خواب بہت دکھائے جا چکے ۔ سپنے بہت بیچے جا چکے ۔ عمل کے سوا اب کوئی شہادت قابلِ قبول نہیں اور عمل کے مراحل ہمیشہ ایک حکمتِ عملی کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں ۔ وہ حکمتِ عملی، وہ جامع منصوبہ کہاں ہے ؟ کہانی مت سنائیے ، کہانی اب کون سنتاہے ۔ سعودی سفیر نے اخبار نویسوں سے صاف کہہ دیا۔ ان کے علم میں نہیں کہ ان کا ملک پاکستان کی اقتصادی سرپرستی کا کوئی منصوبہ رکھتا ہو۔ کہاگیا کہ کم از کم ایک سال کے لیے پاکستان کو سعودی عرب سے تیل ملتا رہے گا ، جس کی قیمت بعد میں سہولت سے ادا کی جائے گی ۔ خواجہ آصف نے اعلان کیا کہ بجلی کی قلت کا خاتمہ مقصود ہے تو زائد قیمت اداکرنا ہوگی ۔ کاروباری اور صنعتی اداروں کو فوری طور پر ۔ گھریلو استعمال پہ بس اتنی مہربانی ممکن ہے کہ دو تین ماہ کی مہلت دی جائے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ٹھیک اسی انداز میں واویلا کیا ہے ، جس طرح پیپلز پارٹی کے دور میں کیا کرتے تھے۔ اوپر سے نیچے تک کرپشن ہی کرپشن ہے ۔ وہی افسر انہی مناصب پر فائز ہیں ، جن کی وجہ سے فساد تھا۔ اگر مقصد یہ ہے کہ سپریم کورٹ سے جنگ جاری رہے تو ہم بھی اس کے لیے تیار ہیں ۔ چینی وزیراعظم نے میاں محمد نواز شریف سے مطالبہ کیا کہ ان کے ہنر مندوں کو تحفظ فراہم کیاجائے ، ورنہ کام جاری رکھنا مشکل ہوگا ۔ وزیراعظم نے چین کا دورہ کیاتوبہت اچھا کیا۔ مایوسی کی فضا میں امید کی ایک کرن اس سے پھوٹی ۔ گوادر سے لاہور تک موٹر وے اور سنکیانگ تک ریلوے لائن کی تعمیر کے خوابوں پر کون خوش نہ ہوگا۔ سوال مگر یہ ہے کہ جب تک عراق سے تریاق آئے گا، سانپ کے کاٹے پر کیا بیتے گی ؟ ملک کے اصل مسائل کیا ہیں ؟ ظاہر ہے کہ دہشت گردی ، بجلی کی کمی، امن و امان اور ٹیکس وصولی ۔ غیر ملکی اگر محفوظ نہیں تو وہ سرمایہ کاری کیوں کریں گے ؟ پاکستان کیوں آئیں گے ؟ جمعرات کو چوہدری نثار علی خاں نے کہاکہ دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کے لیے کل جماعتی کانفرنس بلائی جائے گی ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی سمیت سکیورٹی اداروں کے سربراہ مدعو کیے جائیں گے اور ایک جامع منصوبہ تشکیل دیا جائے گا۔ جمعہ کی شام تک ، جب اس اعلان پر مختلف ٹی وی چینلوں پر زوردار مباحثے جاری تھے، ایک سے ایک بڑا مفکر دور کی کوڑی لا رہا تھا ، عسکری ذرائع سے میں نے رابطہ کیا۔ پورے وثوق سے ان کاکہنا یہ تھا کہ جنرل کیانی کو اب تک ایسی کوئی دعوت نہیں ملی ۔ ظاہر ہے کہ اگر جنرل کیانی سے بات نہیں ہوئی تو آئی ایس آئی سمیت باقی اداروں سے بھی رابطہ نہیں ہوا۔ سیاسی لیڈروں کا اجتماع دہشت گردی کے خاتمے میں کیونکر مدد دے سکتا ہے ؟ وہ اپنا موقف ہی تو بیان کریں گے اور ہم سب پہلے ہی اس سے واقف ہیں ۔ ابھی کل تک عمران خان کا مطالبہ یہ تھا کہ میاں محمد نواز شریف اور جنرل کیانی ان کے ساتھ مل بیٹھیں اور ایک قومی حکمتِ عملی تشکیل دی جائے۔ ان کی بات نہ سنی گئی تو اب انہوںنے وہی پرانا موقف اختیار کر لیا ہے کہ فضائیہ کو امریکی ڈرون مارگرانے کا حکم دیا جائے ۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ ابھی کل ہی آپ نے کشکول پھیلا کر آئی ایم ایف سے 5.3بلین ڈالر کی بھیک لی ہے ۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہیں۔ مہنگائی طوفان کی طرح بڑھتی جاتی ہے ۔رمضان المبارک کی آمد کے خوف سے خریداروں پہ لرزہ طاری ہے۔ ایسے میں امریکہ سے محاذ آرائی کا تصور بھی دیوانے کا خواب ہے ۔ سنتا ہوں بڑے شوق سے افسانۂ ہستی کچھ اصل ہے، کچھ خواب ہے، کچھ حسنِ بیاں ہے کل جماعتی کانفرنس میں زورِ خطابت کے سوا اورکیا دیکھنے کو مل سکتاہے ؟ اگر وہاں بھی عمران خان ڈرون گرانے کا مطالبہ کریں اور اس حکومت سے کریں جو امریکیوں ، عربوں اور ملک کے مالدار طبقات کی مدد سے برسرِ اقتدار آئی ہے تو مذہبی لیڈر کیا کیا گل نہ کھلائیں گے ؟ وہ تو ماننے پر آمادہ ہی نہیں کہ مساجد ، مقابر ،مارکیٹوں ، مخالف مذہبی فرقوں اور ملٹری تنصیبات پر حملہ کرنے کے ذمہ دار طالبا ن ہیں ۔ وہ تو بلیک واٹر والوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ مہربانی کے موڈ میں ہوں تو یہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی تب ختم ہوگی ، اگر اس کے بنیادی اسباب کا تدارک کیا جائے ۔ادھر طالبان امریکیوں سے مذاکرات میں مصروف ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 2014ء کے بعد بھی وہ افغانستان میں امریکہ کی محدود سی موجودگی کے امکان کو گوارا کرنے پر آمادہ ہیں ۔ ہمارے مذہبی لیڈر مگر بے گناہ شہریوں کے پرخچے اڑانے کا جواز فراہم کرتے رہیں گے ، جب تک کابل طالبان کے سپرد نہیں کر دیا جاتا، جس کا اب کوئی امکان نہیں ۔ الیکشن میں ان کی شرکت ضرور ممکن ہے اور اس کے نتیجے میں وہ زیادہ سے زیادہ بیس پچیس فیصد سیٹیں لے سکتے ہیں ۔ گلبدین حکمت یار کی حزبِ اسلامی کا ذکر ہمارے میڈیا میں بہت کم ہوتاہے ۔ خود ان کی پالیسی یہی ہے کہ پروپیگنڈے کے طوفان کا حصہ نہ بنا جائے۔ افغان آبادی میں مگر وہ ایک مسلّمہ حقیقت ہیں ۔ اب بھی پارلیمنٹ میں ان کے پچاس عدد حامی موجود ہیں ۔ اگر کھل کر کام کرنے کا موقعہ انہیں مل سکے اور ظاہر ہے کہ طالبان سے مفاہمت اگر ہوئی تو یہ بھی ہو کررہے گاتو یہ تعداد بڑھ سکتی ہے ۔ تین برس ہوتے ہیں ، جب جنرل اشفاق پرویز کیانی سے اس ناچیز نے عرض کیا تھاکہ عمران خان اور سید منور حسن سے انہیں بات کرنی چاہیے۔ جن دلائل کی بنیاد پر وہ 100فیصد اخبار نویسوں کو سوات میں فوجی آپریشن پر قائل کر پائے، ان کے سامنے وہ کیوں پیش نہیں کر سکتے ؟ انہیں کیوںقائل نہیں کرتے ؟ جنرل کا جواب بہت دلچسپ تھا : قائل کرنے کی کیاضرورت ہے ۔ آدمی کو حقائق پیش کر دینے چاہئیں اور باقی دوسرے کے ذہن، ذوق اور ضمیر پر چھوڑ دینا چاہیے۔ چوہدری نثار علی خان اور میاں محمد شہباز شریف سے وہ ملتے رہے اور عمران خان کے پاس انہوںنے جنرل شجاع پاشا کو بھیجا۔ اس پر ایسا جھوٹ گھڑا گیا اور پروپیگنڈے کا ایسا طوفان اٹھایا گیا کہ خدا کی پناہ۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ مذہبی قیادت کو اعتمادمیں لیے بغیر دہشت گردی کا مسئلہ کیونکر حل ہو سکتاہے ، کس طرح ایک قومی حکمتِ عملی مرتب کی جا سکتی ہے ۔ وہ مانیں یا نہ مانیں مگر بنیادی معلومات تو انہیں فراہم کی جاتیں ۔ شاید اب ایک اور قرینہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ 12جولائی کو اگر کل جماعتی کانفرنس بلائی گئی تو ہر کوئی دیکھ لے گا کہ اس سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ یہ ایک شاندار تقریری مقابلہ ہوگا۔ ممکن ہے کہ ایک متفقہ قرار داد بھی منظور کر لی جائے مگر اس کا نتیجہ پچھلی کانفرنسوں اور قراردادوں سے مختلف نہ ہوگا۔ کیا یہ موزوں ترنہ ہوگا کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اورجنرل ظہیر الاسلام سمیت ، آئی بی کے سربراہ اور طارق کھوسہ ایسے افسروں کا ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیا جائے۔ پختون خوا پولیس کے دو ایک منجھے ہوئے افسر بھی اس میں شامل کیے جا سکتے ہیں اور پشاور سے ایک آدھ غیر متنازعہ اخبار نویس بھی ، جو معاملے کے اور چھور کو سمجھتا ہو۔ کانفرنسیں بلا کر ٹی وی چینلوں اور اخبارات کے صفحات جگمگانے سے کیا حاصل ؟ یہ گروپ ایک منصوبہ تشکیل دے اور اس پر سیاسی رہنمائوں کو اعتماد میں لیا جائے ۔ مذاکرات کا اگر کوئی امکان موجود ہے تو اس پر ایک لائحہ عمل کے خطوط متشکّل ہونے چاہئیں۔ بجلی کی کمی ، امن و امان کی بہتری اور ٹیکس وصولی کے لیے بھی اسی طرح کی ریاضت درکار ہے ۔ خواب بہت دکھائے جا چکے ۔ سپنے بہت بیچے جا چکے ۔ عمل کے سوا اب کوئی شہادت قابلِ قبول نہیں اور عمل کے مراحل ہمیشہ ایک حکمتِ عملی کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں ۔ وہ حکمتِ عملی، وہ جامع منصوبہ کہاں ہے ؟ کہانی مت سنائیے ، کہانی اب کون سنتاہے ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved