تحریر : امتیاز گل تاریخ اشاعت     04-05-2021

کشمیریوں کی مدد کیلئے حکمت عملی

مارچ 2018ء اور اپریل 2021ء کے درمیان تین اعلیٰ سطحی بریفنگز ایک غیر مبہم نتیجے پر منتج ہوئیں کہ پاکستان کی تمام تر توجہ سکیورٹی سے اقتصادیات کی طرف مبذول ہو رہی ہے ‘ اس سوچ کا مرکز چین کے ساتھ مل کر اقتصادی زونز کی مدد سے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور دوسری طرف مشرقی اور مغربی راہداری کی ترقی ہے۔ اس راہداری کا مقصد واہگہ کے راستے بذریعہ طورخم افغانستان اور سنٹرل ایشیا تک رسائی ہے۔ پاکستان قیادت کا یہ خیال ہے کہ شمال‘ جنوب راہداری یعنی کراچی سے پشاور اگرچہ ترقی یافتہ ہے لیکن موجودہ حالات میں یہ خطرات سے بھی خالی نہیں ہے۔ جب کبھی ہڑتال ہوتی ہے یا کوئی حادثہ ہوتا ہے توکراچی اور شمال مغربی علاقوں میں افراداور اشیا کی آمدورفت متاثر ہوجاتی ہے۔ آنے والے وقتوں میں ان چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے بڑا ضروری ہے کہ پاکستان کی شمال‘ جنوب اور مشرق‘ مغرب پر واقع ہائی ویز کو ترقی دی جائے۔ یہ بہرحال اسی وقت ممکن ہے جب بھارت کے ساتھ تعلقات کم از کم کاروبار کی حد تک مکمل نارمل نہیں تو مناسب ضرور ہوں۔
بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب تو ضرور ہوئے مگر 5اگست 2019ء کو جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی یعنی اپنی آئین کے آرٹیکل 370اور 35اے ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی یونین میں شامل کردیا تو اس کے نتیجے میں تعلقات انتہائی بگڑ گئے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو‘ اُن کے مسلم مخالف نظریات کے باعث ہٹلر کے خطاب سے بھی نوازا۔ اب ایسا معلوم ہورہا ہے کہ بھارت کشمیر کے حوالے سے بین الاقوامی دباؤ محسوس کر رہاہے ‘ شاید اسی سبب دہلی سے بیک چینل کے ذریعے مذاکراتی سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کے اشارے مل رہے ہیں۔اعلیٰ ترین قیادت کے مطابق بھارت شایدتیسرے فریق کی ثالثی پر بھی آمادہ ہوجائے۔ اب اس وقت سوال یہ ہے کہ پاکستان کے پاس کیا آپشن ہیں‘ کیونکہ آرٹیکل 370اور 35اے عملاً ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔کسی ایک ملک نے بھی ان آرٹیکلز کی منسوخی کے حوالے سے بات نہیں کی نہ ہی کسی نے کشمیر کے پرانی حیثیت کی بجالی کا مطالبہ کیا‘ حالانکہ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک متنازع علاقے پر اب باقاعدہ قبضہ کرلیا ہے۔پاکستان کے بظاہر دوست ممالک جیسا کہ انڈونیشیا اور ملائیشیا نے بھی خاموشی اختیارکر لی اور پاکستان کو اس معاملے میں اکیلا چھوڑدیا۔ کیا پاکستان بھارت کو کشمیر کی پرانے حیثیت بحال کرنے پر مجبور کر پائے گا؟ کیا اس مسئلے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا کوئی ممبر اس کے ساتھ کھڑا ہو گا؟کیا کوئی بڑی طاقت کشمیر کے حوالے سے پاکستانی مؤقف کی تائید میں سامنے آئے گی؟ اور کیا پاکستان کشمیر کے مسئلے کو پس پشت ڈال کر مشرق مغرب تجارتی راہداری کے ترقی کا خواب پورا کرسکتا ہے ؟اگر ان سوالوں کا جواب 'ناں‘ ہے تو اس سے پاکستان کو کیا حاصل ہوگا؟دنیا میں اگر پاکستان کا تاثر ایک ایسے ملک کی طرح ہے جو اپنے مشرقی اور مغربی ہمسایوں کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہے اور جہاں پر اب بھی سکیورٹی کے مسائل ہیں تو اس سے پاکستان کا کیا بھلا ہو سکتا ہے ؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے زبردست جغرافیائی محل وقوع کے باوجود اس سے فائدہ نہیں اٹھارہے ؟
برطانیہ ‘ امریکہ ‘ کینیڈا اور متعدد مسلم ممالک کا پاکستان کو کووڈ ریڈ لسٹ میں شامل کرنا ایک تازہ ترین مثال ہے جبکہ بھارت کے حوالے سے یہ فیصلے اب آنا شروع ہوئے ہیں جب وہاں روزانہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ کورونا میں مبتلا ہورہے ہیں۔ پاکستان کیلئے ایک اور باعثِ تشویش بات یہ ہے کہ بھارت کی امریکہ کے زیرقیادت نیٹو کے علاوہ سعودی عرب ‘ متحدہ عرب امارات ‘ قطر اور افغانستان کے ساتھ سیاسی اور معاشی قربت ہے۔ انہی تعلقات کے باعث بین الاقوامی منظر نامے میں پاکستان کے پاس آپشنز اس وقت محدود معلوم ہوتے ہیں۔دوسری طرف کیا بھارت کو اس اَمر کی کھلی اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ ہندوؤں کو مقبوضہ کشمیر میں لاکر آباد کرے اور کشمیر کی مکمل مسلمان آبادی پر اثرانداز ہو؟یا بہتر یہ ہے کہ کشمیریوں کی شناخت کے خلاف بھارتی ریاست کے اس منظم حملے کو روکنے کی کوئی تدبیر کی جائے ؟کیادوست ممالک کے ساتھ مل کر کشمیریوں کو ظالمانہ بھارتی فوجی محاصرے سے نکالنے اور ان کی زندگی آسان بنانے کیلئے بیرونی طاقتوں کے ساتھ لابنگ کرنا ضروری نہیں ہے ؟
کشمیر پر فوکس ضروری ہے لیکن اقتصادی طور پر کمزور پاکستان کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کے دفاع میں کس طرح مؤثر ثابت ہوسکتا ہے ؟یہاں تک کہ اعلیٰ تر ین سطح پر چین بھی کشمیر کیلئے بات کرنے سے پہلے اسلام آباد کو اقتصادی طور پر مستحکم ہونے کا مشورہ دے رہا ہے۔بھارت‘ جو ویسے بھی کشمیر پر قبضہ کئے ہوئے ہے‘ کو ڈیموگرافک انجینئرنگ کرکے اپنے اس قبضہ کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔ نئے ڈومیسائل قوانین کے تحت مقامی املاک پر قبضہ کرنے والے بیرونی لوگوں کے خوف کودور کیا گیا ہے اور یہ ویسے ہی ہے جیسے روس نے وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ کیا تھا۔بھارت میں کورونا وبا کی موجودہ تباہ کاریوں کے تناظر میں پاکستانی مدد کی پیشکش کیا دہلی میں دلوں کو نرم کرلے گی؟موجودہ حالات میں غور طلب بات یہ بھی ہے کہ پچھلے کچھ ہفتوں میں کورونا کی تباہ کاریوں سے پہلے نئی دہلی خود اسلام آباد سے رابطے شروع کرنے کا خواہاں تھا۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اپنی فوجی طاقت کی موجودگی کے باوجود بی جے پی قائدین کو اب احساس ہو گیا ہے کہ وہ کشمیر کے حوالے سے زمینی حقائق کو نظرانداز نہیں کرسکتے ؟
بھارت میں فیصلہ سازی کرنے والے لوگوں کو شاید سمجھ آگئی ہے کہ لداخ اور پاکستان میں بیک وقت فوجی محاذ کھولنا ان کے مفاد میں نہیں اور اب کورونا نے عوامی اور حکومتی سطح پر تناؤ بھی کم یا ختم کردیا ہے ‘ تو کیا اس تناو ٔکا خاتمہ بھارت کی مجبوری ہے ؟ اور اسی وجہ سے وہ بات چیت پر آمادہ نظر آرہا ہے چاہے یہ بات چیت عقبی دروازے ہی سے کیوں نہ ہو۔سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ بات چیت میں تیسرے فریق کے کردار کو قبول کرنے کیلئے بھارت کسی نہ کسی مرحلے پر راضی ہوسکتا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ بڑی لچک کی علامت ہوگی کیونکہ بھارت اس طرح کسی تیسرے فریق کی ثالثی کو کئی بار مسترد کرچکا ہے۔بھارت کا پاکستان کی طرف سے مدد کی قبولیت شاید ایک بڑی بریک تھرو ثابت ہوجائے۔ دونوں ممالک کو تمام تر متنازع موضوعات پر بات چیت کرنے کا موقع ملنے میں مدد مل سکتی ہے ‘ خاص طور پر کشمیریوں کے حوالے سے‘ جو بھارت کے زیر تسلط کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
موجودہ بین الاقوامی تناظر پاکستان سے ایک غیر معمولی سفارتی دانشمندی کا متقاضی ہے۔ ماضی کے تمام قریبی دوست ممالک کا جھکاؤ اس وقت بھارت کی طرف ہے ‘ بھارت اس خطے میں امریکہ کا معتمدِ خاص ہے اور اگر اس کی طرف سے کوئی مثبت اشارہ مل رہا ہے تو اس پر جذبات اور تلخ ماضی کو پس پشت ڈال کر کھلے دل کے ساتھ ضرور غور کرنا چاہئے ‘ خاص طور پر اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے کہ امریکہ نے چین کے خلاف سرد جنگ کا جو سلسلہ شروع کیا ہے بھارت اس سلسلے کی اہم ترین کڑی ہے۔ پاکستانی قیادت کیلئے یہ بلاشبہ بہت بڑا چیلنج ہے کہ کس طرح امریکہ اور اس کے عرب اتحادیوں کو ناراض کئے بعیرایک طرف چین کے ساتھ تعلقات بحال رکھے اور دوسری طرف اپنی تعلقات کو کشمیری مسلمانوں کے خلاف جاری اقدامات روکنے کیلئے استعمال کرے۔ کشمیر پر اصولی مؤقف کے باوجود پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد نہیں کراسکا جبکہ نئے سیاسی جغرافیائی حالات کے پیش نظر یہ کام مزید مشکل ہو چکا ہے۔ کشمیریوں کی مدد کیلئے حکمت عملی تبدیل کرنے کا وقت غالباًآچکا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved