مجھے ایسے لگا کہ میں کسی بہت بڑے اور پُرنور و معطر دربار میں حاضر ہوں جہاں حدِ نظر تک انسانی جسم ہی نظر آ رہے ہیں، میں ان کے درمیان کھڑا خالقِ حقیقی سے رو رو کر درمندانہ طریقے سے کورونا جیسی مہلک بیماری کو سرے سے ہی ختم کرنے کیلئے دن رات کروڑوں روزہ داروں کی عاجزی سے مانگی ہوئی دعائیں قبول نہ ہونے کا شکوہ کر رہا ہوں۔ مالکِ ارض و سما سے پاکستانیوں کی روزہ کی حالت میں شکووں سے بھری دعائوں کے واسطے دیتی ہوئی میری التجا پر وہاں حد نگاہ تک مردوں اور عورتوں کا مجمع میرا ہم آواز ہو کر زور زور سے فریادی اور احتجاجی انداز سے چلانا شروع ہو گیا۔ جب چیخ و پکار حد سے بڑھ گئی تو اچانک ایک پرشکوہ آواز گونجی جس نے سب سے گویا قوتِ گویائی چھین لی ہو۔ لمحے بھر میں ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ اُس پرشکوہ اور کڑک دار آواز نے پوچھا: بتائو تم میں سے کس کس نے پاکستان سے کورونا ختم کرنے کی دعائیں کی تھیں؟ اس پر سب شور مچاتے ہوئے کہنے لگے کہ ہم سب نے روزہ کی حالت میں گڑ گڑا کر رب العالمین سے معافی کی دعائیں مانگی تھیں! یہ آوازیں بھی جب حد سے زیادہ بلند ہونے لگیں تو دوبارہ کڑک دار آواز نے سب کی زبانیں گنگ کر دیں اور ایسے لگا کہ ہم سب پتھر بن گئے ہیں‘ ایسے پتھر جو دیکھ سکتے ہیں‘ سن بھی سکتے ہیں لیکن بول نہیں سکتے، ذرا سی حرکت بھی نہیں کر سکتے۔ اس پرشکوہ اور بارعب غیبی آواز نے کہا: تم لوگ اپنے خالق و مالک سے شکوے کر رہے ہو کہ روزہ کی حالت میں مانگی تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوئیں؟ کیا دعا مانگتے ہوئے تم میں سے کسی نے کبھی ایک لمحے کیلئے بھی سوچا کہ ماہِ رمضان شروع ہوتے ہی خدا کی مخلوق سے چینی، سبزیاں، پھل، دالیں، مسالا جات، آٹا، صابن، ادویات اور لباس سمیت بازار میں رکھی تمام اشیاء چھین
لی گئیں، سب چیزوں تک ان کی رسائی مشکل بنا دی گئی۔ ایسا کرنے سے خدا کی مخلوق کو بھوک اور بیماری کے حوالے کر دیا گیا، انسانی جان بچانے والی دوائیں مہنگی کر کے، بھاری فیسیں لے کر، ہزاروں روپے کی نت نئی مہنگی میڈیکل رپورٹس سے ، جعلی ادویات سے، کمیشن کھا کر بنائے گئے ترقیاتی منصوبوں سے، پی آئی اے اور سٹیل ملز جیسے اداروں کی تباہ حالی سے، ملک کے ہر کونے میں رشوت خوری، قبضے اور رسہ گیری سے، بے حیائی اور فحاشی کے نام پر اربوں‘ کھربوں روپے کمانے والو! آئی ایم ایف، عالمی بینک، مختلف کنسورشیم سے ملک کیلئے قرضوں کے نام پر حاصل کئے گئے اربوں ڈالر امریکا‘ برطانیہ‘ فرانس‘ دبئی اور سوئٹزر لینڈ منتقل کرنے والوں کے نام کے ڈنکے بجانے والو! ان کے لئے جلسے جلوس اور ریلیاں کرنے والو! پاکستان‘ جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے‘ اسے لوٹنے والوں کو ووٹ دینے والو! خدا کی غریب مخلوق کو قرضوں میں پھنسا کر خزانوں کو لوٹ کر کروڑوں لوگوں کو بھوکا مارنے والو! کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ کے حضور تمہاری دعائیں قبول ہوں گی؟ خالقِ دو جہاں یقینا سب کی دعا سنتا ہے مگر جس پیٹ میں حرام کا لقمہ ہو، جو لوگوں کا حق غصب کر کے بیٹھا ہو، جو عوام کا جینا دوبھر کر رہا ہو‘ اس کی دعا کیونکر قبول ہو سکتی ہے؟ اگر بحیثیت مجموعی تم سب کے کام دیکھے جائیں تو صورتِ حال نہایت افسوس ناک اور سے باہر ہے مگر تمہارے حال پر ہمیشہ اس کی رحمت غالب آ جاتی ہے۔
اس رعب دار آواز نے ایک جانب کھڑے لوگوں سے کہا ''تم نے ہمیشہ غریبوں کا مال کھایا، ہمسایوں کا جینا دوبھر کیا، کسی نے ان کا پانی بند کیا تو کسی نے راستہ تنگ کیا، ایک دوسرے کی خواتین پر غلط نگاہ ڈالی، تعلیمی اداروں کو برائی کا گڑھ بنایا، ماہِ رمضان سے پہلے ہی سبزیاں اور پھل سٹاک کر لیے اور ماہ رمضان کی آمد پر سٹاک کیے گئے ان پھلوں اور سبزیوں میں اپنا خراب مال شامل کر کے انہیں چار گنا زیادہ قیمت پر فروخت کیا، تم سب کے اوزان اور پیمانے کم تولنے اور کم ماپنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، تمہارے پیٹرول پمپ ناقص پیٹرول اور کم پیمانوں کیلئے مشہور ہو چکے ہیں، بتائو کیا خدا ایسے لوگوں کی دعائیں قبول کرے؟ ایسے لوگوں سے آزمائش کو دور کرے جنہوں نے ابھی تک اپنے آپ کو بدلنے کا ارادہ بھی نہیں کیا؟ تم نے تو زائد المیعاد ادویات اور بچوں‘ بوڑھوں کے کھانے کی اشیا پر نئی تاریخیں لکھ کر اپنے آپ کو خود اس کے غضب کا حقدار بنایا ہے۔ گھی، مرچ، مسالوں، چائے کی پتی سمیت ہر کھانے والی چیز میں ملاوٹ کر نے والوں، پائوڈر ملا کر دودھ بیچنے والوں پر کوئی نظرِ کرم نہیں کی جائے گی اور روزِ قیامت زقوم کے درخت اور کھولتے ہوئے پانی سے ان کی ضیافت کی جائے گی اور جو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ان کا مقدر بنا رہے گا۔
اس کے بعد اس آواز نے درمیان میں بیٹھے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: جو گھٹیا مال کو اول درجے کا ظاہر کرتے ہیں‘ جو دس روپے کی چیز پچاس روپے میں بیچتے ہیں، یہ نچلے اور درمیانے درجے کے ہسپتالوں کے ملازمین‘ جو مریضوں اور ان کے لواحقین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں‘ کیا ان کی دعائوں کو قبول کیا جائے؟ کیا ان پر رحمت کی بارش نازل کی جائے؟ ان کے پیچھے بیٹھے ہوئے وہ سرکاری اہلکار جو عوام کو ستاتے ہیں، جو غریبوں جا جینا دوبھر کر دیتے ہیں، جو رشوت اور کمیشن کے بنا کوئی کام نہیں ہونے دیتے اور جو پیسے بٹورنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے بناتے ہیں، یہ عمارتوں میں نا قص میٹریل استعمال کرنے والے ٹھیکیدار، بس کمپنیوں کے مالکان، محکمہ مال کے پٹواری، تحصیل دار، رشوت لینے والے افسران، اعلیٰ عہدیدارن جنہوں نے خدا کے احکامات کا ہمیشہ مذاق اڑایا‘ اس کی مخلوق کو ہر وقت تنگ کیا، قاتلوں کو بے گناہ اور بے گناہ کو قاتل بنا دیا، جنہوں نے بدمعاشوں اور قبضہ گروپوں کی پشت پناہی کی، جنہوں نے معصوم بچوں‘ بچیوں کی عزت تار تار کرنے والوں کو پروٹوکول دیے‘ ان جیسوں کی دعائیں قبول ہونے سے بہتر یہ نہیں کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور روزِ جزا ان سب سے سخت اور کڑا حساب لیا جائے۔
اس کے بعد بائیں جانب بیٹھے مہنگی گاڑیوں، ہیلی کاپٹرز اور جہازوں میں گھومنے والے سیاستدانوں، بڑے بڑے تاجروں، صنعتکاروں اور جاگیرداروں کو کہا گیا کہ تم نے کبھی کوئی دعا نہیں مانگی، تم تو صرف اپنا مال مہنگا کرنے اور امپورٹ‘ ایکسپورٹ کے کوٹے اور ڈیوٹیوں میں کمی اور رعایات لینے کے بعد اپنے اور اپتے بچوں کیلئے اقتدار کی کرسی کے متمنی رہے۔ تم نے دنیا کے لالچ میں آخرت کو فراموش کر دیا، تم دنیا میں ہی اس قدر مگن رہے کہ بھول گئے کہ ایک دن تمہیں بھی خدا کی عدالت میں حاضر ہونا پڑے گا۔ تمہارا مقدر بھی خدا کا غضب اور اس کا جلال ہے۔ اس بارعب آواز کی گرج میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا جبکہ ماحول کی گھٹن بڑھتی جا رہی تھی۔ میں جو ان سب کی آواز بن کر خالقِ دو جہاں سے دعا و فریاد کر رہا تھا‘ اب اپنے اور اپنی قوم کے گناہوں پر شرمندہ ایک طرف کھڑا تھا۔ اس سارے منظر کو دیکھ کر میں سجدے میں گر گیا اور اللہ رب العزت کو اس کی رحمانیت اور رحیمی کا واسطہ دے کر رحم کی دعائیں کرنے لگا اور اسی اثنا میں میری آنکھ کھل گئی۔
اگرچہ میں بیدار ہو چکا تھا مگر اس خواب کا ایک ایک منظر جیسے میری آنکھوں میں اب بھی تازہ تھا۔ اسی دوران ٹی وی پر قرآنِ پاک کی سورۃ الجاثیہ کی آیات مبارکہ 28 اور 29 کی تلاوت بلند ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ''(اے نبی!) اس وقت آپ ہر گروہ کو گھٹنوں کے بل گرا ہوا دیکھیں گے، ہر گروہ کو پکارا جائے گا کہ وہ آئے اور اپنا نامہ اعمال دیکھ لے۔ ان سے کہا جائے گا: آج تم لوگوں کو ان اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو تم دنیا میں کرتے رہے تھے، یہ ہمارا تیار کرایا ہوا (تم لوگوں کا) نامہ اعمال ہے جو تمہارے اوپر ٹھیک ٹھیک شہادت دے رہا ہے، جو کچھ بھی تم (دنیا میں )کرتے جا رہے تھے‘ ہم اسے لکھواتے جا رہے تھے‘‘ ۔