تحریر : سعد رسول تاریخ اشاعت     07-05-2021

کورونا اور رمضان المبارک

پچھلے ایک سال سے کورونا وائرس نے پوری دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے۔ اس نے ٹیکنالوجی کے حوالے سے کامرانیوں اور کامیابیوں کے نشے میں ڈوبی ہوئی دنیا کی انا کو خاک میں ملا دیا ہے، معاشی انجن کو روک دیا ہے اور انسانی پریشانیوں میں ناقابل تلافی اضافہ کر دیا ہے۔ اپنے تمام تر اجتماعی وسائل، سائنس اور عقل و دانش کے باوجود، ہم نہیں جانتے کہ یہ وائرس کہاں سے آیا، یہ کب تک برقرار رہ سکتا ہے، کتنی جانوں کے اتلاف کا باعث بنے گا، اس پر قابو کیسے پایا جا سکتا ہے، یا اس کا حتمی علاج (اگر کوئی ہے) کیا ہو سکتا ہے۔ اس عالمی وبا سے پیدا ہونے والے بے یقینی کی صورتحال میں صرف ایک ہی چیز ہے جس کا ہم کچھ حد تک یقین کے ساتھ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں: کورونا وائرس، اور پوری دنیا میں اس کا اثر، لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دے گا، اور باوسیلہ اور بے وسیلہ لوگوں اور طبقات کے درمیان معاشی خلیج کو اتنا وسیع کر دے گا جس کا پاٹنا بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔یہ معاشی حق تلفی، اور اس کے نتیجے میں بڑھنے والی غربت ایک عالمی مسئلہ ہے‘ اور یہ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک کو متاثر کرے گا‘ جبکہ رمضان کے مقدس مہینے کی آمد کے ساتھ، یہ معاشی مسئلہ قلیل مدت کیلئے ہی سہی، (ایک غیر ترقی یافتہ) مسلم دنیا میں شدید ترین ہو جائے گا۔
پاکستان میں 'ایک معاشرتی فاصلے کے ساتھ‘ رمضان کا تصور مشکل ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں رمضان کا جشن (اور دعا) فطرت کے لحاظ سے مشترکہ اور اجتماعی ہیں، وہاں بڑے اجتماعات کی رونق کے بغیر رمضان کی سرگرمیاں دیکھنا دلچسپ ہے۔ ان حالات میں، یہ رمضان بھی ظاہر کرے گا کہ کتنے لوگ باہر نکلتے اور دوسروں کو کچھ دینے کے عمل کو تماشا بنائے بغیر ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
یقینا ہم سب کو رفاہی تنظیموں اور حکومت کے مالی تعاون سے چلنے والے خیراتی پروگراموں کا حصہ بننا چاہئے‘ لیکن 'دینے‘ کے اس جذبے کو خیراتی تنظیموں تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہئے۔ حقیقت میں دینے کا عمل گھر کے بہت قریب سے شروع ہوتا ہے‘ درحقیقت گھر کے اندر سے۔ ان لوگوں سے جن کو ہم گھر میں 'نوکر‘ یا شائستہ طور پر 'گھریلو مددگار‘ قرار دیتے ہیں۔ کیا ان کی مناسب دیکھ بھال ہو رہی ہے؟ کیا انکے اور ان کے چاہنے والوں کے پاس کورونا سے متاثرہ رمضان کے دوران وہ سب کچھ ہے جن کی ان کو ضرورت ہے؟ کیا ہم ان کا وہ حق ادا کر رہے ہیں جس کے وہ مستحق ہیں؟ کیا ہم انہیں کمزور انسانی معاملات میں برابر کا رکن سمجھتے ہیں، یا ہم نے ایک غیرطبقاتی معاشرے کے خواب سے خاموشی کے ساتھ دستبرداری اختیار کرلی ہے؟ کیا ہمارا احساس اور کسی کو کچھ دینے کا جذبہ اس مشکل وقت میں انکی حالت زار کا احاطہ کرتا ہے؟ ریاست کی ذمہ داریاں کیا ہیں‘ اس کو ایک طرف رکھتے ہوئے‘ نجی طور پر رہائش، تنخواہ اور دوسری مراعات کے حوالے سے ہم اپنے ملازمین کو وہ کم سے کم دیتے ہیں‘ جن کی ان کو ضرورت ہے یا پھر ہم نے اس تصور کو قبول کر لیا ہے کہ سب لوگ برابر نہیں ہوتے۔
''بنیادی کم سے کم ضروریات‘‘ کی بات کرتے ہوئے، یہ مناسب ہے کہ آغاز معاشرے میں کم سے کم اجرت کی مثال کے ساتھ کیا جائے۔ تحقیق سے یہ پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں اس حوالے سے دو بنیادی قوانین ہیں۔ کم سے کم اجرت کا آرڈیننس 1961، اور مغربی پاکستان کا کم سے کم اجرتوں کیلئے غیر ہنرمند ورکرز آرڈیننس 1969۔ 1961 والا آرڈیننس ''انڈسٹریل اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے تمام ملازمین پر لاگو ہوتا ہے (چاہے وہ ہنرمند ہیں‘ غیر ہنرمند ہیں یا اپرنٹسر ہیں حتیٰ کہ گھریلو ملازم ہیں) لیکن ان میں وفاقی یا صوبائی حکومتوں، کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے افراد یا زرعی سیکٹر میں ملازمین شامل نہیں ہیں۔ دوسری طرف، 1969 کا آرڈیننس (سیکشن 3) ''ایک تجارتی یا صنعتی اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے تمام مالکان پر یہ قانونی ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ ہر ملازم کو کم سے کم تنخواہ (آرڈیننس کے شیڈول میں متعین کردہ) ادا کرے۔ (اس میں پاکستان کی خدمات، دفاعی خدمات، بندرگاہوں، ریلویز، ٹیلی گراف اور ٹیلیفون، پوسٹل سروسز، فائر فائٹنگ، بجلی، گیس، پانی کی فراہمی اور ہسپتالوں میں کام کرنے والے افراد شامل نہیں ہیں) مزید برآں، یہ کچھ کٹوتی کی اجازت دیتا ہے جو آجر اس کم سے کم تنخواہ سے کر سکتا ہے، اس صورت میں کہ آجر اتنا فیاض ہوکہ اس نے کارکنوں کو رہائش اور ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کر رکھی ہو۔ ان قوانین کے تحت حکومت نے کم سے کم اجرت ادا کرنے کا تعین کر رکھا ہے۔ ابھی حال ہی میں وفاقی حکومت نے کم سے کم اجرت میں اضافہ کیا ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ طے کیا گیا کم سے کم معاوضہ پانچ افراد پر مشتمل ایک کنبے کیلئے ناکافی ہے۔ اور اس سے گہرا معاملہ یہ ہے کہ لاتعداد دیہاڑی داروں‘ پرائیویٹ اور گھریلو ملازمین کیلئے یہ کم سے کم اجرت کے اعدادوشمار بے معنی ہیں‘ جنہیں کسی سیٹھ کے ہاں ملازمت حاصل کرنے کیلئے گفت و شنید کرنا پڑتی ہے۔ وفاقی یا صوبائی حکومت کے پاس اس امر کو یقینی بنانے کا کوئی طریقہ نہیں کہ نجی ملازمین کے حوالے سے کم سے کم اجرت کے معیارات پر عمل کیا جا رہا ہے۔ حکومت کا اثرورسوخ ریاست کے زیر انتظام یا ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والی تنظیموں تک ہے۔ اس بارے میں ریاست کی سنجیدگی کا فقدان اس حقیقت سے ظاہر ہوتا ہے کہ (محکمہ لیبر کے اعدادوشمار کے مطابق) لاہور میں صرف 15 لیبر انسپکٹر ہیں جبکہ پورے پنجاب میں 100 کے قریب۔ کیا یہ ممکن ہے کہ 110 ملین سے زیادہ آبادی والے اس صوبے میں مجموعی طور پر 100 لیبر انسپکٹر (معمولی وسائل کے ساتھ) کم سے کم اجرت کے قوانین نافذ کر سکیں؟
اگرچہ حکومت اپنے کچھ اقدامات کے ذریعے غربت میں کمی لانے کی مستقل کوششیں کررہی ہے‘ لیکن کیا اس بات کو یقینی بنانے پر حکومتی توجہ مرکوز ہے کہ نجی کاروباری افراد گھریلو اور دیگر ملازمین کے بارے میں اپنی ذمہ داری پوری کریں؟ اگلا سوال: کیا صرف حکومت ہی اس کیلئے قصوروار ہے، یا ہم سب اس جرم میں حصے دار ہیں؟ آئیے، ایک لمحے کیلئے، ہم اس خیال کو تسلیم کریں کہ ہماری حکومتیں نااہل ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم میں ایسے افراد، جو دولت اور تعلیم کے لحاظ سے نوازے گئے ہیں‘ کا اس مسئلے سے کوئی تعلق نہیں؟ صرف اس وجہ سے کہ حکومت کم سے کم اجرت کے نفاذ کو یقینی نہیں بناتی‘ کیا ہمیں اپنے کک یا ڈرائیور یا سویپر ، یا گارڈ کو وہ کم سے کم رقم ادا کرنا جاری رکھنا چاہئے جو انہیں نوکری چھوڑ دینے سے روکے رکھے؟ کیا ہمیں اس حقیقت سے آنکھیں بند کر لینی چاہئیں کہ جو لوگ ہمارے ساتھ یا ہمارے لیے کام کرتے ہیں، ان کے بچے بھی ہیں‘ جنہیں صرف اس وجہ سے سکول نہیں بھیجا جا رہا کہ وہ افورڈ نہیں کر سکتے۔
اور، سب سے اہم بات، کیا ہمیں کورونا وائرس کے اس دور میں بھی اسی طرح بے دلی کے ساتھ رہنا چاہئے؟ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے قومی ضمیر کو 'بنیادی حقوق کی عمودی تشریح‘ (جہاں ہر شہری آئین کے تحت صرف ریاست سے اپنے حقوق کا دعویٰ کرتا ہے) سے ایک زیادہ 'افقی‘ اپروچ کی طرف شفٹ کریں (جہاں ریاست سے قطع نظر ہر شہری اپنے بنیادی حقوق کیلئے دوسرے شہریوں سے دعویٰ رکھتا ہے) کی طرف تبدیل کریں۔
آخرکار، تاریخ معاشرے کے کردار کا فیصلہ کرتی ہے کہ یہ غریبوں، مجرموں اور لاچاروں کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے‘ خاص طور پر ہنگامی صورتحال میں۔ ابھی تک‘ ہم بطور سوسائٹی‘ گھریلو مدد کے حوالے سے اپنے طرز عمل کے سلسلے میں بطور مجرم کھڑے ہیں۔ جب تک یہ تبدیل نہیں ہوتا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ہم نے کتنے روزے رکھے ہیں۔ کم وسیلہ لوگوں کے بارے میں اپنے رویے میں تبدیلی لا کر‘ خاص طور پر اس کورونا زدہ ماحول میں ہم واقعی اس گہرے اسرار کو سمجھنے کا آغاز کر سکتے ہیں کہ ہم کون ہیں، اور ہم کو کیا بننے کی خواہش رکھنی چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved