تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     09-05-2021

رکاوٹ کہاں ڈالی جا رہی ہے؟

خان صاحب کے بے لوث حامیوں اور اندھے مقلدین کے بارے میں تو یہ عاجز کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن یہ بات طے ہے کہ اب حکومتی حلقوں میں بھی یہ خیال پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ یہ بھاری بوجھ اٹھانا ان کے بس سے باہر ہے، اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کو بھی اپنے منتخب کردہ منیجر کی صلاحیتوں اور استعداد کا بخوبی اندازہ ہو چکا ہے، اب ان کا معاملہ بھی دین محمد جیسا ہو چکا ہے۔
ابا جی مرحوم‘ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے‘ سنایا کرتے تھے کہ ان کے آبائی گھر والے محلے میں ایک صاحب تھے جن کا نام دین محمد تھا۔ دین محمد پر ایک دن مذہبی جوش چڑھا تو باریش ہو گیا لیکن ہمارے معاشرے کی عام روٹین کے مطابق عادات وہی پرانی رکھیں۔ کالے منڈی کے اندر اس کی لنگیوں اور چادروں کی دکان تھی۔ دو چار دن تو اس کے مزے رہے اور لوگ انہیں حاجی صاحب قسم کی چیز سمجھ کر اندھا اعتماد کرتے رہے مگر جلد ہی اس کے گاہکوں اور بیوپاریوں کو پتا چل گیا کہ صرف چہرے کی حد تک اثرات بدلے ہیں، دیگر معاملات ویسے کے ویسے ہیں تو لوگوں نے باریش ہونے کے حوالے سے اسے طعنے دینے شروع کر دیئے۔
یہ قریب پچاس ساٹھ سال پرانی بات ہے، تب ان چیزوں کے بارے میں لوگ کافی احتیاط کیا کرتے تھے اور مذہبی معاملات اور اقدار کے سلسلے میں ظاہری جذباتی پن کے بجائے عملی طور پر زیادہ دھیان دیتے تھے۔ لوگوں نے دین محمد کو معاملات میں بہتری پیدا کرنے اور باریش ہونے کی لاج رکھنے کے حوالے سے تاکید شروع کر دی۔ دین محمد نے معاملات درست کرنے کے بجائے اس ذمہ داری سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تدبیریں شروع کر دیں۔ اسے اتنی آسانی سے منڈوایا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ وہ اس کے شرعی پہلوئوں پر زبانی کلامی کئی بار روشنی ڈال چکا تھا۔ اب اس نے بات بات پر شرط لگانی شروع کر دی کہ اگر وہ شرط ہار گیا تو ریش منڈوا دے گا۔ سب محلے والوں نے اور مارکیٹ کے دیگر دکانداروں نے ایکا کر لیا کہ دین محمد کے ساتھ کسی ایسی بات پر شرط نہیں لگانی جس میں اس کے باریش ہونے کا ذکر موجود ہو۔ اب کیا کیا جائے؟ دین محمد نے گاہکوں اور بیوپاریوں سے شرطیں لگانی شروع کر دیں اور دو چار روز میں ہی ایک شرط ہار کر اس ذمہ داری سے فراغت حاصل کر لی۔ ساری مارکیٹ اور محلے میں کہتے پھرتے تھے کہ میں کیا کرتا؟ شرط ہار گیا تھا اور مجبوراً منڈوانا پڑ گئی۔ تاہم یہ بھی غنیمت تھا کہ تب لوگ ایسی باتوں کے لیے معاشرے کی پروا کیا کرتے تھے۔
قارئین! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر مجھے ایک دم سے پچاس ساٹھ سال پرانے اس واقعے کی یاد کیوں آ گئی! آپ کی حیرانی اپنی جگہ درست ہے لیکن مجھے یہ خیال چند روز بیشتر اپنے اسد عمر صاحب کے اس بیان سننے کے بعد آیا‘ جس میں انہوں نے فرمایا کہ کام میں رکاوٹ ڈالی گئی تو وزیر اعظم اسمبلیاں توڑ دیں گے۔ یاد رہے کہ یہ ہمارے وہی پیارے اسد عمر ہیں جن کی معاشی اور اقتصادی مہارت کا چورن بیچا گیا تھا اور حکومت بننے کے تھوڑا عرصہ بعد ہی معیشت میں ان کی نام نہاد مہارت کا پردہ چاک ہونے کے بعد اس ڈولتی ہوئی کشتی کے پتوار جناب حفیظ شیخ کے ہاتھ میں دے دیئے گئے تھے۔ خیر بات ہو رہی تھی وزیر اعظم کے کاموں میں رکاوٹ ڈالنے کی‘ تو اصل میں تو مجھے یہ دین محمد کی طرح ذمہ داری سے جان چھڑوانے کی ابتدائی کارروائی لگتی ہے اور اسے اپنی نااہلی اور ناکامی پر پردہ ڈالنے کی غرض سے کام میں رکاوٹ کو بہانہ بنا کر مظلوم بننے کی منصوبہ بندی کا حصہ تصور کرنا چاہئے۔
یقین مانیں جس دن سے جناب اسد عمر کا یہ بیان پڑھا ہے‘ میں مسلسل یہ سوچ رہا ہوں کہ آخر وزیر اعظم عمران خان کے کن کاموں میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے جس کی بنا پر اسد عمر صاحب نے تنگ آ کر اتنا بڑا بیان داغ دیا ہے؟ اگر تو ان کی مراد اس بات سے ہے کہ عمران خان کے سارے یُو ٹرن دراصل ان کے کاموں میں ڈالی جانے والی رکاوٹ کا نتیجہ ہیں تو پھر یہ عاجز کچھ کہنے سے عاجز ہے کیونکہ خان صاحب کے بقول انہوں نے یُو ٹرن کسی رکاوٹ کے باعث نہیں بلکہ اس لیے‘ لیے تھے کہ یُو ٹرن لینا کامیاب سیاستدان کا کام ہے۔ بقول ان کے یُو ٹرن نہ لینے والا کبھی کامیاب اور بڑا لیڈر نہیں بن سکتا۔ انہوں نے یُو ٹرن کو اپنی حکمت عملی قرار دیا تھا‘ لہٰذا ان معاملات میں تو نہ ان کے کام میں رکاوٹ ڈالی گئی اور نہ ہی روڑے اٹکائے گئے۔ تو پھر آخر وہ کون سے کام ہیں جن میں کوئی رکاوٹ پیدا کر رہا ہے؟ عالمی استعمار کو تہ و بالا کرنے والے ان کے وہ کون سے منصوبے ہیں جن کی راہ میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے؟ ظاہر ہے ایسی کوئی بات نہیں۔ رہ گئی بات اندرون ملک ان کی پالیسیوں اور منصوبوں کی‘ تو اب تک انہوں نے ایسی کون سی پالیسیاں، منصوبے یا پروگرام شروع کرنے کی کوشش کی ہے جن کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں؟ ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے تو بالکل یاد نہیں آ رہا کہ ان کا وہ کون سا انقلابی کام ہے جسے روکا جا رہا ہے۔
وہ کرپشن کے خلاف تقریریں کرنے کے شوقین ہیں۔ ان کے اس شوق کی راہ میں کوئی مائی کا لعل رکاوٹ پیدا کر سکا ہے؟ وہ اپنی ہر تقریر میں، ہر جگہ، ہر مقام پر، موقع بے موقع‘ امریکہ میں، ڈیوس کانفرنس میں، کورونا کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہیں، غرض ہر مناسب اور نا مناسب موقعے پر انہوں نے جب چاہا اپنی پسندیدہ تقریر کی۔ کسی نے رکاوٹ نہیں ڈالی۔ انہوں نے ملک کی معیشت کو آسمان پر لے جانے کی غرض سے مرغیوں اور انڈوں کا منصوبہ پیش کیا۔ کسی نے رکاوٹ نہیں ڈالی۔ کسی نے ان کی مرغیوں پر بلی نہیں چھوڑی اور کسی نے بھی ان کے انڈوں کی ٹوکری کو ٹھڈا مار کر یہ نہیں پوچھا کہ اس ٹوکری کے اندر کیا ہے؟
انہوں نے کٹوں اور وچھوں کا نادر منصوبہ پیش کیا۔ کیا مجال ہے کسی کی کہ اس نے اس معاملے میں کوئی دخل اندازی کی ہو۔ کسی نے بھی ان کے کٹوں، وچھوں کو سوٹا نہیں مارا۔ کسی نے ان کے منصوبے کے آگے رکاوٹ کھڑی نہیں کی۔ انہوں نے لنگر خانے کھولے، کسی کی مجال تھی کہ رکاوٹ ڈالتا؟ انہوں نے زیتون کے ذریعے ملک کی اقتصادی حالت بدلنے کی کوشش کی۔ کسی نے ان کے زیتون کے پودوں کو نہیں اکھاڑا۔ انہں نے دودھ اور پنیر سے اربوں روپے کا زرِ مبادلہ کمانے کا نادر منصوبہ پیش کیا، کسی نے دودھ میں مینگنیاں نہیں ڈالیں۔ انہوں نے بیری کے شہد سے ملک کی معاشی تقدیر بدلنے کا اعلان فرمایا۔ کسی نے ان کی شہد کی مکھیوں کے چھتے میں روڑا نہیں مارا۔ انہوں نے بھنگ کے پودے سے ادویات بنانے کی بات کی، کسی نے ان کے بھنگ کے پودے تلف نہیں کیے۔ انہوں نے لیٹرینیں بنا کر ملکی سیاحت کو فروغ دینے کی جو سعی کی اس پر کسی میونسپلٹی ورکر نے ہڑتال نہیں کی۔
حتیٰ کہ انہوں نے تاریخِ عالم کا سب سے حیران کن فیصلہ کرتے ہوئے صوبہ کے پی کے میں محمود خان اور پنجاب جیسے گیارہ بارہ کروڑ کی آبادی والے صوبے کے لیے جو دنیا کے دو سو پینتیس ممالک میں سے دو سو بائیس ممالک سے زیادہ آبادی کا حامل ہے‘ وزارتِ اعلیٰ کے لیے سردار عثمان بزدار جیسے نابغے کا انتخاب کیا، کسی کی مجال نہیں کہ وہ انہیں اس اقدام سے روک سکتا، یا رکاوٹ ڈال سکتا؟ آخر وہ کون سے کام ہیں جو وہ کرنا چاہتے ہیں اور اس میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں؟ ذرا قوم کو بھی تو پتا چلے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved