تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     04-05-2021

یہ ایسے ہی چلتا رہے گا

ایک کے بعد ایک ہوشربا انکشافات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ قانون سے بالا بالا کس قانون کی بالادستی قائم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ ملک میں احتساب کا نام پہلے کیا کم بدنام ہے جو اِس کی رہی سہی ساکھ سے کھلواڑ جاری ہے۔ اب تو جب یہ بیانات سننے کو ملتے ہیں کہ قانون کی بالادستی کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا، کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی، قانون کی نظر میں سب برابر ہیں تو چڑ سی ہونے لگتی ہے۔ کوئی بھی قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے میں سنجیدہ نظر نہیں آ رہا۔ معلوم پڑتا ہے کہ یہ سب مفادات کا کھیل ہے کہ کسی بھی قیمت پر پیسہ کمانا ہی ہماری زندگیوں کا مقصد بن کر رہ گیا ہے۔ آج کل چینی سکینڈل کے حوالے سے ایک صاحب گرم پانیوں میں ہیں۔ 2018ء کا اِن کا ایک ٹویٹ کہیں یادداشتوں میں کلبلا رہا ہے۔ تب کی حکومت کی طرف سے ایمنسٹی سکیم لائے جانے پر اِن صاحب نے ٹویٹ کیا تھاکہ اِس ایمنسٹی سکیم کا مقصد کالے دھن کو سفید کرنے والوں کو سہولت فراہم کرنا ہے، ہم اقتدار میں آکر یہ سب کچھ ریورس کردیں گے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ایک طرف ٹویٹ در ٹویٹ کا سلسلہ جاری تھا اور دوسری طرف بیرونِ ملک واقع جائیدادیں معمولی رقم دے کر قانونی کرانے کا عمل زوروشور سے جاری تھا۔ آج کل موصوف گرفت میں آئے ہیں تو اپنے تمام سیاسی پتے بھرپور انداز میں کھیل رہے ہیں۔ دوسروں کے کندھوں پر قائم حکومت بھلا کب تک مزاحمت کرسکتی ہے ، اِس کا اندازہ تواِسی وقت ہوگیا تھا جب ان کیسز کی تحقیقات نیب کے بجائے ایف آئی اے کے سپرد کی گئی تھیں۔ دوسرا اندازہ ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کو ہٹائے جانے سے ہوگیا۔ ان صاحب کے تیس سے زائد حامی پارلیمنٹیرینز نے حکومتی زعما سے ملاقات کی اور تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کو تبدیل کر دیا گیا، باقی اندازہ آپ خود لگا لیجئے؛ البتہ اِس صورت حال کا تھوڑا سا پس منظر جان لیجئے۔
2020ء میں ملک میں چینی کی قیمتوں کو اچانک پَر لگ گئے اور پورے ملک میں واویلا ہونے لگا۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کے لیے گزشتہ سال اِنہی دنوں میں ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیا کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن تشکیل دیا گیا۔ کمیشن نے فرانزک آڈٹ کے لیے نو ملوں کو منتخب کیا، تقریباً دوماہ کی تحقیقات کے بعد رپورٹ مکمل کرکے وزیراعظم کو پیش کی گئی جسے بعد میں پبلک کردیا گیا۔ صورتِ حال کی سنگینی کے پیشِ نظر مزید تفتیش کے لیے ٹی اوآرز ایف آئی کو بھیجے گئے جن پر ڈاکٹر رضوان کی سربراہی میں ایف آئی اے کی ایک خصوصی ٹیم نے مزید تفتیش کی۔ اِنہی تحقیقات کے نتیجے میں چینی کی مارکیٹ کے دوبڑے شیئر ہولڈرز کے خاندانوں پر اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے مقدمات درج کیے گئے۔ اِسی طرح چینی کے حوالے سے ہونے والی سٹہ بازی پر بھی 10کے قریب ایف آئی آر درج کی گئیں۔ اب بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف قانون کی بالادستی کی باتیں ہورہی ہوتی ہیں تو دوسری طرف کیا کِیا جا رہا ہوتا ہے۔ یہ باتیں بھی سننے میں آرہی ہیں کہ ہٹائے جانے والے تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ نے کچھ بڑے ناموں کی گرفتاری کی اجازت مانگی تھی لیکن حکومت شاید معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہیں لے جانا چاہتی تھی ، سو اُس نے ٹیم کے سربراہ کو تبدیل کردیا۔ یہ بات بھی زیر گردش ہے کہ ہٹائے جانے والے سربراہ نے ایک اور وفاقی وزیر سے تحقیقات کی اجازت بھی طلب کی تھی‘ لیکن فی الحال شاید دوسرا کوئی محاذ کھولنا مقصود نہیں تھا لہٰذاتمام تانا بانا ایک ہی شخص کے گرد بُنا گیا۔ اب دیکھیے کہ مشکل وقت آیا ہے تو وہ پورے جوش اور جذبے کے ساتھ اپنے ترپ کے پتے استعمال کررہے ہیں۔ غالب گمان ہے کہ یہ گرد جلد ہی بیٹھ جائے گی کیونکہ جو بھی گلے شکوے ہیں‘ وہ جلد دور ہوجائیں گے۔
ہمیشہ سے یہی چلتا آیا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا۔ احتساب کے نام پر روزِ اول سے یہی سب کچھ تو دیکھتے آئے ہیں۔ پروڈا اور ایبڈو سے شروع ہونے والا احتساب کئی دہائیوں کے سفر کے بعد آج اس مقام تک پہنچا ہے لیکن طریقہ کار وہی ہے جو گزرے وقتوں میں ہوا کرتا تھا۔ بے شمار یادداشتوں میں محفوظ ہوگا جب صدر ایوب اور صدر یحییٰ کے کے بعد حکومت سویلین لیڈر شپ کے ہاتھوں میں آئی تھی مگر احتساب کے نام پر کیا کچھ نہیں کیا گیا؟ جمہور کا دور شروع ہوتے ہی ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ ایسے افسران کو گھر کا راستہ دکھا دیا گیا جو کسی نہ کسی طورحکومتی زعما کی تنگی کا سبب بن رہے تھے۔ بالکل اُسی طرح جب اس سے پہلے ایک حکومت میں تین سو تیرہ افسران کو گھر کا راستہ دکھایا گیا تھا۔ اُن میں کچھ ایسے افسران بھی شامل تھے جنہوں نے کسی موقع پر قانون کی بالادستی یقینی بنانے کی کوشش کی تھی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ احتساب کی نذر ہوگئے ۔ بعد میں آنے والے صاحب نے ڈیڑھ ہزار کے قریب افسران کو بیک جنبشِ قلم اُن کے عہدوں سے سبکدوش کردیا۔ آج بھی ملک میں یہی سب کچھ ہو رہا ہے کہ جس کے ساتھ معاملات بگڑیں اُسے احتساب کی چکی میں پیسنا شروع کردو۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں جب ایک بریگیڈیئر صاحب نے خود کشی کرلی تھی اور اپنے پیچھے اعلیٰ عدلیہ کے نام ایک خط چھوڑا تھا۔ آج کل کا احتساب ایسے ہی ہے کہ کسی کو بھی کسی کیس میں ملوث کر دو، جب تک وہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں کامیاب ہو گا تب تک اُس کے تمام کس بل نکل چکے ہوں گے۔ کسی پر 15، 20کلوہیروئن ڈال دو اور برآمدگی کی وڈیو ہونے کے بلند بانگ دعوے کرو مگر جب ثبوت دینے کا وقت آئے تو پھر کہاں کی وڈیو اور کہاں کے دعوے، البتہ جو کیس میں ملوث ہوا ہو گا، وہ اپنی بے گناہی ثابت ہونے تک زندان میں سڑتا رہے گا۔
اب اگر یہ باتیں سامنے آرہی ہیں کہ سابق حکومت کے متعدد عہدیداروں پر باقاعدہ پلاننگ سے کیسز قائم کیے گئے تو بتائیے اِن کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے؟چور‘چور کی گردان نے کان پکا دیے لیکن کسی سے کچھ برآمد نہیں ہوا۔ جسٹس شوکت عزیز کی باتیں زیادہ پرانا قصہ نہیں اور نہ ہی مرحوم جج ارشد ملک کا اعتراف کوئی زمانہ قدیم کی بات ہے ۔ اِن دونوں صاحبان نے جو کچھ بیان کیا، اُس کی حکومتی سطح پربھرپورتردید کی گئی لیکن شاید ہی کسی نے اِس پر یقین کیا ہو۔ اب ایف آئی اے کے سابق ڈی جی بشیرمیمن نے نیاپنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ اُنہوں نے واضح طو ر پر کہا ہے کہ اُن سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف انکوائری کرنے کا تقاضا کیا گیا تھا۔ اُنہوں نے تو براہِ راست وزیر قانون اور وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب پر الزام لگایا ہے۔ بشیرمیمن کے بقول حکومت خواجہ آصف کے خلاف غداری کا کیس قائم کرنا چاہتی تھی۔ انکشافات تو اُنہوں نے اور بھی بہت سے کیے ہیں لیکن یہ چند باتیں ہی ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔ احتساب کو اپنے رخ چلانے کی کوشش کرنا ایسا معاملہ ہے جو قصور واروں کو بھی مظلوم بنا دیتا ہے کیونکہ کچھ معلوم نہیں ہو پاتا کہ کون قصور وار ہے اور کون بے قصور۔ حکومتوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں جن کی تکمیل ہی سب سے پہلا مقصد ٹھہرتا ہے۔ اِس مقصد کی تکمیل کے لیے قانون کے رکھوالے ہی قانون کے شکاری بن جاتے ہیں۔ یہ اِسی طرزِ عمل کا نتیجہ ہے کہ آج نچلی ترین سطح پر بھی قانون اور اخلاقیات کو درِ خور اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ گویا گزشتہ سات دہائیوں میں کچھ بھی نہیں، سب کچھ ایسے ہی چلتا آیا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved