تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     06-05-2021

ایک اور نشانی

کورونا کی وبا نے بھارت کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ معاملات اب قابو سے باہر نکلتے جانے کی منزل میں ہیں۔ بہت کوشش کرنے پر بھی مودی سرکار کچھ ایسا نہیں کر پارہی جس سے عوام کا اعتماد بحال ہو۔ بھارت میں کورونا کی دوسری لہر نے جو تباہی مچائی ہے اُس کے بارے میں بہت کچھ کہا جارہا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بیماری اُتنی نہیں ہے جتنی اعتماد کی کمزوری ہے۔ لوگ بدحواس ہوگئے ہیں اور بعض معاملات میں تو وہ اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر بے حواس ہوگئے ہیں۔ بات کچھ یوں ہے کہ بہت کچھ بہت تیزی سے ہوگیا۔ لوگوں نے سوچا بھی نہ تھا کہ ایسا بھی ہوگا کہ راتوں رات یومیہ بنیاد پر لاکھوں نئے کیسز سامنے آئیں گے اور روزانہ ہی نیا ریکارڈ قائم ہوگا۔ کم و بیش دو ہفتوں سے بھارت کا یہ حال ہے کہ ہر گزرتا ہوا دن لوگوں کو کورونا وائرس سے مزید خوف میں مبتلا کرتا جارہا ہے۔ آکسیجن کے بحران نے خوراک کے بحران کو مات دے دی ہے۔ اس وقت بھارت کے بہت سے بڑے اور چھوٹے شہروں میں آکسیجن زندگی کی سب سے بڑی ضرورت بن کر رہ گئی ہے۔ سوچا جاسکتا ہے کہ اس میں حیرت کیسی کہ آکسیجن کے بغیر تو ہم جی ہی نہیں سکتے۔ درست مگر یہ معاملہ انسان کی کشید کردہ آکسیجن کا ہے، فضا میں مفت پائی جانے والی آکسیجن کا نہیں۔
کورونا کی دوسری لہر نے بھارت کا ایک الگ ہی چہرہ بے نقاب کیا ہے۔ کیا یہ بات اللہ کی نشانیوں میں شمار نہ ہوگی کہ پورے بھارت میں مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے پریشان کرنے اور اذیت سے دوچار کرنے والے اکثریتی ہندوؤں نے کورونا کی وبا سے گھبراکر اپنے گریبان میں جھانکا ؟ مہا راشٹر، اتر پردیش اور راجستھان جیسی کٹّر ہندو ذہنیت رکھنے والی ریاستوں میں عوام نے آگے بڑھ کر اِس حقیقت کو تسلیم کرنے میں دیر نہیں لگائی کہ اُنہوں نے مسلمانوں سے جو برا سلوک کیا تھا اُس کی سزا کے طور پر کورونا کی وبا نے انہیں آن گھیرا ہے۔ ممبئی اور دوسرے بہت سے شہروں میں پولیس اہلکار گلیوں میں اور سڑکوں پر لاؤڈ سپیکر کے ذریعے مسلمانوں سے التماس کرتے پائے گئے کہ وہ کورونا کی وبا سے نجات کے لیے خصوصی دعا مانگیں اور بالخصوص تراویح کی نماز کے بعد اللہ کے حضور عرض گزار ہوں کہ وہ بھارت کو اس وبا سے نجات عطا فرمائے۔
گزشتہ برس نئی دہلی کے علاقے بستی نظام الدین میں تبلیغی جماعت کے مرکز میں ہونے والے اجتماع کو بنیاد بناکر ہندو انتہا پسندوں نے بہت شور مچایا تھا اور یہ کہتے ہوئے مسلمانوں کو مطعون کیا تھا کہ اس اجتماع کے نتیجے میں کورونا وائرس ملک بھر میں پھیل رہا ہے۔ متعصب ٹی وی اینکرز نے تبلیغی اجتماع کو بہانہ بناکر پورے بھارت کے مسلمانوں کو ''کورونا بم‘‘ قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا تھا۔ پھر اللہ نے اپنی قدرت کا ایک یہ نمونہ بھی دکھایا کہ گزشتہ برس کورونا کی وبا کے دوران مسلمانوں کو مساجد میں جانے سے روکنے اور مار پیٹ کر وہاں سے نکالنے والے پولیس اہلکاروں نے سڑک پر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے ان مسلمانوں کے آگے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی اور اس بات کا شکریہ ادا کیا کہ خود کورونا سے نمٹنے کے بعد اب وہ اپنا خون دے کر کورونا وائرس سے نبرد آزما افراد کی مدد کر رہے ہیں!
ممبئی، دہلی اور دوسرے بڑے شہروں میں کورونا کی وبا اِتنی تیزی سے پھیلی کہ ابتدائی لمحات میں تو بہت سوں کی سمجھ ہی میں نہ آیا کہ کریں تو کیا کریں۔ ایسے معاملات بھی دکھائی دیے کہ کوئی کورونا کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا مگر اُس کے آخری سفر کے انتظامات کرنا دردِ سر میں تبدیل ہوگیا۔ کورونا کے ہاتھوں بڑی تعداد میں ہندو جان سے گئے تو اُن کی آخری رسومات کے لیے شمشان گھاٹوں میں بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی۔ ایسے مناظر بھی دکھائی دیے کہ لوگ اپنے ہی رشتہ داروں کے مردہ جسم سے یوں دور دور رہے تھے گویا اُسے چھونے کی صورت میں کوئی بھوت اُن سے چمٹ جائے گا۔ ایسے میں مسلم نوجوانوں نے آگے بڑھ کر مدد کی۔ بعض شہروں میں مسلم نوجوانوں کے گروہوں نے سینکڑوں ہندوؤں کو شمشان گھاٹ ہی نہیں پہنچایا بلکہ اُن کی چِتا کے لیے لکڑی وغیرہ کا انتظام بھی کیا اور پھر اُن چِتاؤں کو آگ بھی لگائی۔ بہت سے مسلم نوجوانوں نے اپنے رکشوں اور ٹیکسیوں کو فری ایمبولینس میں تبدیل کرکے اُس میں آکسیجن سلنڈر کا بھی اہتمام کیا تاکہ کسی مریض کو ہسپتال منتقل کیے جانے کے دوران آکسیجن کی ضرورت پڑے تو الگ سے بھاگ دوڑ نہ کرنا پڑے۔ غازی آباد کے ایک گوردوارے نے ''آکسیجن لنگر‘‘ کا اہتمام کیا تو ایک مسلم نوجوان نے اپنی 22 لاکھ کی شاندار کار فروخت کرکے آکسیجن سلنڈرز کی سبیل لگالی! کورونا کے مریضوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اُن کے اہلِ خانہ بھی شدید خوفزدہ دکھائی دیے تو مسلم نوجوان آگے بڑھے اور مریضوں کی ہسپتال منتقلی سے اُن کی دیکھ بھال تک بہت کچھ کرتے دکھائی دیے۔
اقلیتوں سے امتیازی سلوک روا رکھنے والی اکثریت یہ سب کچھ دیکھ کر انتہائی شرمندہ ہے اور اب کھل کر قبول و تسلیم کیا جارہا ہے کہ یہ سب کچھ بُرے اعمال کی سزا کے سوا کچھ نہیں۔ راجستھان کے شہر کوٹا میں میونسپل کمیٹی کی ایک گاڑی میں باوردی اہلکاروں (یعنی سرکاری ملازمین) نے لاؤڈ سپیکر پر یہ کہا کہ بھارت میں کورونا کی وبا کی شکل میں عذاب اس لیے آیا ہے کہ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے مقام کو رام جنم بھومی مندر کی تعمیر کے لیے وقف کردیا! بہت سے ٹی وی اینکرز نے ضمیرکی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اُن تمام انتہا پسند اینکرز اور سیاست دانوں کو مطعون کیا جو مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکاتے رہے ہیں۔ ٹی وی شو ''ستیہ میو جیتے‘‘ کی میزبان ساکشی جوشی نے گزشتہ برس مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانے والے اینکرز کے وڈیو کلپس دکھاکر اُنہیں مطعون کرنے میں تاخیر سے کام لیا نہ تساہل سے۔
بھارت بھر میں اکثریت نے دیکھا ہے وہ جس اقلیت کی تذلیل میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتی تھی اور جس کے ہر عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا وہی اقلیت مشکل کی گھڑی میں سب کچھ بھول کر صرف انسانیت کے نام پر ان کی ڈھارس بندھانے اور زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کے ارادے سے میدان میں اتر آئی ہے۔ بھارت میں یہ نئی فضا ہے جس کا برقرار رکھا جانا لازم ہے۔ بھارتی مسلمانوں نے ثابت کردیا ہے کہ جس کے دل میں ایمان ہوتا ہے وہ اپنے رب کی رضا کو مقدم رکھتا ہے اور باقی سب کچھ بھول جاتا ہے۔ فتحِ مکّہ کے موقع پر بھی یہی ہوا تھا۔ نبی کریمﷺ نے اُن سب کو معاف فرما دیا تھا جنہوں نے اسلام کی راہ روکنے کے لیے مسلمانوں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی تھیں اور تلوار تک اٹھانے سے گریز نہ کیا تھا۔ بھارتی مسلمانوں نے اِسی فقید المثال جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی ہندوؤں کے دل جیتے ہیں اور انہیں کو بھی اس بات کی داد تو دی جانی چاہیے کہ اللہ کی تدبیر دیکھ کر انہیں اپنی ہر بُری چال پر معافی مانگنے کا خیال آگیا۔ ضمیر کی یہ خلش بہت سے افراد کو اُخروی فلاح کے اہتمام کی راہ بھی دکھا سکتی ہے۔ ایسے ماحول میں اپنے افکار و اعمال کا تضاد ختم کرکے صرف اللہ کی رضا کے حصول کو زندگی کا واحد مقصد بنانے پر متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔
بھارت کے علمائے کرام کو اس طرف متوجہ ہونا ہے۔ انہیں آگے بڑھ کر تمام مسلمانوں اور بالخصوص نوجوانوں کو دین کی عملی تبلیغ کی طرف مائل کرنا ہے یعنی یہ کہ وہ اپنے افکار و اعمال میں ہم آہنگی پیدا کرکے وہی فضا پیدا کرنے کی کوشش کریں جو عہدِ اوّل کے مسلمانوں نے پیدا کی تھی۔ وہ زمانہ تو اب واپس نہیں آسکتا مگر اُس سے اکتسابِ فیض کے ذریعے آج کے ماحول کی بہت حد تک تطہیر ضرور کی جاسکتی ہے۔ دو ہفتے قبل جب کورونا کی دوسری لہر نے زور پکڑا اور مسلمانوں نے ہندوؤں کی مدد کی تب بعض جذباتی مسلم نوجوانوں نے ایسی وڈیوز بھی سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کیں جن میں ہندوؤں کو مطعون کیا گیا تھا۔ اس روش پر گامزن ہونا کسی بھی اعتبار سے دانش مندی نہیں کہ ہمارا دین ہمیں ایثار، صلہ رحمی، درگزر اور احسان کا درس دیتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved