تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     05-05-2021

اصلاحات

انتخابی اصلاحات کا غلغلہ حکومت نے یوں مچا رکھا ہے جیسے ان اصلاحات کی تو دیر ہے ورنہ پاکستان ترقی و جمہوریت کے راستے پر دوڑنے کیلئے تیار ہے۔ حکومت کی پیش کردہ اصلاحات کی تعداد تو چار درجن سے بھی زائد ہے لیکن دراصل تین تجاویز ہیں جو بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان میں سے پہلی ہے الیکٹرانک ووٹنگ مشین‘ یعنی کاغذ پر چھپے ووٹ پر مہر لگا کر ووٹ دینے کی بجائے ووٹر مشین کا بٹن دبا کر اپنی مرضی کا اظہار کرے۔ ووٹنگ مشین کا استعمال کتنا ضروری ہے اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ دنیا کے نوے فیصد ملک آج بھی چھپے ہوئے کاغذ پر ووٹ کے ذریعے اپنی حکومتیں بناتے ہیں۔ پھر جس مشین کے استعمال پر حکومت اصرار کررہی ہے وہ خود حکومت نے ہی اپنے سائنسدانوں کی مدد سے تیار کی ہے‘ گویا سب سے بڑی بداعتمادی ہی یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی بجائے تحریک انصاف نے اسے بنوایا ہے۔ جہاں اعتماد کا عالم یہ ہو کہ اہم ترین ادارے بھی اپنی جانبداری کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہوں‘ وہاں حکومتی نگرانی میں بنی مشین پربھروسا کرلیا جائے تو ایسا ممکن ہی نہیں۔ لیکن حکومت کا اصرار تو ایسے ہے گویاچشم ِگیتی عمران خان اور فواد چودھری جیسوں کے انتظار میں ہی تو تھی کہ اس خطۂ ارض پر حکومتوں کی عزل و نصب کو اپنی بنائی ہوئی مشین کے تابع کردیں۔
دوسری تجویز ہے سینیٹ کے انتخاب کو کھلے ووٹ کے ذریعے کرنے کیلئے آئینی ترمیم۔ یعنی صوبائی اسمبلی کے ارکان اپنی پارٹی کے سربراہ کے حکم پر سینیٹر کیلئے ووٹ دکھا کر دیں گے۔یہ ترمیم دراصل قانون سازی کے اس اعلیٰ ایوان کو پارٹی سربراہوں کے تابع کردے گی۔ ابھی تو ہمارا گلہ ہے کہ صوبائی اسمبلی کے اراکین پیسے لے کر سینیٹ کا ووٹ دیتے ہیں‘ اس تبدیلی کے بعد بھارت کی طرح ہم روئیں گے کہ پارٹی سربراہان ہی بنفس نفیس ٹکٹیں بیچا کریں گے۔ تین مہینے پہلے بھی جب تحریک انصاف اسی طرح کی آئینی ترمیم کرنا چاہ رہی تھی تو میں نے حکومت کے ایک اہم قانونی مشیر سے عرض کیا کہ سینیٹ الیکشن سے رشوت ختم کرنے کا بہترین راستہ تو اس الیکشن کو متناسب نمائندگی کے ذریعے عوام سے ووٹ لینا ہے۔ اس طریقے میں سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی فہرستوں کے ساتھ عوام سے ووٹ لیں گی اورجس پارٹی کے جتنے ووٹ ہوں گے اسی حساب سے اسے سینیٹ میں نشستیں مل جائیں گی۔ اس وقت میری بات سے قانون ماہر نے اتفاق کیا اور فرمایا ‘ اگر ہمارے پاس وقت ہوتا تو یہی بہترین تجویز تھی۔ اس وقت تو ترمیم نہ ہوسکی اور ابھی کوئی جلدی بھی نہیں تو دوبارہ سینیٹ کو پارٹی سربراہوں کی آمریت کے بھینٹ چڑھانے کی کیا ضرورت ہے؟غیر ملکی شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کیلئے انتخابات میں حصہ لینے کو ممکن بنایا جانا بھی تحریک انصاف کے قانونی پیکیج کا حصہ ہے۔ اس تجویز پر اگر عمل ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ دو پاسپورٹ رکھنے والا شخص الیکشن لڑ سکے گا اور شہریت کا چھوڑنا اس کیلئے صرف اس وقت ضروری ہوگا جب وہ الیکشن جیت جائے گا۔ یعنی پیسے کے زور پر الیکشن لڑو‘ ممبر بن جاؤ تو دوسرے ملک کی شہریت چھوڑ دینا۔ یعنی پاکستان میں صدر سے لے کر کونسلر تک کے الیکشن کی اتنی بھی اوقات نہیں کہ اس کیلئے کوئی شخص غیر ملکی شہریت چھوڑ دے۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ عوام کے سامنے امیدوار کا ماضی ہو بلکہ کسی بھی ملک سے ٹپک پڑے‘ پیسے لگائے اور جیت کر اسمبلی میں بیٹھ جائے۔
