وطن عزیز کے مضمحل اور لاغر معاشی وجود کے دوا دارو کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے معاشی مصالحین سے معاہدہ طے پا گیا ہے۔ حکومت اسے اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے۔ مگر الیکشن مہم میں کشکول توڑنے کے جذباتی نعروں پر رقص کرنے والے عوام یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر عالمی مالیاتی طاقتوں سے امداد لینا پاکستان کے معاشی وجود کی بحالی کے لیے اس قدر ناگزیر تھا تو پھر منشور میں کشکول توڑنے اور خود انحصاری کے وعدوں اور نعروں کو کیوں شامل کیا گیا؟ آئی ایم ایف نے پاکستان کو بیل آئوٹ پیکیج کے لیے 5ارب 30کروڑ ڈالر کا قرض دینے کا وعدہ کرلیا ہے اور اس وعدہ کے عوض پاکستان سے کچھ کڑی شرائط پر عملدرآمد کا عہد لیا ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اس بیل آئوٹ پیکیج کا معاہدہ پاکستان کے ساتھ مکمل صلاح مشورے کے ساتھ طے پایا ہے۔ سادہ لوح عوام شاید اس بات پر یقین کرلیں مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایک مشہور انگریزی ضرب المثل ہے اپنی جگہ درست ہے: Beggers can\'t be choosers. اور پھر جب خالی کشکول میں امداد دینے والا آئی ایم ایف اور عالمی بینک ہو تو پھر امداد لینے والے ملک کو معاشی پالیسیوں میں اپنی خود مختاری کو بھی کسی حد تک گروی رکھنا پڑتا ہے۔ اس تلخ حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر اربوں ڈالر کی امداد دینے کے باوجود آئی ایم ایف کے دست نگر ممالک کی معاشی حالت سدھرنے کی بجائے بدتر کیوں ہوتی چلی جارہی ہے؟ آئی ایم ایف کے زیرنگیں ملکوں میں امیر اور غریب کے درمیان موجود فرق ایک خلیج کی طرح وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔ سفید پوش طبقہ غریب سے غریب تر ہوجاتا ہے۔ بنیادی ضرورتیں عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوجاتی ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر بننے والا یہ ادارہ دنیا کے امیر ترین ملکوں پر مشتمل ہے۔ امریکہ، جرمنی، جاپان، فرانس، برطانیہ، سعودی عرب آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو ممبر ممالک میں شامل ہیں۔ ہر ملک میں اپنی مالی حیثیت کے مطابق اس عالمی مالیاتی فنڈ میں حصہ ڈالتا ہے۔ امریکہ بہادر یہاں پر بھی پردھان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف ہو یا ورلڈ بینک، امریکہ کی اشیر باد کے بغیر وہ کسی ملک کو قرضہ جاری نہیں کرسکتے۔ اس طرح کے عالمی مالیاتی ادارے دراصل معاشی سامراجیت کا ایک ایسا نظام فروغ دیتے ہیں جس کے ذریعے، بظاہر تو ترقی پذیر اور غریب ملکوں کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے انہیں قرض دیا جاتا ہے لیکن دراصل اس ملک کے معاشی اور سماجی تانے بانے کو غیر مستحکم اورکمزور کرنے کیلئے ایسی شرائط رکھ دی جاتی ہیں جن پر عمل کرکے غیر محسوس طریقے سے پہلے سے معاشی ابتری کی دلدل میں پھنسا ہوا ملک مزید اس میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ کسی بھی ملک کو دیئے جانے والے بیل آئوٹ پیکیج میں آئی ایم ایف کی بنیادی شرطیں یہ ہوتی ہیں کہ حکومت ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں پر Cut لگائے۔ عوام کی بنیادی ضرورتیں مثلاً تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، بجلی اور گیس پر دی جانے والی سرکاری سبسڈی کو ختم کر دیا جائے۔ یوں ضروریات زندگی عوام کی پہنچ سے دور ہوجاتی ہیں۔ غریب کی قوت خرید میں کمی آتی ہے۔ غربت کی شرح بڑھتی ہے۔ لوگوں میں Unrest کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ عوامی مظاہرے بڑھتے ہیں اور ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں نے جن ملکوں کی معاشی صورتحال بنانے کے ایجنڈے کے تحت وہاں قدم رکھا، وہ ملک معاشی طور پر تباہ ہوتے چلے گئے۔ لاطینی امریکہ کا ملک بولیویا کی مثال موجود ہے۔ جہاں پانی جیسی بنیادی ضرورت پر عوامی مظاہرے ہوئے اور ملک میں عدم استحکام پیدا ہوا۔ اسی مثال کو دیکھتے ہوئے لاطینی امریکہ کے ملک وینزویلا کے بہادر صدر ہوگوشاویز نے آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کو اپنے ملک میں مداخلت سے روک دیا۔ شاویز کا کہنا تھا معاشی سامراجوں سے مدد لینے کی بجائے وہ اپنے ملک کی امیر آئل کمپنیوں پر ٹیکس بڑھائیں گے اور غریب عوام کے لیے سوشل سکیورٹی اور سبسڈی کے پروگرام جاری رکھیں گے جبکہ آئی ایم ایف کی شرائط اس کے بالکل برعکس تھیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ 90 کی دہائی میں کام کرنے والے عالمی شہرت یافتہ، نوبل پرائز ونر، ماہرِ معاشیات Joseph Stiglitz نے عالمی مالیاتی اداروں کے معاشی سامراجی نظام پر اپنی کتابوں اور ریسرچ پیپرز میں کڑی تنقید کی۔ وہ ورلڈ بینک میں چیف اکانومسٹ کے عہدے پر فائز تھے۔ جب انہیں سچ بولنے کی پاداش میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا ۔ جوزف کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی ادارے ملکوں میں عدم معاشی مساوات پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ نجکاری جیسی پالیسی شرط میں شامل ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے قرض لینے والے ملک اپنے بنیادی اثاثے، غیر ملکی کمپنیوں کو فروخت کردیتے ہیں۔ آئی ایم ایف جمہوری حکومتوں کی بجائے ڈکٹیٹرشپ اور ٹرانزیشن گورنمنٹ کو مالی طور پر سپورٹ کرتا ہے۔ ملکوں کی ایکسپورٹ بڑھانے کی بجائے امپورٹ بڑھا کر مقامی انڈسٹری کو تباہ کیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے پاکستان کی تقریباً تمام سابقہ حکومتوں کے ساتھ کام کیا ہے۔ بیل آئوٹ پیکجز دیئے مگر معاشی صورتحال بہتر ہونے کے بجائے بگڑتی رہی۔ صورت حال یوں ہے کہ پرانے قرضوں کو واپس کرنے کے لیے مزید نئے قرضے لینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے معاشی سائنس دانوں کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ اس ایشو پر Brain Storming کرنا ہوگی کہ کس طرح معاشی سامراجیت کے شکنجے سے پاکستان کو نجات دلائی جائے۔ پاکستان میں ارب پتی، کیا کھرب پتی لوگ موجود ہیں، کیا ہم پھر بھی اپنے ذرائع استعمال کرکے اس معاشی دلدل سے نجات کا راستہ نہیں پا سکتے؟ ورنہ تازہ ترین بیل آئوٹ پیکج شدید مہنگائی، توانائی کے سخت ترین بحران، دھوپ میں پگھلتے ہوئے موم کے مکانوں پر شیشے کا سائبان ہی ثابت ہوگا۔ دھوت کی تمازت تھی موم کے مکانوںپر اور تم بھی لے آئے سائبان شیشے کا
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved