آفتاب احمد شاہ سابق بیورو کریٹ‘ عمدہ شاعر اور میرے عزیز دوست تھے۔ اگلے روز ان کا انتقال ہو گیا۔ یہ افسوسناک خبر میرے چھوٹے بیٹے جنید اقبال نے دی جو انہیں شاعر قمر رضا شہزاد کی لگائی ہوئی ایک پوسٹ سے معلوم ہوئی تھی۔ میں نے تفصیلات جاننے کے لیے شہزاد کو فون کیا تو اس پر ٹیپ چل رہی تھی۔ مرحوم کے میرے پاس دو ہی نمبر تھے‘ جو بند تھے۔ میں نے سابق سفیر اور اپنے ایک عزیز قاضی رضوان الحق سے رابطہ کیا‘ جو ان کے جاننے والے تھے‘ تو انہوں نے صرف اتنا بتایا کہ ان کی وفات ایک روڈ ایکسیڈنٹ سے ہوئی ہے۔
اوکاڑہ ضلع بنا تو ہمارے پہلے ڈپٹی کمشنر ناول نگار طارق محمود تھے اور اسسٹنٹ کمشنر محمد سعید شیخ جو بعد میں ایک عمدہ فکشن رائٹر بن کر ادب کی دنیا میں ممتاز ہوئے۔ وہ وہاں سے تبدیل ہو کر چیچہ وطنی تعینات ہوئے تو وہاں ایک مشاعرہ کروایا جس کی نظامت کے فرائض مجھے سونپے گئے۔ وہاں اقبال ساجد بِن بلائے ہی آ گئے تھے جنہیں کوشش کے باوجود میں نہ پڑھوا سکا۔میں نے آفتاب احمد شاہ کے مجموعۂ کلام ''فردِ جُرم‘‘ کا دیباچہ لکھا تھا جس کا عنوان تھا ''دو پیسے کا ہنر‘‘ اور جس کا آغاز اس طرح سے تھا کہ ''پتن پر کشتی روانہ ہونے کیلئے تیار تھی کہ ایک درویش بھی پھرتا پھراتا وہاں آ گیا اور ملّاح سے کہا کہ اسے بھی لے چلے، جس پر ملّاح نے کہا کہ اس کا کرایہ دو پیسے ہے، اگر دے سکتے ہو تو آئو بیٹھ جائو لیکن درویش نے کہا کہ میرے پاس تو دو پیسے نہیں ہیں جس پر ملّاح نے کہا کہ پھر چلتے پھرتے نظر آئو۔ تھوڑی دیر بعد کشتی روانہ ہوئی تو درویش بھی پانی پر پائوں دھرتا ہوا ساتھ ساتھ چل پڑا، دوسرے کنارے پر پہنچ کر وہ ملّاح سے بولا:آخر ہم نے بھی عمر بھر ریاض کیا ہے! جس پر ملاح نے کہا: عمر بھر کی ریاضت کے بعد جو ہنر تم نے سیکھا ہے، اس کی قیمت صرف دو پیسے ہے!‘‘۔ مرحوم جن دنوں ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان تھے تو وہاں ایک مشاعرہ کروایا، جس کیلئے مجھے خاص طور پر اوکاڑہ سے بلوایا اور مجھ سے اس کی صدارت کروائی گئی۔ میں بہت کہتا رہا کہ یہ ظلم نہ کیجیے، منیر نیازی اور احمد ندیم قاسمی جیسے سینئر شعراء کے ہوتے ہوئے میں کیسے صدارت کر سکتا ہوں لیکن انہوں نے کہا کہ صدارت آپ ہی کریں گے۔ دوسرے دن انہوں نے کچھ شعراء کو فورٹ منرو کی سیر بھی کروائی۔
ان کی بیٹی بھی شعر کہتی ہیں، چند ماہ پہلے مرحوم نے مجھے کہا کہ اس کی کتاب زیر طبع ہے، اس کا دیباچہ لکھ دیجیے۔ میں نے کہا: یہ اچھا نہیں لگتا کہ میں نے آپ کی کتاب کا دیباچہ لکھ رکھا ہے اور اب آپ کی بیٹی کی کتاب کا دیباچہ لکھنے بیٹھ جائوں۔ اس پر انہوں نے کہا اس پر نظر ثانی ہی کر دیں۔ میں نے آمادگی ظاہر کی تو انہوں نے کہا کہ میں مسودہ لے کر ایک دو روز میں آتا ہوں‘ لیکن کسی وجہ سے وہ نہ آ سکے۔
میں اردو سائنس بورڈ کا ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوا تو اس کا چارج دلانے کیلئے مرحوم بھی آئے تھے۔ لاہور میں میری بیٹی کی شادی کی تقریب میں وہ خود شریک نہ ہو سکے لیکن اپنی بیگم صاحبہ کو شرکت کیلئے بھیجا تھا۔ بعد میں کچھ مختصر ملاقاتیں بھی ہوئیں اور فون پر بھی رابطہ رہا۔ یہ صدمہ بھی میری قسمت میں لکھا تھا ، کچھ عرصہ پہلے ہمارے دوست قاضی جاوید، ڈاکٹر رشید امجد اور شاعر نجیب احمد بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ابھی اطلاع آئی ہے کہ نامور نقاد شمیم حنفی بھارت میں وفات پا گئے ہیں۔ اردو تنقید کو شمس الرحمن فاروقی کی وفات کے بعد یہ سب سے بڑا نقصان ہوا ہے ؎
سب کہاں کچھ لالہ و گُل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
سوئے اتفاق سے اس وقت میرے پاس آفتاب احمد شاہ کا مجموعہ نہیں ہے، ورنہ ان کا کچھ کلام آپ کی نذر کرتا۔ اسکے بعد ان کا کوئی مجموعہ سامنے نہیں آیا، اگرچہ وہ شعر تو کہتے رہے۔ ہو سکتا ہے کوئی ان کا باقی ماندہ کلام تلاش اور اکٹھا کر کے اسے کتابی شکل دے سکے۔ اس سانحے پر ایک قطعہ ہو گیا تھا جو شیئر کر رہا ہوں:
آہ !آفتاب احمد شاہ
نوحوں کے گھیرے دے گئے
بادل گھنیرے دے گئے
تھے آفتاب بھی تم مگر
کتنے اندھیرے دے گئے
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
کھوٹا تھا یا کھرا تھا
پہلا ہی دوسرا تھا
دل دھڑکا تھا زور سے
میں خود سے ہی ڈرا تھا
چھپا ہوا تھا نظر سے
ظاہر بھی ذرا ذرا تھا
آڑو جیسا تھا، مگر
کھولا تو سنگترہ تھا
نکلے تھے شاہکوٹ کو
پہنچے تو شاہدرہ تھا
گھوم رہا تھا سر، مگر
شانوں پر ہی دھرا تھا
اور، خزاں کے بعد بھی
باغ ابھی تک ہرا تھا
رویا اور رُلا گیا
کوئی عجب مسخرہ تھا
ایک وقت میں ہی ظفرؔ
خالی تھا اور بھرا تھا
آج کا مقطع
پانی سا بہتا پھرتا تھا میں پانی کے ساتھ‘ ظفرؔ
کوئی بہت منہ زور لہر تھی جس نے مجھے اچھال دیا