تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     09-05-2021

لاہور کا سریلا جادوگر

میرے لیے بڑی عجیب بات تھی۔ کیا واقعی اس دنیا میں ایسے ہوتا ہے؟
میں بھارتی میوزک شو انڈین آئیڈل کا پروگرام یوٹیوب پر دیکھ رہا تھا تو وہاں ایک مہمان نے عجیب بات کر دی۔ یہ تیسرا ہفتہ ہے ذہن اس ایک بات میں اٹکا ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہندوستان‘ پاکستان میں فلموں کے خوبصورت پوسٹر شہر کے مختلف علاقوں میں آویزاں کرکے فلموں کی مشہوری کرنا ایک عام سی بات تھی۔ بڑے اہتمام سے تانگے پر ڈھول بجاتے پوسٹر دونوں اطراف لٹکائے شہر بھر میں منادی کرانا بھی ایک خوشگوار کلچرل روایت تھی۔ ڈھول کی تھاپ پر جب لوگ اپنے پسندیدہ ہیرو، ہیروئن اور ولن کی آرٹسٹ کے ہاتھوں بنی تصویریں دیکھتے تو پاگل ہو جاتے کہ کب فلم سینما گھروں کی زینت بنے گی۔ یہ وہ کلچر تھا جو دونوں ملکوں میں عام تھا۔ یہ تو دو تین دہائیوں میں نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے فیشن بدل گیا ہے ورنہ ہمارے ہاں گھوڑے ٹانگے پر پوسٹر لگا کر ڈھول کی تھاپ پر بڑے چھوٹے شہروں میں سارا دن چکر لگاتے رہنا ایک خوبصورت کلچرل ایونٹ تصور کیا جاتا تھا کہ شہر میں نئی فلم لگنے والی تھی۔ ویک اینڈ کا لوگ انتظار کرنا شروع کر دیتے۔ یار دوست پروگرام بناتے اور پھر ٹولیوں کی شکل میں فلم کے پہلے شو کی ٹکٹیں کھڑکیاں توڑ کر لینے کا مقابلہ ہوتا۔ فلموں کی کامیابی کا دارومدار ہیرو‘ ہیروئن کی جوڑی پر ہوتا آیا‘ جو لوگوں کو ہٹ کرتی تھی۔ ہیروئن کے مختلف دل کش انداز میں بنے پوسٹر سینما ہائوسز میں فلم بینوں کو کھینچ لانے میں اہم کردار ادا کرتے۔
لیکن 1957 میں بھارت میں ایک ایسا کام ہوا جس نے اس ملک کی فلمی تاریخ کو بدل دیا۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا‘ نہ کسی نے سوچا تھا۔ ایک نئی فلم سینما گھروں میں پیش ہونے والی تھی۔ اس فلم کا نام تھا ''مجرم‘‘۔ اس کے ہیرو اپنے دور کے خوبصورت اداکار شمی کپور تھے۔ جب اس فلم کے پوسٹر ریلیز ہوئے تو پورا ہندوستان حیران رہ گیا کہ اس پر نہ تو کسی ہیرو کی تصویر تھی نہ اس کی ہیروئن کی‘ نہ ہی ولن یا کسی اور اداکار کی بلکہ اس دفعہ اس فلمی پوسٹر پر ایک ہی تصویر لگی ہوئی تھی‘ ہندوستان کے موسیقار او پی نیّر کی تصویر‘ اور ان کی تصویر کے نیچے لکھا تھا ''سُر کا جادوگر‘‘۔
