تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     02-05-2021

ووٹر کو انتظار ہے

ابھی ابھی وزیراعظم عمران خان کا ٹویٹ موصول ہوا ہے، جس میں اپریل 2020ء کے 240ارب روپے کی نسبت اپریل 2021ء میں57 فیصد اضافے کے ساتھ 384 ارب روپے جمع کرنے پر ایف بی آر کی کاوشوں کو سراہا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ جولائی تا اپریل مجموعی طور پر 3780 ارب جمع ہوئے جوگزشتہ برس کے اسی دورانیے سے 14 فیصد زیادہ ہیں۔ بات اس دعوے پر ختم کی گئی کہ ہماری پالیسیاں معیشت کا رُخ وسیع البنیاد بحالی کی جانب موڑ چکی ہیں۔ اس سے پہلے یہ خبر دی جا چکی ہے کہ روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کے ذریعے سمندر پار پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقوم کی مقدار ایک اب ڈالر سے تجاوز کرگئی ہے‘ ترسیلاتِ زر میں اضافہ ہورہا ہے اورکرنٹ اکائونٹ کا خسارہ جو بھیانک خواب کی طرح اعصاب پر چھایا ہوا تھا قصۂ ماضی بن کررہ گیا ہے۔ وزیراعظم ہر روز کسی نہ کسی تقریب سے خطاب، اور مختلف علاقوں کیلئے ترقیاتی پیکیجز کا اعلان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی ملتان میں تو کبھی سکھر میں، کبھی گلگت بلتستان تو کبھی لاہور میں۔ رمضان المبارک کے مہینے میں بھی اُنہیں ٹک کر بیٹھنا نصیب نہیں ہورہا۔ آہوئے بیتاب کی صورت وہ اچھے دِنوں کی خبریں سناتے چلے جا رہے ہیں۔ کورنا کی تیسری شدید لہرنے ملک کو لپیٹ میں لے رکھا ہے، لیکن کاروبارِ زندگی پھربھی چل رہا ہے۔ ملک گیر لاک ڈائون کی نوبت ابھی نہیں آئی، اور کوشش کی جارہی ہے کہ کسی نہ کسی طوربند باندھ لیا جائے۔ ہسپتالوں کی استعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ آکسیجن کی فراہمی کے انتظامات کیے جارہے ہیں۔ فواد چودھری کے اس دعوے کی تصدیق ہوچکی کہ پاکستان بین الاقوامی معیار کے وینٹی لیٹر بنانے کے قابل ہوگیا ہے۔ ایٹمی توانائی کمیشن کے سائنس دانوں نے اس کا سہرا اپنے سرسجا لیا ہے، اور نئے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز بھی اس اطلاع پر یقین کرچکے ہیں۔ وینٹی لیٹرز کے حوالے سے ان کے شکوک و شبہات کو دوبارہ زبان نہیں ملی۔ ایک طرف یہ سب کچھ ہورہا ہے، دوسری جانب وزیراعظم اپنی ٹیم کی کاٹ پھانس میں بھی مصروف ہیں۔ انصاف سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے سیاست کاآغاز کرنے والے فرخ حبیب فواد چودھری کے شانہ بشانہ ہیں۔ وزیر مملکت کے عہدے کا حلف اٹھا کراپنی جدوجہد کا پھل اٹھانے میں مصروف ہیں۔ خان صاحب اعتراف کررہے ہیں کہ ٹکٹوں اوروزارتوں کی تقسیم میں ان سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، اوروہ انکے بارے میں سوچ بچار کرتے رہتے ہیں۔ نئے وزیرخزانہ اپنے وجود کا ثبوت دے رہے ہیں، اور مختلف محکموں‘شعبوں کو چابک دکھانے میں مصروف ہیں۔ ڈاکٹر وقار مسعود کی خدمات براہِ راست انہیں حاصل ہوچکی ہیں اور وہ نئے عزم کے ساتھ آئی ایم ایف کواپنی بات سمجھانے اوربجلی کے نرخوں میں اضافے کورکوانے کیلئے سرگرم ہیں۔
ایک طرف یہ سب ہورہا ہے، دوسری طرف سیاسی معاملات بے قابو دکھائی دیتے ہیں۔ اپوزیشن اورحکومت‘ دونوں کی درگت اپنے ہاتھوںبن رہی ہے۔ وہ دس رکنی اپوزیشن اتحاد، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے جس کی تشکیل کی گئی تھی، اور جس نے حکومت کو ناکوں چنے چبوانے کے بلندبانگ دعوے کیے تھے، جولانگ مارچ اور اسمبلیوں سے استعفوں کے ذریعے سب کچھ زیروزبر کرنے کا مصمم ارادہ ظاہر کررہا تھا، وہ اب بکھر چکا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کو قومی اسمبلی کے ذریعے سینیٹر بنوانے کی محیرالعقول کامیابی اور نوشہرہ اور ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی شکست کے بعد پی ڈی ایم کے رعب اور ساکھ میں جواضافہ ہوا تھا، وہ ہَوا میں اڑچکا ہے۔ پیپلزپارٹی اور اے این پی، پی ڈی ایم سے علیحدہ ہوکر اپنی ڈفلی بجا رہی ہیں، اور مسلم لیگ(ن)، حضرت مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کراپنا راگ گا رہی ہے۔ کراچی کے حلقہ249 میں ضمنی انتخاب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان لڑاگیا ہے۔ چند ووٹوں سے ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کی شکست کا اعلان کیا جا چکا ہے، لیکن وہ دوبارہ گنتی کرانے پر مصر ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ نشست جیت چکے تھے، پیپلزپارٹی نے جھرلو پھیرکر نتیجہ بدل ڈالا ہے۔ وہ اورمیاں نوازشریف اس بات پر تعجب کا اظہار کررہے ہیں کہ ایک گنجان آباد شہری حلقے میں جہاں پولنگ کی شرح 20 فیصد کے لگ بھگ تھی، ووٹوں کی گنتی میں گھنٹوں تاخیر کیوں ہوئی، رات بھرنتائج کا انتظار کیوں رہا، انتخابی عملے تک رسائی کیوں ممکن نہیں ہوسکی، مریم نواز شریف ٹویٹ پر ٹویٹ کر کے غم و غصے کا اظہار کررہی ہیں۔ بتا رہی ہیں کہ شیر کا شکار ممکن نہیں ہوگا۔ بلاول بھٹو زرداری بھی تندوتلخ لہجے میں جواب دے رہے ہیں، اور مسلم لیگ(ن) کو شکست تسلیم کرنے کا حوصلہ پیدا کرنے کی تلقین کررہے ہیں۔ اس حلقے میں تحریک لبیک کے امیدوار بھی کھڑے تھے، ایم کیوایم اور مصطفی کمال بھی میدان میں تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک لبیک اور مصطفی کمال نے اپنی کامیابی کا یکطرفہ اعلان کرکے اپنے حامیوں کے نعرے بھی وصول کرلیے تھے۔ تحریک انصاف‘ جس کے فیصل واوڈا کے استعفے سے یہ نشست خالی ہوئی تھی، سب سے پیچھے تھی، اس کا بھرم کھل چکا تھا۔ تحریک انصاف تواپنے زخم چاٹ رہی ہے، لیکن پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) ایک دوسرے کوزخم لگانے میں مصروف ہیں۔ اگر پی ڈی ایم نہ ٹوٹتی تو ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کا امیدوار کھڑا نہ ہوتا۔ یہ طے تھاکہ ضمنی انتخاب میں اس جماعت کوسپورٹ کیا جائے گا، جس کے امیدوار نے عام انتخاب میں دوسری پوزیشن حاصل کررکھی ہے۔ اس حلقے سے شہبازشریف چند سوووٹوں سے ہارے تھے، جبکہ ان کے کہیں زیادہ ووٹ مسترد کردیئے گئے تھے۔ پی ڈی ایم کے وضع کردہ فارمولے کے مطابق پیپلزپارٹی اُسی طرح مسلم لیگ(ن) کو یہاں سپورٹ کرتی، جس طرح ڈسکہ اور وزیرآباد میں کرچکی تھی، لیکن پی ڈی ایم کی لیڈرشپ پی ڈی ایم کو سنبھال نہ پائی۔ مولانا فضل الرحمن، مولانا فضل الرحمن تک محدود ہوگئے، مولانا مفتی محمود مرحوم اور نوابزادہ نصراللہ خان بن کر نہ دکھا سکے۔ اگر وہ جنبش کرتے تواتحاد کا بھرم بچایا جا سکتا تھا، پیپلزپارٹی کی شرارتوں کے اثرات کومحدود کیا جا سکتا تھا۔
اپوزیشن کی طرح تحریک انصاف بھی اپنے آپ میں اُلجھ چکی ہے۔ مخالفین کونشانہ بناتے بناتے اب اُس کے اپنے اس کی زد میں ہیں۔ جہانگیرترین کیخلاف ایف آئی اے کی کارروائیوں کے نتیجے میں قومی اورپنجاب اسمبلی کے متعدد ارکان آواز اٹھا رہے ہیں۔ اپنا احتجاج لے کر وزیراعظم سے بھی مل چکے ہیں، اوروہ معاملے کا جائزہ لینے کیلئے سینیٹر سید علی ظفر کی ایک رکنی کمیٹی بھی بنا چکے ہیں۔ تحریک انصاف کی صفوں میں بے چینی قابو میں نہیں آ رہی۔ اسد عمر کویہ دھمکی بھی دینا پڑگئی ہے کہ عمران خان بلیک میل نہیں ہوں گے۔ (مشکل بڑھ گئی تو) وہ اسمبلیاں تحلیل بھی کرسکتے ہیں، گویا نئے انتخابات وقتِ مقررہ سے پہلے بھی ہوسکتے ہیں۔ اپوزیشن اسد عمر کے منہ میں گھی شکر کہہ کر شادیانے بجارہی ہے۔ لوگ مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں تنگ ہیں۔ تمام تر زورلگانے کے باوجود چینی کی قیمتوں کو قابو نہیں کیا جا سکا، حکومت نے اپنے آپ کوایک ایسے جال میں پھنسا دیا ہے، جس سے نکلنا اس کیلئے ممکن نہیں، چینی کی قیمت کوکم کرتے کرتے وہ ہلکان ہے، اور تماشہ بن کررہ گئی ہے۔ معیشت کی بحالی کے سارے دعوے ایوانوں میں کانوں کوبھلے لگتے ہیں، لیکن میدانوں میں کھڑے نہیں ہوپاتے۔ بجلی اورگیس ہو یا روزمرہ کی اشیا، عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ خان صاحب نے اسمبلیاں تحلیل کرڈالیں، توگویا مسلم لیگ(ن) اور اس کے ہم نوائوں کی دُعائیں قبول ہو گئیں کہ... ان کے بقول ووٹر اسی دن کا انتظار کررہا ہے: دِن گنے جاتے ہیں اس دن کے لیے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved