یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ موجودہ حکومت نے جس شعبے میں مستقل مزاجی کا مظاہرہ کیا ہے وہ مہنگائی ہے‘ جس کی شرح میں ہر گزرتے ماہ کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ چند ایک ماہ یہ شرح نچلی سطح پر بھی رہی ہے ؛تاہم اس کی مبینہ وجہ اعدادوشمار کا ہیر پھیر نظر آتی تھا تا کہ سیاسی فائدہ حاصل کیا جا سکے۔ جنوری 2021ء میں مہنگائی کی شرح اچانک پانچ اعشاریہ سات فیصد تک گر گئی۔ مشیر تجارت عبدالرزاق دائود کے ٹویٹر ہینڈلر نے خوب شادیانے بجائے‘ اس کے فوراً بعد اسد عمر صاحب کے ٹویٹر اکائونٹ سے مبارکباد اور کامیابی کی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔ انہوں نے عوام کو بتایا کہ جب ہمیں حکومت ملی تھی اس وقت مہنگائی کی شرح پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد تھی، ہم مہنگائی کو اس سے بھی نیچے لے آئے ہیں۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ وزیراعظم صاحب بھی اپنی تقریروں میں اس امر پر خوشی کا اظہار کرتے نظر آئے کہ مہنگائی کم ترین سطح پر آ گئی ہے بلکہ ساتھ ساتھ وہ یہ گلہ بھی کرتے رہے کہ جب مہنگائی بڑھتی ہے تو سب شور مچاتے ہیں لیکن جب کم ہوتی ہے تو اس کا کوئی ذکر بھی نہیں کرتا۔ عوام کی حالت بھی اس وقت عجیب تھی! کبھی حکومت کے جاری کردہ اعدادوشمار کو دیکھتے اور کبھی آٹا، دال، چینی، بجلی اور گیس کی قیمتوں پر نظر دوڑاتے کہ کہیں کوئی مماثلت نظر آ جائے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ شاید جنوری میں پیش کیے گئے اعدادوشمار عوام کو کنفیوز کرنے کے لیے تھے۔ اکثر حکمران تقریروں میں عوام کو قائل کرنے کے لیے بھی ایسے اعداد وشمار جاری کرواتے ہیں۔ اب تحریک انصاف آنے والے الیکشنز میں یہ کہہ سکے گی کہ ہمارے دور میں مہنگائی ن لیگ کے دور سے کم تھی اور یہ بات ثابت کرنے کے لیے ادارۂ شماریات کے جنوری 2021ء کے اعدادوشمار دہرائے جائیں گے، لیکن اگر اسد عمر صاحب سے یہ پوچھا جائے کہ وہ عوام کو سمجھا دیں کس طرح مہنگائی کی شرح کم ہوئی تھی تو وہ خود بھی اس سوال کا جواب نہیں دے پائیں گے کیونکہ یہ سارا سرکاری بابوؤں کا کھیل ہے اوراس میں وہ ستر سال کی مہارت رکھتے ہیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اس موضوع پر ماضی کو کیوں کرید رہاہوں‘ دراصل معاملہ کچھ یوں ہے کہ اپریل 2021ء میں مہنگائی کے حوالے سے اعدادوشمار سامنے آ گئے ہیں جنہوں نے عوام کے دل دہلا دیے ہیں۔ ادارۂ شماریات کے مطابق‘ اپریل 2021ء میں مہنگائی کی شرح گیارہ اعشاریہ ایک فیصد تک بڑھ گئی ہے جو پچھلے تیرہ مہینوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اس سے پہلے فروری 2020ء میں مہنگائی بارہ اعشاریہ چار فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔ اگر ماہانہ بنیادوں پر موازنہ کریں تو یہ مستقل تیسرا مہینہ ہے جس میں مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ جنوری میں مہنگائی کی شرح پانچ اعشاریہ سات فیصد، فروری میں آٹھ اعشاریہ سات فیصد اور مارچ میں نو اعشاریہ ایک فیصد ریکارڈ کی گئی تھی لیکن اپریل میں یہ ڈبل ڈیجٹ میں داخل ہو گئی جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آنے والے دن مزید سخت ہوں گے۔ عام آدمی کی تشویش اس لیے زیادہ بڑھ گئی ہے کہ رمضان کے مہینے میں سحرو افطار کا انتظام کیسے ہو گا۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ تجزیہ کاروں کے مطابق‘ پی بی ایس کے اعدادوشمار جاری ہونے سے محض چار دن پہلے وزارتِ خزانہ نے جو مہنگائی کے اعداد وشمار پیش کیے وہ حقائق کے بالکل برعکس تھے۔ وزارتِ خزانہ کا تجزیہ تھا کہ اپریل 2021ء میں مہنگائی کی شرح تقریباً 8 سے 9 اعشاریہ پانچ فیصد رہے گی۔ یہ صرف اس مرتبہ کی کہانی نہیں بلکہ گزشتہ دو مہینے بھی وزارتِ خزانہ نے حقائق کے منافی صورتحال پیش کی تھی جس کا ذکر میں نے اپنے کالموں میں کیا تھا لیکن موجودہ صورتحال زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ حکومتی حلقوں میں بھی یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ وزارتِ خزانہ کے اکنامک ونگ کو علم تھا کہ ماہِ اپریل میں مہنگائی گیارہ اعشاریہ ایک فیصد رہے گی بلکہ مارکیٹ میں بھی یہی تاثر دیا جا رہا تھا کہ جس طرح رمضان میں مہنگائی دیکھی جا رہی ہے‘ اس مرتبہ یہ شرح گیارہ فیصد کے ارد گرد رہے گی لیکن وزارتِ خزانہ کچھ اور ہی بتا رہی ہے۔ بعض ذرائع یہ کنفرم کر رہے ہیں کہ انہوں نے جان بوجھ کر غلط رپورٹنگ کی ہے‘ جس کی تحقیقات ہونا لازمی ہیں۔
پی بی ایس کے اعدادو شمار کے مطابق ماہ ِاپریل میں چکن کی قیمت سو فیصد تک بڑھ گئی۔ ٹماٹر 82 فیصد، انڈے 42 فیصد اور گندم 27 فیصد مہنگے ہوئے۔ اس سال گندم کی قیمت پر دبائو برقرار رہے گا کیونکہ ممکنہ پیداوار پچھلے سال سے کم ہے۔ اگر بجلی کی قیمتوں پر نظر دوڑائی جائے تو پچھلے سال اس ماہ کی نسبت اس میں 29 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کو کنگ آئل 19 فیصد، چینی 18 فیصد اور گندم کا آٹا 17 فیصد مہنگا ہوا ہے۔ یہ اضافہ صرف دیہاتوں میں نہیں بلکہ شہروں میں بھی ہوا ہے۔ شہروں میں 11 فیصد اور دیہاتوں میں گیارہ اعشاریہ تین فیصد ریکارڈ ہوا ہے۔ فوڈ انفلیشن دیہاتوں کی نسبت شہروں میں زیادہ رہی ہے اور یہ شہروں میں گیارہ اعشاریہ پانچ فیصد سے بڑھ کر پندرہ اعشاریہ سات فیصد ہو گئی ہے‘ یعنی صرف ایک ماہ میں چار اعشاریہ دو فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ دیہاتوں میں گیارہ اعشاریہ ایک فیصد سے چودہ اعشاریہ ایک فیصد اضافہ ہوا ہے، جو تقریباً 3 فیصد بنتا ہے۔ فوڈ انفلیشن اور انرجی آئٹمز کو اگر نظر انداز کر دیا جائے اور صرف کور انفلیشن کی پر نظر ڈالیں تو اس میں بھی 7 فیصد اضافہ ہوا ہے جو پچھلے ایک سال میں سب سے زیادہ اضافہ ہے۔
انفلیشن انڈیکس میں 12 گروپس شامل ہوتے ہیں جس میں سب سے زیادہ فوڈ اور مشروبات شامل ہیں جن کی شرح چونتیس اعشاریہ چھ فیصد ہے۔ ان میں پندرہ اعشاریہ نو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ہائوسنگ، پانی، بجلی، گیس اور فیول گروپ کا باسکٹ میں 25 فیصد شیئر ہے جس میں نو اعشاریہ سات فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کپڑوں اور جوتوں کے گروپ کی اوسط قیمتوں میں اپریل کے مہینے میں نو اعشاریہ سات فیصد اضافہ ہوا ہے۔اگر صرف جوتوں کی بات کریں تو ان کی قیمت میں پچھلے سال کے ماہِ اپریل کی نسبت 16فیصد اضافہ ہوا ہے۔پی بی ایس کے مطابق موجودہ مالی سال (جولائی سے اپریل 2021ء تک) اوسط مہنگائی آٹھ اعشاریہ چھ فیصد رہی ہے۔ انٹرنیشنل فنانشل انسٹیٹیوشن نے موجودہ مالی سال میں مہنگائی کی شرح 9 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔ اس کے مطابق مالی سال 2022ء میں مہنگائی کی شرح کم ہو کر 7 فیصد رہ جائے گی۔
اگر ہول سیل پرائس انڈیکس کی بات کریں تو پچھلے سال اسی ماہِ کی نسبت اس میں سولہ اعشاریہ چھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔اپریل کے حالیہ سامنے آنے والے اعدادوشمار میں کہیں بھی خیر کی کوئی خبر نہیں ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ماہِ اپریل میں ہی وزیراعظم صاحب تقریر میں فرما رہے تھے کہ مہنگائی بڑھنے پر تنقید کی جاتی ہے جبکہ کم ہونے پر کوئی تعریف نہیں کرتا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وزیراعظم کو بھی غلط رپورٹ کی جاتی ہے اور ''سب اچھا ہے‘‘ کی آواز لگا دی جاتی ہے اوروزیراعظم صاحب یکطرفہ سنی سنائی بات پر یقین کر کے عوام میں بیان کر دیتے ہیں جس کا خمیازہ عوامی رد عمل کی شکل میں وہ خود ہی بھگتتے ہیں۔وزیراعظم کا حالات سے اس قدر لاعلم ہونا باعثِ تشویش ہے۔ حکومت ہر وقت ڈالر کی قدر کے کم ہونے اور ترسیلاتِ زر میں اضافے کو اپنی کامیابی گردانتی ہے لیکن اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ اگر حقیقت میں روپیہ مضبوط ہو رہا ہے اور ترسیلاتِ زر میں اصل روح کے مطابق اضافہ ہو رہا ہے تو اس کا اثر عوام کی معاشی صورتحال پر کیوں نہیں پڑ رہا۔ عوامی مسئلہ مہنگائی ہے‘ جس دن اس کی شرح کم ہو گی نہ عوام کو حکومت سے گلہ رہے گا اور نہ حکومت کو میڈیا سے۔