یہ تھی کل فلم کی مشہوری کہ ایک موسیقار پوری فلم پر بھاری تھا۔ ایک ایسا بندہ جس کا نام اور میوزک ہی فلم کی کامیابی اور فلم بینوں کو سینما ہائوسز تک لانے کیلئے کافی سمجھا گیا۔ بلاشبہ آپ سب کی طرح مجھے بھی فلمی سنگیت سے محبت ہے بلکہ شاید جنون کی حد تک ہے۔ یہ سب باتیں سن کر میں نے او پی نیّر کے بارے پڑھنا شروع کیا کہ ایسا بندہ کہاں پیدا ہوا تھا جو اتنا بڑا بن گیا کہ اس کی ایک تصویر ہی فلم کے پوسٹر پر کامیابی کی ضمانت سمجھی گئی۔ (کچھ مدد سراج خان کے مضمون سے بھی لی گئی ہے جو نیّر صاحب کے دوست تھے)۔کیا واقعی کچھ لوگ اپنے فن اور پروفیشن میں اتنا بڑا نام بنا لیتے ہیں کہ اکیلے پوری انڈسٹری پر حاوی ہو جاتے ہیں اور ان کا نام ہی کامیابی کی ضمانت سمجھ لیا جاتا ہے۔ ایسا کیوں‘ کب اور کیسے ہوتا ہے؟
ایک ایسا موسیقار جو اپنے دور میں فلم کے ہیرو اور ہیروئن سے زیادہ معاوضہ لیتا تھا اور ایک دفعہ تو ایک فلم کے گیتوں کے لیے ایک لاکھ روپے معاوضہ لیا جو اس دور کا حیران کن معاوضہ قرار پایا تھا۔ ان کے بارے مشہور تھاکہ وہ چند گھنٹوں میں ہی فلم کے گانوں کی دھنیں تیار کر لیتے تھے لیکن وہ فلم پروڈیوسرز کو پندرہ بیس دن کا وقت دیتے تاکہ انہیں یقین ہوکہ ان کے کام پر بہت محنت ہورہی تھی۔ او پی نیّر کا نام اور کام اتنا بڑا تھا کہ آج بھی کم از کم تیس سے چالیس فلمیں اپنے نام یا اداکاری کی وجہ سے نہیں بلکہ او پی نیّر کے نام سے پہچانی جاتی ہیں۔ لوگ برسوں بعد ان فلموں کے ہیرو ہیروئن، کہانی اور ڈائریکٹرز‘ پروڈویوسرز کو بھول چکے لیکن او پی نیّر کا میوزک نہ بھول سکے۔ یقینا اس میں بناکا گیت مالا پروگرام کا بھی بڑا ہاتھ تھا جو ریڈیو پر فلموں کے سنگیت چلاتا تھا۔ پھر ریڈیو سیلون شروع ہوا (جس کے ہمارے ایاز امیر بڑے مداح ہیں)۔ اس پروگرام نے پاکستان اور ہندوستان میں فلمی گانوں کو مشہور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
او پی نیّر صاحب‘ جن کا پورا نام اومکار پرساد تھا‘ نے موسیقی کے تعلیم بھی حاصل نہیں کی ہوئی تھی اور نہ وہ میوزک پڑھ سکتے تھے۔ ان کے بنائے گئے گانوں کا اپنا انداز تھا جو سب سے مختلف اور جدا تھا۔ ان کے گانے زیادہ تر محمد رفیع، شمشاد بیگم، گیتا دت اور آشا بھوسلے نے گائے۔ یہ بڑی عجیب سی بات لگے گی کی او پی نیّر نے لتا منگیشکر سے گانے نہیں گوائے‘ پھر بھی ان کے گانوں نے سب سے زیادہ رائلٹی لی۔ لتا کے بغیر بھارت کا بڑا موسیقار بننا ایک کمال تھا۔ او پی نیّر کا نام فلموں کی کامیابی کی ضمانت تھا کہ اکثر پروڈیوسرز اپنی اپنی فلموں کے ہیرو اور ہیروئن کا انتخاب یا انہیں بک کرنے سے پہلے او پی نیّر کو منہ مانگا معاوضہ ادا کرکے فلم کی موسیقی کیلئے بک کرتے۔ ان کے پاس اتنی دولت آگئی تھی کہ اس وقت پورے ممبئی میں صرف دو لوگ تھے جن کے پاس Cadillac گاڑی تھی۔ ایک ان کے پاس تھی۔
ہر بڑے فنکار کی طرح او پی نیّر کی زندگی بھی عجیب و غریب ٹرن لیتی رہی۔ ان کا آشا بھوسلے کے ساتھ مشہور زمانہ رومانس آج تک سب کو یاد ہے۔ بہت لوگ سمجھتے ہیں کہ آشا کو آشا بنانے والے او پی نیّر تھے چاہئے وہ یہ بات تسلیم کریں یا نہ کریں۔ آشا سے بریک اپ نے انہیں توڑ دیا تھا۔ انہیں لگا‘ انہوں نے ان برسوں میں اپنی پہلی بیوی اور بچوں کا دل دکھایاہے‘ لیکن دیر ہو چکی تھی۔ وہ اپنے گھر میں کھویا ہوا مقام نہ پا سکے۔ کچھ کہتے ہیں: کسی سوامی نے انہیں کہا تھا سب دولت چھوڑ دو اس طرح تمہیں مکتی ملے گی اور وہ سب کچھ چھوڑ کر سڑک پر آگئے تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ ان کے پاس کچھ نہیں بچا تھا اور آخری عمر میں انہیں انکے ایک فین نے اپنے گھر رکھا اور انکا خیال رکھا اور اسی گھر میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
او پی نیّر کے بارے پڑھتے اور لکھتے لکھتے میں رک گیا۔ یُوٹیوب پر جا کر ان کا نام لکھا اور انکے گانے سننے لگا۔ ان میں سے اکثر میرے فیورٹ تھے اور سینکڑوں بار سن چکا تھا لیکن یہ علم نہ تھا کہ انکے موسیقار او پی نیّر تھے۔ ایک عام سا لڑکا جس نے کبھی موسیقی کی تعلیم حاصل نہ کی‘ بس ایک دھن تھی جو ہر وقت ذہن میں بجتی رہتی تھی۔ لاکھوں روپے جیبوں میں ڈالے فلمساز گھر کے باہر ڈیرے ڈالے رہتے کہ بس ہاں کر دو تاکہ ہم پوسٹر تیار کرائیں۔
لیکن پھر یہی قسمت اور عروج انسان کو اتنی ہی تیزی سے نیچے لاتے ہیں کہ اپنی زندگی کے آخری ایام کمپرسی کی حالت میں ایک فین کے گھر گزارے۔ یقین نہیں آتا تو آنکھیں بند کریں، کچھ دیر کے لیے ذہن کو قید اور دل کوآزاد چھوڑ دیں اور پھر ان دھنوں کو محسوس کریں جو سروں کے جادوگر اور لاہور کے سریلے سپوت او پی نیّر نے کبھی تخلیق کی تھیں۔ ایسے گیت اور سُر جو آپ کو برسوں بعد بھی اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ ایسی گرفت کہ آپ بھی ان سریلی زنجیروں سے آزادی نہیں چاہتے۔ بس کہیں کھو جاتے ہیں اور عمر بھر ان سروں میں کھوئے ہی رہنا چاہتے ہیں‘ کسی ایسے جہاں میں جہاں آپ کی محبت اور سنگیت کی پیاسی روح پیاسی بھٹکتی رہے۔
٭ اڑیں جب جب زلفیں تیری
٭ ریشمی شلوار کرتا جالی کا روپ سہا نہ جائے نخرے والی کا
٭ بابو جی دھیرے چلنا
٭ جاتا کہاں ہے دیوانے
٭ روپ تیرا ایسا درپن میں نہ سمائے
٭ آئیے مہربان بیٹھیے جان جاں
شوق سے لیجیے عشق کے امتحاں
٭ او لے کے پہلا پہلا پیار بھر کے آنکھوں میں خمار
جادونگری سے آیا ہے کوئی جادوگر

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved