تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     04-05-2021

برادر بزرگ کا تھیسس

امریکی ریاست کے چھوٹے سے شہر پیریز برگ کا موسم آج کل پوٹھوہار جیسا ہے یعنی بے اعتبارا ! پوٹھوہار کے موسم کے بارے میں جو کہاوت ہے کہ ''موسم دا اعتبار نئیں‘‘ تو یہاں آج کل موسم بالکل ہی بے اعتبار ہے۔ کبھی گرم اور کبھی ٹھنڈا۔ گزرے کل زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت انیس اور کم سے کم صفر درجہ سنٹی گریڈ تھا۔ آج کم سے کم ایک اور زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت اکیس ڈگری سنٹی گریڈ ہے اور آنے والا دن ایک دم سے گرم ہے کم سے کم درجہ حرارت سولہ اور زیادہ سے زیادہ ستائیس ڈگری سنٹی گریڈ ہوگا۔ یہی حال آگے کا ہے۔ کل دوپہر جیکٹ پہنی ہوئی تھی آج ٹی شرٹ میں گھومتا رہا ہوں۔ پیریز برگ کا موسم بھی پاکستان کی سیاست کی مانند لمحہ بہ لمحہ بدلتا رہتا ہے۔
اٹلانٹا سے برادرِ بزرگ کا فون آیا‘ پوچھنے لگے یہ کراچی میں کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا یہ سوال تو آپ سے بنتا ہے۔ پوچھنے لگے وہ کیسے؟ میں نے کہا: مجھے تو کراچی گئے قریب ڈیڑھ سال ہو گیا ہے آپ تو ابھی اسی ماہ کے شروع میں کراچی تین ہفتے گزار کر واپس امریکہ آئے ہیں۔ آپ کے پاس میری نسبت زیادہ تازہ اور مستند خبریں ہوں گی۔ آگے سے ہنس کر کہنے لگے: میں امریکہ سے کراچی بچوں کے ساتھ اچھا وقت گزارنے گیا تھا نہ کہ سیاسی دھما چوکڑی میں ضائع کرنے کیلئے۔ پھر پوچھنے لگے: اچھا چلو یہ بتاؤ کہ یہ شکست‘ میرا مطلب ہے پی ٹی آئی کی یہ شکست چھوٹے منظر نامے کا حصہ ہے یا وسیع منظر نامے کا؟ میں نے کہا: نہ یہ چھوٹے منظر نامے کا حصہ ہے اور نہ بڑے منظر نامے کا۔ یہ حقائق کے منظر نامے کا حصہ ہے۔ پونے تین سال کسی کی کارکردگی کا اندازہ لگانے کیلئے کم وقت نہیں ہوتا۔ خان صاحب کو اب تک یہ پتا نہیں چل سکا کہ اب ان کے کرپشن کے خلاف بیچے جانے والے چورن کی عوامی ڈیمانڈ ختم ہو چکی ہے۔ نہ صرف ڈیمانڈبلکہ اس چورن پر تو اب عوام کا اعتبار بھی اُٹھ چکا ہے‘ عوام کے مسائل اور ہیں۔ حقیقی مسائل کے حل کے بجائے خان صاحب وہی راگ الاپ رہے ہیں کہ کرپشن ختم کر دوں گا‘ این آر او نہیں دوں گا‘ کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ اب بندہ پوچھے کون ہے جو پکڑا گیا اور چھوٹ نہیں گیا؟ بارہ ارب روزانہ والی کرپشن اگر ختم ہو گئی ہے تووہ بارہ ارب روپے روزانہ کے حساب سے بچنے والے پیسے کہاں ہیں اگر نہیں بچے تو پھر وہ ساری کہانی ہی غلط تھی۔ اگر درست تھی اور پکڑے بھی نہیں گئے تو پھر خان صاحب کرپشن پر قابو پانے اور اسے پکڑنے کے اہل ہی نہیں۔ برادرِ بزرگ پوچھنے لگے ‘یہ کتنی رقم بنتی ہے؟ میں نے کہا: فون بند کریں۔ حساب کر کے بتاتاہوں۔ یہ کوئی اتنا آسان کام تھوڑا ہے کہ بارہ کا پہاڑہ لگا کر آپ کو فٹ سے جواب دے دوں۔ دو چار منٹ بعد فون کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر میں نے فون بند کیا اور خان صاحب کی حکومت کے دن نکال کر انہیں بارہ ارب روپے سے ضرب دی تو ہوش اڑ گئے۔
برادرِ بزرگ کوفون کیا اور بتایا کہ یہ آج کے دن تک یعنی 30اپریل 2021ء تک مبلغ گیارہ ہزار آٹھ سو بیانوے ارب روپے بنتے ہیں۔ برادرِ بزرگ نے چسکے لیتے ہوئے پوچھا کتنے دن بنے تھے۔ میں نے کہا: نوسواکیانوے دن۔ برادر بزرگ اب مکمل شرارت کے موڈ میں تھے‘ پوچھنے لگے: حساب کب سے لگایا ہے؟ میں نے کہا :عمران خان صاحب نے تیرہ اگست 2018ء کو وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تھا‘ اُسی دن سے حساب لگایا ہے۔ پھر پوچھنے لگے :2020ء کے کتنے دن لگائے تھے؟میں بھی ہنس پڑا اور انہیں کہا کہ مجھے پتا تھا کہ آپ ضرور ''لْچ تلیں‘‘ گے لہٰذا میں نے پورا حساب لگایا تھا اور 2020ء کے 366 دن گنے ہیں۔ ویسے بھی اب کیلکولیٹرپر حساب کرنا کافی آسان ہو گیا ہے وگرنہ آپ کو تو بخوبی علم ہے کہ یہ عاجز حساب کتاب میں کتنا گھامڑ ہے؟ برادرِ بزرگ ہنسے اور کہنے لگے: کراچی میں پی ٹی آئی پہلے دوسرے نمبر پر نہیں آئی ‘ پانچویں نمبر پر آئی ہے۔ اس کا سبب کیا ہے؟ ایک دم سے پانچواں نمبر؟ کہاں شہبازشریف کو اس حلقے سے شکست دی اور کہاں قادر خان مندو خیل سے شکست فاش۔ تقریباً آدھے ووٹ لئے ہیں جیتنے والے امیدوار سے۔ یہ شکست گزشتہ الیکشن میں اس حلقے سے جیتنے والے امیدوار کے خلاف حلقے کا عدم اعتماد تھا یا مجموعی کارکردگی اس شکست کی وجہ بنی ہے؟میں کہا: برادرِ بزرگ آپ کو میری بات یاد ہے؟ کہنے لگے کون سی ؟ میں نے کہا: میں نے آپ کو کہا تھا کہ کراچی کے اس حلقے میں پی ٹی آئی کو بہت بُری شکست ہوگی اوراس کی دو طرفہ وجوہات ہیں۔ فیصل واوڈا کی بُری کارکردگی اور حلقے میں جیتنے کے بعد مسلسل غیر حاضری ‘ لوگوں کے مسائل حل کرنا تو ایک طرف انہیں ملنے تک کیلئے دستیاب نہ تھے‘ او پر سے کراچی کی جانب سے اتنا بڑا مینڈیٹ ملنے کے باوجود پی ٹی آئی کی حکومت کی کراچی کے مسائل سے لاتعلقی اور لاپروائی۔ ہوائی قسم کے پیکیجز کا اعلان اور عملی طورپر کراچی کی ترقی اور عوامی مسائل کے حل میں مکمل ناکامی۔ بھلا کراچی والے یہ رد عمل نہ دکھاتے تو کیا کرتے؟ اوپر سے حکومت کی مجموعی کارکردگی اتنی خراب ہے کہ رہے نام اللہ کا۔ لوگ کس لئے ووٹ دیتے؟ کیا کرپشن کے خلاف وہی گھسی پٹی تقریر پر‘ جس کا کوئی عملی نتیجہ آج تک کسی کے سامنے نہیں آیا۔ رشوت کے ریٹ بڑھ چکے ہیں‘ کوئی کام بغیر پیسے کے نہیں ہو رہا‘ آٹا‘ چینی ‘ گھی ‘ دالیں اور عام استعمال کی ہر چیز کا ریٹ آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ سارے مافیا گاڈ فادر حکومت کی بغل میں ہیں۔غیر منتخب مشیر اور معاون conflict of interest کے زمرے میں آتے ہیں۔ عوام کو ملنے والے کسی ایک فائدے ‘ آسانی اور سہولت کا بتائیں؟ لیکن خیر آپ کو کیا‘آپ تو ادھر امریکہ میں مزے میں ہیں‘ آپ کو ہمارے مسائل کا کیاپتا؟ برادرِ بزرگ ہنسنے لگ گئے اور کہنے لگے :میرا خیال ہے اب یہ ٹاپک تبدیل کردیا جائے۔ لیکن اس سلسلے میں آخری سوال یہ ہے کہ کیا کراچی کے الیکشن کا نتیجہ آنے والی فلم کا ٹریلر ہے یا دیا جانے والا جھٹکاہے؟ میں نے کہا: اسے کم از کم کراچی کی حد تک تو فلم کا ٹریلر ہی سمجھیں۔برادرِ بزرگ کہنے لگے: اچھا ایک بات بتاؤ ۔میں نے کہا پوچھ لیں‘لیکن مجھے پتا ہے کہ آپ محض چسکے کیلئے یہ سب کچھ پوچھتے ہیں ‘پتا آپ کو سارا ہوتا ہے۔ کہنے لگے: پہلے پاکستان میں رواج ہوتا تھا کہ جب بیورو کریٹ ریٹائرڈ ہوجاتے تھے وہ اپنی ساری عمر کی کرپشن ‘ بے ایمانی اور لوٹ مار کو‘ اگلے جہاں اپنی ساری بلیک منی کو وائٹ منی میں تبدیل کروانے کی غرض سے مذہبی بن جاتے تھے؛تاہم اپنی کرپشن کی آمدن سے بنائی ہوئی جائیداد کو آخر دم تک سینے سے لگائے رکھا۔ آج کل یہ لوگ زیادہ پریکٹیکل ہوگئے ہیں اور فکرِ آخرت کے ساتھ ساتھ بعد از ریٹائرمنٹ فکرِ دنیا کرتے ہوئے خود کو آخری دنوں میں مجاہد ‘ بہادر اور حق گو کے طورپر پیش کرنے لگ گئے ہیں تاکہ بعد از ریٹائرمنٹ اگر ان پر کوئی انگلی اٹھائے یا پوچھ تاچھ کرنے کی کوشش کرے تو وہ اسے اپنی حق گوئی پر انتقام کا نشانہ بنانے کا پاکھنڈ کہہ سکیں۔جب تک کیریئر نظر آتا ہے سب وہی کرتے ہیں جو روم میں رومن کرتے ہیں لیکن جیسے ہی کیریئر کا اختتام ہونے لگتا ہے اور عہدہ ہاتھ سے جاتا ہوا نظر آتا ہے انہیں حق گوئی ‘ سچائی ‘دلیری اور بہادری کا اچانک ہی خیال آجاتا ہے۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ میں نے کہا :برادرِ بزرگ مجھے آپ کی بات کی پوری سمجھ نہیں آئی زرا کھل کر تفصیل بتائیں۔ برادرِ بزرگ زور سے ہنسے اور کہنے لگے: ساری باتیں فون پر کرلیں گے تو یہاں کارلٹن میں گپیں کیا ماریں گے؟ کل تم نے یہاں آنا ہے باقی باتیں آنے پر‘ تب تک تم میرے اس تھیسس پر غور کرو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved