تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     02-05-2021

مغرب کی نقالی

میں گزشتہ تین دن سے امریکہ میں ہوں۔ یہاں جس دوست سے بھی فون پر بات ہو‘ وہ صرف دو سوالات کرتا ہے، پہلا یہ کہ پاکستان میں کورونا کی کیا صورتحال ہے؟ اور دوسرا سوال قاضی فائز عیسیٰ والے کیس سے متعلق ہوتا ہے‘ بلکہ سچ پوچھیں تو یہ دوسرا والا سوال دراصل سوال نہیں ہوتا بلکہ اس پر کمنٹس ہوتے ہیں۔ امریکہ میں رہنے والوں کو کم از کم اس قسم کی بات کرنے کی آزادی ہے؛ تاہم، ہم اس آزادی سے محروم لوگ ہیں اس لیے ان کمنٹس کو امریکہ میں ہی رہنے دیتے ہیں کہ اس عاجز نے چار چھ دن بعد واپس پاکستان ہی آنا ہے۔ لے دے کے ایک سوال باقی بچ جاتا ہے اور وہ کورونا کی صورتحال کے بارے میں ہوتا ہے۔
میں دوستوں کو کہتا ہوں کہ اس معاملے میں اب مقابلہ قدرت کی مہربانی اور ہماری ہٹ دھرمی، بے احتیاطی اور حکومتی نااہلی کے درمیان ہو رہا تھا، قدرت نے ہماری مسلسل غیر ذمہ داری سے تنگ آ کر آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ اٹھانا شروع کر دیا ہے اور صورت حال روز بروز بگڑتی جا رہی ہے‘ لیکن شاباش ہے عوام اور حکومت دونوں پر کہ کسی نے بھی ہوش کے ناخن نہیں لیے۔ عوام مسلسل ایس او پیز کی خلاف ورزیوں پر کمر باندھے ہوئے ہے اور حکومت ابھی تک کچھ کرنے اور نہ کرنے کے درمیان‘ شش و پنج میں مبتلا ہے۔ نہ ہسپتالوں میں جگہ ہے اور نہ آکسیجن کا خاطر خواہ ذخیرہ ہے۔ نہ کسی بات پر حکومت کا کوئی کنٹرول ہے اور نہ کوئی واضح پالیسی ہے۔ ایسے معاملات میں کوئی جامع پالیسی ہونی چاہیے تھی، جس کا پوری سختی سے نفاذ کیا جاتا لیکن حکومت کو سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ خان صاحب کی ٹیم نے ملک کی معیشت کا جو بھٹہ بٹھانا تھا وہ تو انہوں نے اپنی ناقص پالیسیوں سے حتی المقدور بٹھا لیا اب ان کا زور لے دے کر اسی پر آ رہا ہے کہ لاک ڈائون سے غریب آدمی کا روزگار برباد ہو جائے گا۔ بندہ پوچھے اگر غریب کورونا سے مر گیا تو اس کے روزگار کا تحفظ کیا معنی رکھتا ہے؟ سب چیزیں زندگی کے ساتھ ہوتی ہیں اور زندگی بچانا ہی سب سے بنیادی بات ہے۔
ملک میں کورونا کی دو گزشتہ لہروں کے دوران میں نے یہی دیکھا کہ لوگ آکسیجن کے لیے، ہسپتال میں داخلے کے لیے اور کورونا کے درست علاج کے لیے مارے مارے پھر رہے تھے۔ اس دوران بعض پرائیویٹ ہسپتالوں نے وہ لوٹ مار کی کہ خدا کی پناہ۔ اتنی بے رحمی اور پیسے کمانے کی ہوس کہ اس کے لیے کوئی مثال نہیں مل رہی۔ ہمارے ایک دوست کی اہلیہ کی طبیعت بگڑ گئی تو ہسپتال کی تلاش کا مرحلہ آن پڑا۔ سرکاری ہسپتال میں بستر خالی نہیں تھا۔ کیا کرتے؟ مجبوراً ایک پرائیویٹ ہسپتال میں داخل کرا دیا۔ ہسپتال بھی وہ جسے زمین سرکار نے ارزاں ترین نرخوں پر دی تھی۔ آئی سی یو میں داخلہ مل گیا۔ ایک کمرے میں چھ مریض تھے اور انہیں آکسیجن لگی ہوئی تھی۔ یاد رہے کہ میں نے آکسیجن کا لکھا ہے نہ کہ وینٹی لیٹر کا۔ آکسیجن کے ساتھ ایک عدد مانیٹرنگ کا آلہ لگا ہوا تھا۔ خیر بات ہو رہی تھی اس ہسپتال میں لوٹ مار کی۔
آکسیجن کی سپلائی اور ایک مانیٹر۔ ایک کمرے میں چھ مریض اور ہر مریض سے روزانہ کے ساٹھ ہزار روپے بٹورے جا رہے تھے۔ اس ایک کمرے سے روزانہ تین لاکھ ساٹھ ہزار روپے کمائے جا رہے تھے۔ ہمارے دوست کی اہلیہ اس آئی سی یو میں تقریباً دس روز رہنے کے بعد ایک پرائیویٹ کمرے میں منتقل ہو گئیں۔ اس دوران ادویات اور ڈاکٹروں کی وزٹ کی فیس ان ساٹھ ہزار روپے یومیہ کے علاوہ تھی۔ لگ بھگ ستر اسی ہزار روپے روزانہ کے خرچ کے بعد انہیں کورونا کے لیے مختص مریضوں والے حصے میں ایک کمرے میں منتقل کر دیا گیا۔ اس کمرے کا روزانہ کا کرایہ چالیس ہزار روپے تھا۔ دیگر سہولیات یعنی ادویات اور ڈاکٹروں کی معائنہ فیس اس کے علاوہ تھی۔ اس سے آدھے کرائے میں پاکستان کے بہترین فائیو سٹار ہوٹل میں کمرہ کرائے پر مل جاتا ہے جہاں صفائی، سروس، سہولیات اور ماحول اس تنگ سے کمرے سے ہزار گنا بہتر ہوتا ہے اور وہاں ٹھہرنا آپ کی مجبوری نہیں بلکہ مرضی ہے، جبکہ یہ ہسپتال والے آپ کی مجبوری سے فائدہ اٹھا رہے تھے۔ وہ خاتون اس ہسپتال میں ایک ماہ کے قریب رہیں اس دوران ہسپتال کا کل خرچہ بیس لاکھ روپے سے زیادہ بنا۔ اس نے کس طرح اس کا بندوبست کیا، یہ ایک الگ کہانی ہے۔
خدا جانے کورونا کے لیے وقف اربوں روپے کا فنڈ کہاں خرچ ہو گیا؟ ویکسین ابھی تک ساری کی ساری خیراتی ہے۔ میری اطلاع کے مطابق ایک دھیلہ ویکسین کی خریداری پر خرچ نہیں کیا گیا۔ جس چیز کا حساب کتاب لینا دینا مشکل ہے وہاں تو اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں اور جہاں پیسے کا حساب رکھا جا سکتا تھا اور حساب مانگا جا سکتا تھا وہاں سرکار نے ایک پیسہ خرچ نہیں کیا۔ سرکاری ہسپتالوں میں بھی داخل ہونے والے فی مریض پر لاکھوں روپے کا خرچ ظاہر کر کے سارا فنڈز غتربود کر لیا گیا۔ سرکاری ہسپتالوں کے پاس اس خرچے کا بھی کوئی حساب نہیں اور یہ سب کچھ بالا ہی بالا ادھر اُدھر ہو گیا۔ غضب خدا کا۔ بائیس کروڑ سے زیادہ آبادی کے ملک میں آج تک ویکسین لگنے کی شرح 0.6 فیصد سے کم ہے۔ ویکسین لگنے کی رفتار خیرات میں ملنے والی ویکسین کے تناسب سے بھی کم ہے کہ جتنی مفت میں آتی ہے وہ تو لگا دی جائے۔ پیسے والوں کے پاس اب پرائیویٹ ویکسین کی سہولت آ گئی ہے‘ باقی مخلوق اللہ توکل بیٹھی ہوئی ہے۔
یہاں امریکہ میں روزانہ ویکسین لگنے کی شرح چونتیس لاکھ افراد کی بلند ترین سطح تک گئی ہے اور آج تک اس کی اوسط ساڑھے چار لاکھ افراد یومیہ ہے۔ تینتیس کروڑ آبادی والے امریکہ میں تیرہ کروڑ سے زائد لوگوں کو کم از کم ایک ڈوز ویکسین لگ چکی ہے جبکہ ساڑھے نو کروڑ سے زائد لوگ ویکسین کی دو ڈوز مکمل کر چکے ہیں۔
ہمارے ہاں حکمرانوں کو روزگار کا فکر تو ہے لیکن کسی کی جان کی فکر نہیں ہے۔ امریکہ میں ویکسین لگنے کے بعد کورونا سے مرنے والوں کی اوسط تعداد تین ہزار چار سو افراد فی یوم سے کم ہو کر سات سو اموات فی یوم تک آ گئی ہے۔ ان مرنے والوں میں ویکسین یافتہ افراد کی شرح اتنی کم ہے کہ یقین مشکل ہے۔ کورونا ویکسین یافتہ مریض کے اس بیماری سے مرنے کی شرح 0.008 فیصد سے بھی کم ہے۔ ہماری سرکار ویکسین خریدنے اور لوگوں کو لگانے کے بجائے امدادی ویکسین کے انتظار میں ہے، کورونا کا اربوں روپے کا فنڈ کہاں گیا؟ کسی کو نہ تو معلوم ہے اور نہ ہی کبھی معلوم ہو سکے گا کہ یہاں ایسے معاملات کا سرا نہ پہلے کو کسی ملا ہے اور نہ آئندہ ملے گا!
میں نے گزشتہ سے پیوستہ روز کورونا کی ویکسین کے لیے خود کو یہاں رجسٹرڈ کروایا۔ تھوڑی دیر بعد ای میل آ گئی کہ آپ کل صبح نو بج کر بیس منٹ پر وال مارٹ (کیش اینڈ کیری سٹور) کی فارمیسی پر آ جائیں۔ کل صبح میں وال مارٹ گیا۔ فارمیسی والوں نے پوچھا آپ کی انشورنس ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ سوال ہوا: ڈرائیونگ لائسنس نمبر کیا ہے؟ میں نے کہا: میں دو روز قبل پاکستان سے آیا ہوں۔ میں نے انہیں اپنا پاسپورٹ نمبر بتایا اور خاتون نے ویکسین لگا کر کہا کہ پندرہ منٹ بیٹھ کر کسی قسم کے ری ایکشن کا جائزہ لیں اور پھر گھر چلے جائیں۔ اور ہاں! دوسری ڈوز کا کارڈ یہ ہے‘ انیس مئی کو دوسری ڈوز کے لیے یہاں تشریف لے آئیں۔ میں نے پوچھا: ویکسین کی ادائیگی کہاں کرنی ہے؟ وہ ہنسی اور کہنے لگی: یہ مکمل طور پر مفت ہے۔ اپنے وزیر اعظم ہر بات پر مغرب کی مثال دیتے ہیں۔ وہ یہاں بھی مغرب کی نقالی کر لیں تو کیا حرج ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved