑتا ہے اور اس طرح کے سماج میں غریب بے حیات جبکہ امیر واہیات ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کو واہیات کا لفظ سخت لگتا ہے تو اس کی تفصیل آپ کو کسی ارب پتی کی شادی یا آئے روز ہونے والی ان کی کسی تقریب کے موقع پر دیکھنے کو ملے گی جس میں نہ صرف یہ کہ پیسے کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہوتا ہے بلکہ اس تقریب میں وہ رقاصہ خود آ کر رقص کرتی ہے جس کی تصویر والا کلینڈر غریب کے گھر میں لگا ہوتا ہے اور جس پر وہ اپنی کبھی نہ بدلنے والی تقدیر کے دنوں کا حساب رکھتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved