بیس سالوں پہ محیط طویل اور اعصاب شکن جنگ کے بعد بالآخر امریکا اور اس کی اتحادی فورسز نے دوحہ معاہدے کے ذریعے اپنی جنگی کامیابیوں کی میراث اُن طالبان رہنمائوں کے سپرد کر دی جنہیں چند سال قبل وہ دہشت گرد قرار دے کر صفحۂ ہستی سے مٹانے کیلئے اپنے لائو لشکر کے ہمراہ، وسطی ایشیا میں وارد ہوئے تھے۔ بلاشبہ تاریخ اسی طرح تقدیر کی جبریت کو بے نقاب کرتی ہے۔ عالمی طاقتوں کی 20 سالہ فوجی اور سکیورٹی مصروفیات کا انسانی زندگیوں اور مادی وسائل کے نقصانات کے اعداد و شمار سے تخمینہ لگانا ممکن تو نہیں؛ تاہم اس جنگ میں 450 کے قریب برطانوی اور دیگر قومیتوں سے تعلق رکھنے والے سپاہیوں کے علاوہ 2300 امریکی فوجی ہلاک اور 20 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکی ٹیکس دہندگان کے ایک ٹریلین ڈالر اِس بے مقصد جنگ میں جھونک دیے گئے۔ اِسی جنگ میں افغان سکیورٹی فورسز کے 60 ہزار کے لگ بھگ اہلکار ہلاک اور اس سے دوگنی تعداد میں عام شہری مارے گئے۔ گویا یہ خود افغان ہی تھے جنہوں نے اتنی بڑی تعداد میں انسانی ہلاکتوں کے تلخ نتائج کو برداشت کیا۔ اس مسلط کردہ جنگِ دہشت گردی کے مضمرات صرف افغانستان کی سرحدوں تک محدود نہیں رہے، اس پیچیدہ لڑائی نے پڑوسی ریاستوں کوبھی متاثر کیا، سب سے زیادہ تباہ کن اثرات کا سامنا پاکستانی سماج کو کرنا پڑا، جہاں دہشت گردی کی خونخوار لہروں نے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ انسانوں کو نگلنے کے علاوہ ہماری قومی معیشت کو ناقابلِ یقین نقصان پہنچایا۔ مملکت کا بنیادی ڈھانچہ تباہ اور تین صوبوں میں گورننس کا نظام منہدم ہو گیا۔ اب بیس سال بعد جب یہ سوال سامنے آیا کہ کیا امریکی مقتدرہ کا افغان جنگ میں اترنے کا فیصلہ درست تھا تو جواب تلاش کرنے والوں کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ نفع و نقصان کی پیمائش کن پیمانوں پہ کی جائے گی۔ یہ کہنا انتہا درجے کی سادگی ہو گی کہ امریکا نائن الیون کی مبینہ ذمہ دار تنظیم القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی خاطر اتنے بڑے پیمانے پہ اپنے مادی و انسانی وسائل کوکبھی نہ تھمنے والی جنگ کی آگ میں
جھونکنے کے لئے یہاں آیا تھا، اگر ایسا تھا تو پھر بیس سالوں پہ پھیلی عالمی قوتوں کی اجتماعی مہم جوئی افغانستان کے علاوہ دنیا بھر میں امن و استحکام کے خواب کی تعبیر کیوں نہیں لا سکی؟ ایکشن آن آرمڈ وائلنس کے مطابق‘ صرف 2020ء میں دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں افغان شہری سب سے زیادہ بارودی مواد سے ہلاک ہوئے۔ جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود القاعدہ، داعش اور دیگر عسکری گروہ ختم نہیں کیے جا سکے۔ مغربی اشرافیہ خود کہہ رہی ہے کہ امریکی افواج کی رخصتی کے بعد یہاں عسکری تنظیمیں پھر فعال ہو سکتی ہیں۔ امریکی مقتدرہ کے نفس ناطقہ تجزیہ کار ابھی سے پیش گوئی کر رہے ہیں کہ ''اگر امریکی انخلا کے بعد ایک بار پھرمغرب میں بسنے والے ایشیائی نوجوانوں کی قابل ذکر تعداد افغانستان میں تربیت حاصل کر کے یورپ میں پھیل گئی تو ان سے نمٹنا دشوار ہو جائے گا، چنانچہ غیر محدود جنگوں کے باوجود مستقبل کی سلامتی کی تصویر اب بھی مبہم ہے‘‘۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مغربی اشرافیہ کا موجودہ بیانیہ بھی دجل و فریب کے سوا کچھ نہیں۔ امریکی تھنک ٹینک اور خفیہ اداروں کا دہشت گردی کے دوبارہ ابھرنے کا واویلا اسی طرح غلط اور فریب کاری پر مبنی ہے، جس طرح عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کی تکرار اور نائن الیون کے سانحہ کے فوری بعد طالبان کو عالمی امن کیلئے خطرہ بنا کے پیش کرنے کا بیانیہ غلط ثابت ہوا۔ عراق سے تباہی پھیلانے والے کیمیائی ہتھیار برآمد نہ ہوئے تو برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اپنی قوم سے معافی مانگ لی لیکن مغرور امریکیوں نے اب طالبان کو بطور سیاسی قوت تسلیم کرکے جنگِ دہشت گردی کے عالمی بیانیے کو باطل قرار دینے کے باوجود اپنی غلطیوں کو جواز کے لبادے پہنانے کی عادت ترک نہیں کی، وہ اپنے شہریوں کو مطمئن کرنے کیلئے پھر یہ کہہ رہے ہیں کہ افغانستان میں اب بھی دہشت گردی کے سرچشمے موجود ہیں، امریکی انخلا کے بعد خطے میں طاقت کا خلا پیدا ہوا تو''دہشت گرد‘‘ اسے پُر کریں گے۔ البتہ امریکی رائے عامہ اس طرح نہیں سوچتی، ان ساری لن ترانیوں کے باوجود امریکا میں کرائے گئے حالیہ سروے میں 40 فیصد سے زیادہ لوگوں نے افغانستان میں طویل عرصے سے جاری فوجی مہم کو غلطی قرار دیا۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں گزارے گئے 20 سالوں میں ہمیں ہزیمت کے سوا کچھ نہیں ملا۔ یہ شاید سوچا سمجھا فیصلہ نہیں تھا، حقیقت میں طالبان کو شکست دینے کی کوئی مؤثر منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی، سخت گیر گروہ حملہ کر کے روپوش ہو جاتے اور دوسرے حملہ کیلئے وقت حاصل کرتے اور کچھ عرصہ بعد دوبارہ لڑنے کو نکل آتے۔ اس سوال کے جواب میں کہ 20 سالوں پہ محیط اس جنگ میں امریکا نے کیا کھویا‘ کیا پایا ؟ شہریوں نے جواب دیا کہ امریکا نے ڈھائی ہزار فوجی کھوئے، اس مہم کی حمایت میں افغانستان جانے والے نیٹو ممالک نے بھی بہت ساری چیزیں کھوئیں، ہمیں زیادہ فائدہ نظر نہیں آتا ۔ افغانستان سے واپس جانے والے ایک بڑے خاندان کے فوجی نے بتایا کہ بگرام ایئربیس کے قریب امریکا نے بیس بستروں پہ مشتمل چھوٹا سا ہسپتال بنا کے افغانوں کو عطیہ کیا ہے لیکن ہسپتال اب بھی خالی پڑا ہے کیونکہ وہاں بجلی ہے نہ پانی اور نہ ہی وہاں خدمات انجام دینے والا سٹاف موجود ہے۔ افغانوں کے پاس علم اور پیسہ بھی نہیں اور ہم نے انہیں صرف ایک دوسرے سے لڑنے کے طریقے سکھائے۔ امریکی شہری اب یہ موازنہ بھی کرتے ہیں کہ بدقسمتی یا خوش قسمتی سے امریکا واحد سپر پاور کی حیثیت سے دنیا میں صرف جنگ وجدل کا نقیب ہے لیکن اس کے برعکس چین کا طرزِ عمل زیادہ عمدہ اور مفید ہے۔ چینی فوجیں بھیجنے کے برعکس دوسرے ممالک میں سڑکیں اور انفرا سٹرکچر بنا رہے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا آپ دستبرداری کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں؟امریکی شہریوں کا کہنا تھا کہ وہ اس دلیل کو معقول نہیں سمجھتے کہ ہم وہاں رہ کر دنیا کو بہتر بنا رہے تھے‘ ہم نے القاعدہ کے بانی رہنما کو ہلاک کیا لیکن ملک کے بڑے حصے پر کم و بیش اب بھی طالبان قابض ہیں لہٰذا ہمیں ابھی تک کوئی قابلِ ذکر کامیابی نظر نہیں آئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ معاملہ کو سدھار لیں گے، بارک اوباما نے کہا کہ وہ انہیں مسخر کر لیں گے لیکن واقعتاً ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ایک شہری نے کہاکہ میرے خیال میں تو زندگیوں اور وسائل کا زیاں ہی ہو رہا ہے۔ امریکا نے اس سے کیا کھویا؟ امریکی فیصلوں کی بدولت ممکنہ طور پر ہزاروں شہریوں کی ہلاکتوں اور اس خطے میں 20 لاکھ سے زیادہ افراد کو نقل مکانی کی کلفتیں جھیلنا پڑیں اور یہ کوئی قابلِ ستائش بات نہیں۔
امریکی رائے عامہ سے قطع نظر‘ واشنگٹن نے افغانستان میں عبرتناک شکست کے نفسیاتی اثرات کو کائونٹر کرنے اور طالبان کو فتح کے احساس سے محروم کرنے کی خاطر کورونا لاک ڈائون کے ذریعے پوری مسلم دنیا کے معاشی، سیاسی اور ثقافتی نظام کا محاصرہ کر لیا۔ یاد رہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے ردعمل میں عراق میں قائم امریکی ایئربیس پہ ایرانی حملوں کے بعد سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ '' اب وہ ایران پر کلچرل اٹیک کریں گے‘‘ اس دھمکی کے
کچھ عرصہ بعد کورونا وبا کے ذریعے مسلمانوں کے کلچر کو ناقابل تلافی زک پہنچائی گئی۔ حج و عمرہ جیسی اجتماعی عبادات اور قم، کربلا اور نجفِ اشرف جیسی مقدس زیارات پر پابندیاں عائد ہو گئیں، جہاںہر سال کروڑوں مسلمان اکٹھے ہوا کرتے تھے۔ انہی مقدس مقامات پر سال بھر لاکھوں زائرین کی آمد و رفت سے انتہائی عمیق ثقافتی تنوع کے علاوہ ایک بڑی معاشی سرگرمی تخلیق ہوتی تھی۔ رمضان‘ عیدین اور خانقاہی عرس جیسے بڑے بڑے تہواروں کو تو چھوڑیئے‘ اسی کورونا وباسکیم کے ذریعے محلوں، قصبوں اور بستیوں تک میں اجتماعی عبادت کے علاوہ میلے ٹھیلے، شادی بیاہ اور جنازوں وغیرہ کو ممنوع کر دیا گیا۔ پچھلے سال کورونا لاک ڈائون کی وجہ سے تیل کی مارکیٹ کریش کر گئی تھی جس کے نتیجے میں آئل برآمدکرنے والی گلف کی ریاستیں معاشی طور پہ برباد ہو گئیں۔ یہودیوں اور عیسائیوں کی کئی خفیہ تنظیمیں سوشل میڈیا، فلموں اور ٹی وی ڈرامہ سیریلز کے ذریعے گمراہ کن تصورات کی یلغار سے ہمارے خاندانی نظام کو اجاڑنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ خاندانی نظام کو بچانے کے لئے ریاست کوجامع ثقافتی پالیسی بنانا پڑے گی۔ امریکہ کے جنگی حربوں میں یہ اصول بھی شامل ہے کہ میدانِ جنگ سے نکلتے وقت اپنے حلیفوں کو بھی تباہ کرکے نکلو، جیسے عراق میں کیا یا جیسے ایران، شام اور سعودی عرب کو جنگوں میں الجھا رکھا ہے۔ اِسی طرح افغان وار میں ہزیمت کا بدلہ چکانے کیلئے اپنے اتحادی پاکستان کو مسائل کی دلدل میں اتارنے کیلئے جنگ کے اختتام سے قبل سول اور فوجی امداد بند کر دی گئی۔ اب مالی امداد کی بحالی کے بدلے امریکا نے سندھ اور بلوچستان میں ہوائی اڈاے مانگ لئے ہیں تاکہ طالبان کے افغانستان پہ نظر رکھی جا سکے۔ پھرکشمیر پہ ہمارے اصولی موقف کو بلڈوز اور بھارتی جارحیت کو سندِ جائزیت عطا کر کے کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کو دفن کرنے کی کوشش کی گئی اور اب بعض حساس قوانین کو جواز بنا کر پاکستان کے خلاف عالمی پابندیوں کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