تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     04-05-2021

یونہی نہیں مل جاتی کامیابی

کسی سے بھی پوچھ دیکھیے کہ کامیابی یقینی بنانے کے لیے کیا کرنا پڑتا ہے تو وہ آپ کو ایسے تمام اصول بتائے گا جو پوری دنیا میں، ہر معاشرے میں تسلیم شدہ ہیں۔ کامیابی کے اصول بیان کرنا کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ تو ٹیبل سٹوری والا معاملہ ہے۔ کوئی قلم تھام کر کاغذ کے ٹکڑے پر بہترین زندگی بسر کرنے کا نسخہ تحریر کرسکتا ہے۔ سوال اصول جاننے یا دوسروں کو بتانے کا نہیں‘ کرنے کا ہے۔ کامیابی کے تسلیم شدہ اصولوں کے بارے میں کم ہی لوگ اختلافِ رائے رکھتے ہیں مگر جب بات عمل کی آتی ہے تو ہونٹوں پر چُپ کی مہر لگ جاتی ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ بھرپور کامیابی کے لیے بھرپور محنت کرنا پڑتی ہے۔ کیا بھرپور کامیابی کیے لیے بھرپور محنت کافی ہے؟ سوال محنت یا بھرپور محنت کا نہیں بلکہ موزوں وقت اور مقام پر موزوں طریقے سے محنت کرنے کا ہے۔ ریس میں دوڑنے والا گھوڑا اگر 100 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ کر باقی تمام گھوڑوں سے آگے نکل جائے تو دوڑ جیت لیتا ہے لیکن اگر جنگل میں کوئی گھوڑا 200 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑے اور اُس کی مستند وڈیو بھی تیار کرلی جائے تو اُسے چیمپئن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیوں؟ سوال مقام اور وقت کی موزونیت کا ہے۔ اگر کوئی بہت طاقتور ہو اور کسی کو بھی پچھاڑ سکتا ہو تو اُسے اپنی طاقت منوانے کے لیے کشتی کا فارمیٹ قبول کرنا پڑے گا اور پھر حریفوں کو ہراتے ہراتے اکھاڑے میں فائنل لڑنا پڑے گا تب کہیں جاکر وہ کشتی کا چیمپئن کہلائے گا۔ اِسی بات کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ کوئی اپنے طور پر میڈیکل کی تعلیم حاصل کرے، جہان بھر کی کتابیں کھنگال ڈالے اور کسی نہ کسی طور سرجری بھی سیکھ لے اور مستند ڈاکٹرز سے بھی زیادہ قابلیت و مہارت کا حامل ٹھہرے تب بھی اُسے ڈاکٹر تسلیم کرکے باضابطہ پریکٹس کی اجازت اُس وقت دی جائے گی جب وہ طے شدہ طریق کار کے تحت طبّی تعلیم کے مستند اداروں میں معین نصاب کے مطابق تعلیم پاکر امتحان میں کامیابی حاصل کرے گا اور سند پائے گا۔
کیون کروز (Kevin Kruse) نے کامیابی کے موضوع پر ایک شاندار کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں بھرپور اور روح کو حقیقی مسرت سے سرشار کرنے والی کامیابی یقینی بنانے کے 15 بنیادی اصول صراحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ کتاب کا عنوان ہے ''15 سیکریٹس سکسیس فُل پیپل نو اباؤٹ ٹائم مینجمنٹ‘‘ یعنی وہ 15 اصول راز جو کامیاب افراد وقت کی بہترین تطبیق و تنظیم و تقسیم کے بارے میں جانتے ہیں۔ کیون کروز نے اس کتاب کی تیاری کے لیے سات ارب پتیوں، 13 اولمپینز، اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے 21 طلبہ اور 239 آجروں سے گفتگو کی اور جو کچھ اُنہوں نے بیان کیا اُس کا خلاصہ تیار کرکے اپنے قارئین کو کامیابی یقینی بنانے کے سنہرے اصول عملی دنیا کے بنیادی نکات کی روشنی میں بتائے۔ کامیابی کے بارے میں سب سے زیادہ اُنہی سے جانا جاسکتا ہے جنہوں نے بھرپور کامیابی یقینی بنائی ہو۔ کتابوں میں پائی جانے والی باتوں اور عملی زندگی میں پیش آنے والے واقعات و حقائق میں بہت فرق ہوتا ہے۔ کامیابی کے بارے میں وہی لوگ زیادہ جانتے ہیں جو خود کو عمل کی کسوٹی پر اچھی طرح پرکھتے ہیں۔ کیون کروز نے کم بیش 280 انٹرویوز کی روشنی میں جو کچھ بیان کیا ہے وہ نئی نسل کے لیے خاص طور پر اہم ہے کیونکہ بھرپور کامیابی اور بہتر زندگی کے لیے نئی نسل ہی کو تو بہت کچھ سیکھنا ہوتا ہے۔ آئیے! کتاب کی سیر شروع کرتے ہیں۔
کیون کیروز نے اِس نکتے پر زور دیا ہے کہ کامیاب افراد جزئیات پر بہت غور کرتے ہیں یعنی وہ کسی چھوٹی بات کو بھی نظر انداز نہیں کرتے۔ یہ سب کچھ وقت کا ضیاع روکنے کے لیے ہے۔ اُن کے نزدیک وقت ہی سب سے بڑی دولت ہے اِس لیے اِسے ضائع کرنے سے حتی الامکان گریز کرتے ہیں۔ ہر کامیاب انسان ترجیحات کے تعین کو اپنی اوّلین ترجیح قرار دیتا ہے۔ بیشتر سی ای اوز روزانہ صبح کے اوقات میں طے کرتے ہیں کہ اُنہیں اُس دن کرنا کیا ہے۔ یہ سب کچھ عمومی سطح پر ہوتا ہے۔ کامیاب افراد‘ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے اِس کی فہرست تیار کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ تحقیق بتاتی ہے کہ اگر کرنے اور نہ کرنے والے کاموں کی فہرست بناکر میدان میں نکلا جائے تو 41 فیصد تک کام کبھی مکمل نہیں ہو پاتے۔ کامیاب افراد کی ایک نمایاں عادت یہ ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں ٹال مٹول کو فکری ساخت کا حصہ نہیں بننے دیتے۔ وہ ہر کام موزوں وقت پر شروع کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ذہنی تیاری کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے اہداف قریبی لوگوں کو بتاتے ہیں۔ اِس سے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے اور کام کرنے میں جی لگتا ہے۔ ٹال مٹول سے گریز کرکے یعنی تساہل کو شکست دے کر ہی لوگ کچھ کر پاتے ہیں۔ اور ہاں! کام مکمل نہ ہونے پر اپنی ذمہ داری قبول کرنا بھی پیش رفت ممکن بنانے ہی کی سمت ایک اہم قدم ہے۔ گھر کے پکے ہوئے کھانے کھانا عام بات ہے مگر کامیاب افراد اس حقیقت کو بھی اعتماد میں اضافے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ گھر کا کھانا کھاتے ہیں اور گھر ہی پر کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں اہلِ خانہ سے تعلق مزید مستحکم ہوتا ہے۔
اگر آپ کسی بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرنا چاہتے ہیں تو اُسے کسی نوٹ بُک میں لکھنے کی عادت ڈالیے۔ تحقیق اور رائے عامہ کے جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ جس بات کو لکھا جاتا ہے وہ اچھی طرح ذہن نشین ہو جاتی ہے یعنی یاد رہتی ہے۔ طلبہ بھی امتحان کی تیاری کے لیے یہ نکتہ ذہن نشین رکھیں۔ کہنے کو یہ زمانہ معلومات کا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم ضرورت سے کہیں زیادہ معلومات کے دور میں جی رہے ہیں۔ یومیہ بنیاد پر ہمارا اچھا خاصا وقت سوشل میڈیا پر اور ای میلز دیکھنے میں ضائع ہو جاتا ہے۔ دن میں صرف تین بار ای میلز چیک کیجیے اور مجموعی طور پر بیس منٹ سے زیادہ صرف نہ کیے جائیں۔ کاروبار کی دنیا میں اچھا خاصا وقت میٹنگز میں صرف ہوتا ہے۔ ایپل کے بانی سٹیو جابز کو ''میٹنگ کلچر‘‘ سخت ناپسند تھا۔ کامیاب افراد میٹنگز کے بجائے کام پر یقین رکھتے ہیں۔ انکار کی عادت ہر کامیاب انسان کی شخصیت کا بنیادی جُز ہوتی ہے۔ وقت چونکہ محدود ہے اور کام بہت زیادہ ہیں اِس لیے کسی بھی غیر متعلق سرگرمی میں الجھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ تمام غیر ضروری امور کے لیے انکار کی عادت اپنائیے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے 80 فیصد نتائج ہماری 20 فیصد سرگرمیوں یا افعال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اِسے ''پریٹو پرنسپل‘‘ کہا جاتا ہے۔ ذہانت یہ ہے کہ انسان کم کام کرکے زیادہ اور بہتر نتائج حاصل کرے۔
کامیاب افراد سارے کام خود نہیں کرتے بلکہ لوگوں کو ذمہ داریاں سونپتے ہیں۔ اس کے لیے دوسروں کی صلاحیتوں کو پہچاننا اور اُن پر بھروسہ کرنا لازم ہے۔ کامیاب افراد ہر کام کسی نہ کسی سوچ کے تحت کرتے ہیں۔ وہ کام کے ذریعے دنیا کو کچھ دینے پر یقین رکھتے ہیں اور وقت کی بہترین تقسیم و تطبیق ممکن بناتے ہیں۔ کوئی بھی انسان سارے کام خود نہیں کرسکتا۔ کامیاب افراد اُتنا ہی کام کرتے ہیں جتنا کرسکتے ہیں۔ وہ ہفتہ وار نظام الاوقات کے مطابق چلتے ہیں۔ کامیاب افراد صحت بخش معمول اپناتے ہیں۔ وہ باقاعدگی سے ورزش اور معیاری ناشتہ کرتے ہیں۔ اخبار پڑھنا بھی اُن کے معمول کا حصہ ہوتا ہے۔
کسی بھی شعبے کے کامیاب ترین افراد وقت سے زیادہ توانائی پر متوجہ رہتے ہیں۔ کام کرنے کی استعداد برقرار رہنی چاہیے۔ وہ اپنی مہارت میں اضافہ کرتے جاتے ہیں تاکہ کم وقت میں توانائی کو زیادہ سے زیادہ بروئے کار لایا جاسکے۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ سخت محنت لازمی طور پر بہتر نتائج کی ضامن نہیں ہوتی۔ محنت سوچ سمجھ کر، منصوبہ سازی کے تحت کی جانی چاہیے اور کام اُسی وقت کرنا چاہیے جب جسم پوری طرح مستعد ہو۔ کیون کروز کی یہ کتاب ہر اُس انسان کو پڑھنی چاہیے جو معیاری انداز سے زندگی بسر کرنے پر یقین رکھتا ہو۔ اس کتاب کا مطالعہ وقت کو بہتر طور پر سمجھنے اور اُسے زیادہ سے زیادہ بروئے کار لانے کی تحریک دے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved