قارئین پوچھتے ہیں کہ کیا وزیراعظم اسمبلیاں توڑ دیں گے؟ اس سوال کا یک سطری جواب تو یہ ہے کہ جو عمران خان اپنے پرائے کا لحاظ کیے بغیر دل توڑ سکتے ہیں وہ اسمبلیاں بھی توڑ سکتے ہیں۔ مگر ٹھہریئے اس سوال کا ایک تفصیلی جواب بھی ہے جو ہم آگے چل کر دیں گے۔ سردست اس حوالے سے کچھ اہم باتوں کا تذکرہ ضروری ہے۔
چند روز قبل جناب ِوزیراعظم نے ایک محدود سے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اپنی اڑھائی سالہ کارکردگی پر فخر ہے۔ داخلیت پسندی کے اپنے مزے نرالے ہیں۔ اس کیفیت سے سرشار کپتان اور ٹیم خواب و خیال کی دنیا میں رہتے ہیں۔ وہ اپنی دنیا سے باہر جھانک کر دیکھنے کی زحمت کم ہی کرتے ہیں۔ جناب عمران خان قابل فخر کارکردگی کی بات راجہ بازار راولپنڈی یا پرانی انارکلی لاہور یا پھر چوک گھنٹہ گھر فیصل آباد میں کھڑے ہوکر کرتے تو پھر انہیں معلوم ہو تا کہ کارکردگی کتنی قابلِ فخر ہے۔ کارکردگی کے بارے میں ہمیشہ حاکم نہیں محکوم بتاتا ہے۔ بادشاہ نہیں رعایا بتاتی ہے اور آج کی اصطلاح میں منتخب حکومت نہی شہری بتاتے ہیں۔ کیا جنابِ وزیراعظم کو ناقابل برداشت مہنگائی پر فخر ہے‘ کیا انہیں حد سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری پر فخر ہے‘ کیا انہیں منفی گروتھ ریٹ پر فخر ہے‘ کیا انہیں ایک کروڑ نوکریاں نہ دینے اور پچاس لاکھ گھر چھت سے محروم لوگوں کو نہ دینے پر فخر ہے‘ کیا انہیں گلیوں محلوں میں دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے اڑھائی کروڑ بچوں کو سکولوں میں نہ لانے پر فخر ہے۔
جناب عمران خان اپنی انتخابی مہم کے دوران اس طمطراق سے اُن باتوں کو ہائی لائٹ کرتے تھے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ہر صاحبِ احساس پاکستانی کے دل میں موجزن تھیں۔ اسی لیے تو شدتِ احساس سے جلنے والے طبقے نے لپک کر اُن کی طرف رُخ کیا۔ جناب عمران خان نے کہا تھا کہ آپ کو انصاف گھر کی دہلیز پر ملے گا۔ پولیس میں شاندار اصلاحات ہوں گی۔ امیروغریب کیلئے یکساں تعلیم ہوگی ‘ مگر وائے افسوس! کہ وزیراعظم بن کر حاکم وقت اپنے وعدے بھول گئے ہیں۔ یہ حکومت ہرروز اپنے لیے اور قوم کیلئے ایک نیا مسئلہ کھڑا کر لیتی ہے۔ جلدبازی میں ایک ریفرنس تیار کروا کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیا گیا تھا جو سپریم کورٹ میں مختلف مراحل سے گزرتا رہا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرثانی اپیل کے فیصلے کے مطابق جج صاحب کی اہلیہ کے خلاف کیس ختم ہوگیا ہے۔ یوں قاضی فیملی کے حصے میں سرخروئی اور حکومت کے حصے میں پشیمانی آئی ہے۔ ابھی اس فیصلے کی بازگشت سنائی دے رہی تھی کہ حکومت کیلئے سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے جناب وزیراعظم نے براہِ راست اجمالاً اور پھر اُن کی احتسابی ٹیم کے شہزاد اکبر اور وزیر قانون فروغ نسیم جیسے ارکان نے انہیں قاضی فائز عیسیٰ اور شریف فیملی کے خلاف مقدمات قائم کرنے کے بارے میں تفصیلاً بریفنگ دی جس کے جواب میں بشیر میمن نے معذرت کی اور کہا کہ ججز کا معاملہ ہمارے دائرہ کار سے خارج ہے۔ ججز کے سلسلے میں سپریم جوڈیشل کونسل کے علاوہ اور کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ بشیر میمن نے بتایا کہ انہوں نے وزیراعظم کے کہنے پر شہباز شریف کو گرفتار نہیں کیا۔ اُن کی گرفتاری کے بعد ایک دن وزیراعظم نے انہیں کہا کہ آپ نے کچھ نہیں کیا البتہ میں نے ایک کال نیب کو کی اور شہباز شریف گرفتار ہوگئے؛ تاہم دوتین روز قبل جناب وزیراعظم نے صحافیوں سے ملاقات کرتے ہوئے بشیر میمن کی طرف سے لگائے گئے سارے سنگین الزامات کی تردید کی اور کہا کہ ان میں کوئی صداقت نہیں۔ جناب وزیراعظم مختارِ کل نہ سہی مگر ملک کے منتظم اعلیٰ تو ہیں۔ انہیں محض تردید پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ عدالتی انکوائری کیلئے ایک جوڈیشل کمیشن بنانا چاہئے۔ اس کمیشن کی تحقیق سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے گا۔
وزیراعظم کی قابلِ فخر کارکردگی کو ضمنی انتخابات کے آئینے میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ نوشہرہ‘ ڈسکہ اور اب کراچی۔ کراچی میں پیپلز پارٹی جیتے یا مسلم لیگ (ن) یہ کوئی بڑی خبر نہیں۔ بڑی خبر تو یہ ہے کہ وہاں پی ٹی آئی اس برے طریقے سے ہاری ہے کہ ہارنے والوں میں بھی اس کا چوتھا نمبر ہے۔ یہ بھی تحریک انصاف کیلئے ایک بہت بڑا لمحۂ فکریہ ہے۔ جہانگیر ترین کا معاملہ بھی حکومت کیلئے خاصا تشویشناک ہے۔ ترین صاحب کے بقول اُن سے انصاف کا نہیں ناانصافی کا معاملہ ہو رہا ہے۔ اُن کے 40 کے قریب حامی وزیراعظم سے ملے۔ اس ملاقات کے بعد ترین صاحب کے حامی بہت مطمئن دکھائی دیے جبکہ حکومت کے سیاسی مخالفین نے ترین صاحب کو این آراو لینے کی پھبتی کسی ہے؛ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ وزیراعظم کا جھکائو کس طرف ہے۔
جنابِ عمران خان کی قابل فخر کارکردگی کا طائرانہ جائزہ لیتے ہوئے اب ذرا آ جائیے امورِ خارجہ کی طرف۔ یورپی یونین نے پاکستان کے خلاف قرارداد پاس کر لی ہے جس میں پاکستان کے خلاف تجارتی پابندیوں کی سفارش کی ہے۔ اس سیشن میں یورپ کے 50 ممالک نے حصہ لیا اور پاکستان پر پابندیاں لگانے کے حق میں 662 ووٹ پڑے اور مخالفت میں صرف تین ووٹ آئے۔ یورپی یونین میں پاکستان مخالف اس کارروائی کو بڑی حد تک روکا جا سکتا تھا مگر حکومت پاکستان نے اس معاملے میں پروایکٹو خارجہ پرفارمنس سے کام لیا اور نہ ہی ملک کے اندر پرتشدد احتجاجی کارروائیاں روکنے کیلئے کوئی حکیمانہ پالیسی اختیار کی۔ 2017ء میں اسی طرح کے فیض آباد دھرنوں کے موقع پر آج کے حکمرانوں نے قومی کے بجائے سیاسی مفادات کو ترجیح دی تھی۔ اگر معاملات پارلیمنٹ میں لائے جاتے اور حرمتِ رسولﷺ جیسے معاملے کو او آئی سی کے فورم پر لایا جاتا تو اُمہ اسلامیہ کی طرف سے ایک انتہائی بھرپور اور توانا احتجاج دنیا کے سامنے آتا۔
اب آ جائیے کالم کی ابتدا میں پیش کیے جانے والے سوال کی طرف۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے جناب وزیراعظم کی طرف سے ایک چونکا دینے والا بیان دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وزیراعظم کو اپنے منشور پر عملدرآمد کا فری ہینڈ نہ دیا گیا تو وہ اسمبلیاں توڑ دیں گے۔ ایسی صورتحال میں عمران خان فریش مینڈیٹ لینے کیلئے عوام سے رجوع کریں گے اور انہیں اپنے دور میں آنے والی رکاوٹوں کے بارے میں بتائیں گے۔ اس بیان کی ایک ایک سطر میں فوق السطور اور بین السطور پڑھنے اور سمجھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ کل تک تو وہ کہتے تھے کہ میں ایک بااختیار وزیراعظم ہوں۔ اور وہ مقتدرہ کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کا تقریباً ہر روز تذکرہ کیا کرتے تھے۔ اسے خان صاحب کی خوش قسمتی کہنا چاہئے کہ اپوزیشن اپنے داخلی انتشار کا شکار ہے۔ سینیٹ میں تو انہوں نے آدھی اپوزیشن کو اپنے شیشے میں اتار لیا ہے۔ آخر خان صاحب کس طرف اشارہ کر کے کہہ رہے ہیں کہ انہیں اپنے منشور پر عملدرآمد کا فری ہینڈ دیا جائے۔ لوگ کہتے تھے کہ جناب عمران خان بالآخر اپنی ''قابلِ فخر کارکردگی‘‘ کی ذمہ داری کس کے کاندھوں پر ڈالیں گے؟ لیجئے خان صاحب نے ابھی سے کچھ نادیدہ رکاوٹوں کو اس ناقص کارکردگی کا ذمہ دار ٹھہرا دیا ہے۔
اس وقت ملک کا اہم ترین مسئلہ کورونا ہے۔ کورونا کے بارے میں وزیراعظم کی کوئی حکومتی پالیسی ہے نہ ہی قومی۔ یہ درد خان صاحب کے دور میں پاکستانیوں کو ملا۔ اس کی دوا بھی خان صاحب کے ہی ذمے ہے۔ ہمارے خیال میں نوشتۂ دیوار تو یہی ہے کہ قبل از وقت انتخابات ہوں یا وقت مقررہ پر‘ پی ٹی آئی کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے دور دور تک کوئی امکانات دکھائی نہیں دیتے اسی لیے خان صاحب اقتدار سے الگ ہونا پسند نہیں کریں گے اور اسمبلیاں نہیں توڑیں گے۔