ایسا نہیں کہ پاکستان میں انتخابی اصلاحات کی ضرورت نہیں‘ بات صرف اتنی سی ہے کہ حکومت جو اصلاحات لانا چاہتی ہے وہ غیر ضروری بھی ہیں اور ناکافی بھی۔ ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ صرف بے پناہ پیسے والا شخص ہی موجودہ انتخابی عمل سے گزر کر قانون ساز ادارے تک پہنچتا ہے۔ اس طرح جیتنے والے ان اداروں میں بیٹھ کرایسی قانون سازی کرتے ہیں جو در حقیقت ملکی ضروریات کے مطابق نہیں بلکہ ان کے گروہی مفادات کے تابع رہتی ہے۔ بجٹ بناتے ہوئے بھی ان کے پیش نظر عوام نہیں اپنے اپنے کاروبار ہوتے ہیں۔ سرکاری ٹھیکوں کیلئے ان اداروں کا اثرورسوخ استعمال کیا جاتا ہے۔یہی لوگ دیگرآئینی عہدیداروں کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے پلاٹ اور بعد از ریٹائرمنٹ نوکریوں کے لالچ دے کر ان سے دورانِ ملازمت اپنی مرضی کے فیصلے کرا لیتے ہیں۔ ہمارے انتخابی قوانین کی وجہ سے ملک ایسے چکر میں پھنس چکا ہے جہاں کسی ایک شخص کی نیک نیتی کا اعتبار کرنا بھی مشکل ہے۔
اگر واقعی ملک میں کوئی بنیادی انتخابی اصلاح کرنی ہے تو پھر سب سے پہلے الیکشن کے اخراجات کم کرنے کا بندوبست کریں۔ اس کیلئے سیدھا راستہ یہ ہے کہ ہر صوبائی حلقے کو بنیاد بنا کرالیکشن دفاتر کی تعداد دو تک محدود کردیں۔ کوئی بھی امیدوار تیسرا دفتر بنائے تو اسے انتخابی عمل سے نکال دیا جائے۔ ہر حلقے میں صرف دو جگہیں ایسی ہوں جہاں ہر امیدوار اپنی الیکشن کمپین میں ایک ایک جلسہ کرسکے اور ان جگہوں کے سوا کہیں جلسہ کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اسی طرح طے شدہ جگہوں کے سوا کسی اشتہار بازی کی اجازت نہ ہو تاکہ امیدوار ووٹر کودولت کے بل پر نہیں بلکہ شخصیت اور پروگرام کے ذریعے اپنی طرف مائل کر سکے۔ اس وقت ہمارا قانون قومی اسمبلی کے چالیس لاکھ روپے تک استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے اور عملًا ہر امیدوار الیکشن پر کروڑوں روپے خرچ کر ڈالتا ہے۔ انتخابی عمل کی اصلاح کرنی ہے تو سرمائے کی حد ایک لاکھ روپے تک کیجیے اور اس پر سختی سے عمل درآمد کروایے۔ یہ اختیار الیکشن کمیشن کو دیجیے کہ جو شخص ایک لاکھ روپے سے ایک روپیہ بھی زیادہ خرچ کرے گا‘ وہ انتخابی عمل سے اگلے الیکشن تک باہر کردیا جائے گا۔ اگرانتخابی خرچ کا یہ قاعدہ تبدیل ہوجائے تو پھر توقع کی جاسکتی ہے کہ عوام ایسے لوگوں کو آگے لا پائیں جو واقعی ان کی نمائندگی کا حق ادا کرسکیں۔
عمران خان واقعی ملک میں جمہوریت کو مضبوط بنانے کیلئے اپوزیشن کے تعاون کے طلبگار ہیں تو پھر انہیں انتخابی اصلاحات کے ساتھ بلدیاتی نظام کی جڑیں مضبوط کرنے کیلئے بھی مدد مانگنی چاہیے۔ اگرچہ بلدیاتی ادارے اور انتخابی اصلاحات دو الگ الگ معاملات معلوم ہوتے ہیں‘ لیکن اصل میں یہ دونوں ایک دوسرے میں یوں پیوست ہیں کہ ایک کے بغیر دوسرا بے معنی ہوجاتا ہے۔ پیسے کے زور پر الیکشن جیتنے والے اسمبلیوں میں بیٹھ کر یہ بھی یقینی بناتے ہیں کہ ملک میں بلدیاتی نظام کام نہ کرنے پائے۔ ہمارے قانون سازوں کے دل ودماغ میں بلدیاتی نظام کیلئے پائی جانے والی نفرت کی وجہ یہ ہے کہ اس نظام کے ذریعے ان کے حلقوں میں 'غریب غربا‘ منتخب ہوکر عوام کے روزمرّہ کے مسائل حل کرنے لگتے ہیں۔ ظاہر ہے اس صورت میں قانون سازوں کے ڈیرے سنسان ہو جاتے ہیں اور پولیس پٹوار پر ان کی گرفت بھی کمزور ہوجاتی ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقے جو مخصوص خاندانوں کے رجواڑے بن چکے ہیں‘ بلدیاتی ادارے انہیں واپس عوام کے ہاتھ میں لے آتے ہیں۔ یہی اصل جمہوریت ہے جس سے خوفزدہ ہو کر لایعنی قسم کی اصلاحات کے ذریعے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے۔
2017 ء میں تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن )اور پیپلزپارٹی نے مل کر جو انتخابی اصلاحات کی تھیں‘ ان کے مطابق الیکشن لڑنے والوں پر اپنے اثاثے ظاہر کرنے کی پابندی ختم کردی گئی تھی۔ میں 2018 ء میں اس پابندی کے خاتمے کو عدالت لے کر گیا تومجھے ان الزامات کا سامنا کرنا پڑا کہ میں الیکشن کے راستے میں رکاوٹ بن رہا ہوں۔ لاہور ہائیکورٹ میں فیصلہ ہوا کہ اثاثے ظاہر کرنا ضروری ہے۔پھر معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو سابق سپیکرقومی اسمبلی جناب ایاز صادق بنفس نفیس اپیل میں گئے جہاں لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ بحال رکھا گیا۔ یعنی آج سے چار برس پہلے بھی قومی اسمبلی میں بیٹھے لوگ ایک طبقہ بن کر سوچ رہے تھے اور آج بھی اپنے طبقاتی مفاد کیلئے سرگرم ہیں۔انتخابی اصلاحات کل بھی ایک دھوکا تھیں‘ آج بھی ایک دھوکا ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved