تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     07-05-2021

روز ملتے تھے مگر خواہش جدا ہونے کی تھی

فراق اور وصال دھوپ چھائوں کی طرح ساتھ ساتھ چلتے ہیں؛ تاہم ایسے فراق کے بارے میں آپ نے کم ہی سنا ہوگا جس فراق کی دستاویز میں لکھا ہو کہ لمبی رفاقت کے بعد یہ جدائی ناقابل رجوع ہے۔ کسی کی زندگی میں بھی لمحۂ جدائی یقینا انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔
کورونا کی خبروں کے بعد آج کل ورلڈ میڈیا اور عالمی سوشل میڈیا پر جو خبر چھائی ہوئی ہے وہ دنیا کے چوتھے امیر ترین شخص بل گیٹس اور اُن کی شریکِ حیات میلنڈا کی 27 سالہ شادی کا اچانک خاتمہ ہے۔ بل گیٹس اور میلنڈا کی رومانٹک پارٹنرشپ، بزنس پارٹنرشپ، ازدواجی پارٹنرشپ اور خدمت خلق کے لیے پارٹنرشپ بڑی آئیڈیل سمجھی جاتی تھی۔ بل گیٹس اور میلنڈا کے مداحوں کو اس خبر سے بہت دھچکا پہنچا ہے۔ خاص طور پر انسانی فلاح و بہبود کے لیے اس جوڑے کی حیران کن خدمات کے حوالے سے ساری دنیا میں خاصی فکرمندی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔
بل گیٹس 1955ء میں امریکی ریاست واشنگٹن کے شہر سیاٹل میں پیدا ہوئے۔ لڑکپن سے ہی اُن کی پہلی محبت مشینوں کے ساتھ تھی۔ نوجوان بل گیٹس ان سادہ سی مشینوں کی مدد سے کمپیوٹر پروگرامنگ کے خواب دیکھا کرتا تھا۔ اگرچہ بل گیٹس بہت سے سنہرے سپنوں کے ساتھ ہارورڈ یونیورسٹی میں داخل ہوا تھا مگر دو سال کے بعد ہی اُسے محسوس ہوا کہ اُس کے فنی ویژن کی تسکین کا یہاں زیادہ سامان نہیں لہٰذا اُس نے ہارورڈ یونیورسٹی کو خیرباد کہا اور اپنے بچپن کے ایک دوست کے ساتھ مل کر ''مائیکروسافٹ‘‘ کے نام سے ایک سافٹ ویئر کمپنی کا آغاز کر دیا۔
قدرت کا اپنا انوکھا نظام ہے جس میں ملاپ اور ملاقات کے لیے زمینی فاصلے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ ملک کے ایک دوسرے حصے کی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں میلنڈا فرنچ 1964ء میں پیدا ہوئیں۔ 1987ء میں بل گیٹس کی پہلی ملاقات میلنڈا سے اس وقت ہوئی جب اس نے مائیکروسافٹ کمپنی کو پراڈکٹ منیجر کی حیثیت سے جائن کرلیا۔ کئی سالوں کی ملاقاتوں کے بعد اُن کی 1994ء میں شادی ہو گئی اور پھر 3 مئی 2021ء تک یہی سمجھا جا رہا تھا کہ یہ شادی کامیاب ہی نہیں بلکہ آئیڈیل ہے‘ مگر وہی پرانی بات کہ آئیڈیل کسے ملتا ہے؛ البتہ اس امیر ترین جوڑے کی یوں یکایک جدائی بہت سے لوگوں کے لیے ایک صدمے سے کم نہیں۔ جدائی کا یقینا کوئی نہ کوئی سبب تو ہوگا‘ مگر جدا ہوتے ہوئے جوڑے نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ وہ یہ سبب کسی کو نہیں بتائیں گے۔ سبب کوئی ایک دن میں نہیں مدتوں پلتا بڑھتا رہتا ہے۔ قابل اجمیری کا ایک پرانا شعر نئے مفہوم کے ساتھ آج سمجھ آیا ہے کہ ؎
وقت کرتا ہے پرورش برسوں/حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
کچھ مدت پہلے بل گیٹس دنیا کا امیر ترین شخص تھا‘ مگر گزشتہ چند سالوں سے بل گیٹس نے انسانی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر اپنی دولت کا ایک بڑا حصہ خرچ کیا اور یوں وہ اس وقت دنیا کا چوتھا امیر ترین شخص ہے۔ فوربز کے مطابق بل گیٹس فیملی کی دولت کا تخمینہ تقریباً 130 بلین ڈالر ہے۔ واشنگٹن ریاست کے قوانین کے مطابق اُن کی دولت مساوی طور پر تقسیم ہو گی جس کے بعد میلنڈا کو 65 ارب ڈالر ملیں گے۔ اس طرح سے یہ دنیا کی مہنگی ترین طلاق ہو گی۔ بل گیٹس کی دولت صرف ڈالروں اور مشینوں تک محدود نہیں بلکہ وہ اس وقت امریکہ کا سب سے بڑا زمیندار بھی ہے۔ کئی ریاستوں میں اُس کے بہت بڑے زرعی رقبے موجود ہیں۔ شاہانہ گھروں، اعلیٰ اقسام کی گاڑیوں اور طرح طرح کے جہازوں کا بھی کوئی قطار شمار نہیں۔
قدرت نے جدا ہونے والے جوڑے کو خدمت خلق کا بہت بڑا جذبہ عطا کر رکھا ہے۔ 2000ء میں بل اینڈ میلنڈا گیٹس فائونڈیشن کی بنیاد رکھی گئی۔ 43.3 بلین ڈالرز کے اثاثوں کے ساتھ یہ فلاحی فائونڈیشن دنیا بھر میں خدمت خلق کا بڑا ادارہ ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں یہ ادارہ دنیا سے بھوک اور بیماریوں خاص طور پر پولیو، ملیریا اور دیگر وبائوں کے خاتمے کیلئے تقریباً 50 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ پچھلے سال بل اینڈ میلنڈا فائونڈیشن نے کورونا جیسی موذی وبا کے خاتمے کیلئے دو ارب ڈالر کا فنڈ مختص کیا تھا۔
بل گیٹس اور میلنڈا افریقہ کی کیچڑ سے لت پت گلیوں سے لے کر سوئٹزرلینڈ کی کاک ٹیل پارٹیوں تک اکٹھے نظر آتے تھے مگر اب انہوں نے جدائی کا فیصلہ یوں کیا ہے جیسے اُن کی شناسائی نہ تھی۔ اپنے مشترکہ میسج میں انہوں نے لکھا ہے کہ ہم نے تین جوان اور قابل فخر بچوں کی شاندار تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا اور دنیا سے غربت و افلاس اور بیماریوں کے خاتمے کے لیے ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں جو اب بھی جاری رہیں گی۔
یہ فقیر مزاجاً اُن لوگوں میں سے ہے جو رشتوں کے جڑنے پر خوش اور اُن کے ٹوٹنے پر اداس ہو جاتے ہیں۔ خدمتِ خلق کا سچا جذبہ رکھنے والے ہم ذوق جوڑے کی جدائی پر مجھے افسوس ہوا ہے۔ میں نے اس جدائی کے بارے میں بہت غوروخوض کیا تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دولت اور مسرت کا آپس میں کوئی خاص تعلق نہیں۔ جہاں تک جذبات کی قدر افزائی کا تعلق ہے تو جانبین ہمیشہ ایک دوسرے کے بارے میں اچھے جذبات و احساسات کا اظہار کرتے دکھائی دیتے تھے۔ بل گیٹس نے لکھا تھا کہ میلنڈا بڑی حد تک میرے جیسی سوچ رکھتی ہے۔ وہ ہمیشہ پرامید رہتی ہے اور سائنس سے گہرا تعلق رکھتی ہے جبکہ وہ مجھ سے کہیں بڑھ کر ملنسار ہے۔ میلنڈا نے لکھا تھا کہ بل گیٹس عمدہ حس مزاح رکھنے والا انتھک محنتی شخص ہے۔
میں سوچ رہا تھا کہ ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے والا اور انسانی دکھ درد کو مٹانے والا جوڑا اپنے افسانے کو ایک دردناک انجام سے کیوں نہ بچا سکا۔ میں اسی سوچ میں غلطاں تھا کہ بیدل کا ایک بھولا بسرا فارسی شعر میری نوکِ زباں پر آگیا:؎
بدل گفتم کدامین شیوہ دشوار است انجامش
نفس در خوں تپید گفت پاس آشنائی ھا
میں نے دل سے پوچھا کہ کون سا ایسا کام ہے کہ جسے انجام تک پہنچانا دشوار ہو۔ یہ سن کر دل خون سے بھر گیا اور اس نے کہا کہ پاسِ آشنائی بہت دشوار کام ہے۔ دل اور بیدل کے بعد مجھے خیال آیا کہ پاسبانِ عقل سے بھی پوچھا جائے کہ یہ افسانہ کیوں اپنے خوبصورت انجام تک نہ پہنچ سکا۔ برٹرینڈ رسل نے ایک بڑے پتے کی بات کہی تھی۔ اس کا ایک قول ہے:
Too strong an ego is a Prison.
مفہوم یہ کہ انسان اپنی بڑی انا پسندی کا زندانی بن جاتا ہے۔ جدید تہذیب کا کمال یا زوال یہ ہے کہ اس نے انفرادی انا کو اتنا مضبوط بنا دیا ہے کہ اکثر اوقات لوگ اپنی اپنی انائوں کے اسیر ہو جاتے ہیں۔شیکسپیئر کا کہنا تھا کہ دنیا کے سارے انسانوں کے جذبات یکساں ہوتے ہیں۔ مشرق ہو یا مغرب شادی ایک خوبصورت رفاقت کا نام ہے۔ یہ رفاقت تبھی پروان چڑھتی ہے کہ جب دونوں انائوں کے سنجوگ سے ایک کمپرومائزنگ مشترکہ انا وجود میں آ جاتی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ زندگی کے اس مرحلے پر 65 سالہ بل گیٹس اور 56 سالہ میلنڈا نے کسی نئی مہم جوئی یا دولت کی کسی ہوس کی خاطر یہ تکلیف دہ فیصلہ کیا ہو گا۔ جہاں تک اس جدائی کے سبب کا تعلق ہے ہمیں اُسے کریدنے کی ضرورت نہیں۔ بل گیٹس اور میلنڈا کے مداحوں کو اُن کا فیصلہ خوشدلی سے قبول کر لینا چاہئے۔ معلوم نہیں دونوں کے دل میں جدا ہونے کی خواہش نے کب سے ڈیرے جمائے ہوئے تھے۔ اس کے بعد نہ جانے کب سے وہ رسم دنیا نبھانے کیلئے میاں بیوی کی حیثیت سے ملتے رہے‘ بلکہ شاید حقیقت بقول شہزاد احمد شہزادؔ یہ تھی:ع
روز ملتے تھے مگر خواہش جدا ہونے کی تھی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved