تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     09-05-2021

یہ ’’مت‘‘ کس نے دی ؟

یا تو اسے میڈیا کے لیے جاری ہی نہ کیا جاتا اور اگر کرناہی تھا تو نامعلوم لیکن دور سے ہی دیکھنے میں صاف پہچانے جانے والے چہروں کو ہی کیمروں کی آنکھ سے دور کر دیا جاتا اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تھے اور وزیر اعظم کا یہ عوامی دورہ ہر حالت میں کرانا ہی تھا تو پھر یہ لفظ شامل نہ کرائے جاتے کہ وزیر اعظم نے کسی بھی قسم کے پروٹوکول کے بغیر اسلام آباد کے احساس پروگرام کے تحت لگائے گئے رمضان یا سہولت بازاروں کا دورہ کیا۔حکومت احساس پروگرام کے تحت اچھی بھلی اور عوام میں مقبولیت پانے والی سکیم شروع کر کے جو دعائیں سمیٹ رہی تھی اور اس کا حکومت کے اچھے کاموں کی فہرست میں ذکر ہو رہا تھا لیکن نجانے کس نے ''مت‘‘ دی کہ اچھا بھلا بنا بنایا کام مذاق بنا کررکھ دیا جائے۔ یہ جو غلطی کی جا چکی ہے یا اگر صحیح کہا جائے تو کروائی جا چکی ہے‘ اس کے بعد توبہ کیجئے اور جب بھی اس قسم کا دورہ کرنے کا دل چاہے تو میری ایک بات لازمی یاد رکھیں کہ اسے'' بغیر کسی پروٹوکول یا سکیورٹی‘‘ کے نہ کہا جائے ۔
دوسری جانب ایک ہفتہ قبل پنجاب کابینہ کا جو اجلاس ہوا اس کی باز گشت میڈیا پر تو کہیں بھی سنائی نہیں دی لیکن اس اجلاس میں جو کچھ ہوا اس نے سب کو چکرا کر رکھ دیا۔ پنجا ب کابینہ کے دو وزرا نے ملک کے اہم قومی اداروں کے بارے میں جو الفاظ اور زبان اختیار کی ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے یہ حکمران جماعت تحریک انصاف کے وزرا نہیں بلکہ لندن میں بیٹھے ہوئے کسی رہنما کے بیانیے کو ہوا دینے کے لیے ان کے کوئی خصوصی نمائندے ہیں جو کہیں چھپ کر نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ ہائوس میں پنجاب کابینہ کے اجلاس میں‘ جہاں کئی صوبائی سیکرٹری بھی موجود تھے ملکی اداروں پر الزامات کی بھر مار کئے جا رہے تھے ۔
یہ وزیر اعظم عمران خان اور پنجاب حکومت کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے اور ملک کے سنجیدہ اور اپنے ملکی اداروں کا احترام کرنے والوں کے لیے سخت تکلیف کا باعث بھی کہ یہ لوگ کس ڈگر پر چل نکلے ہیں۔درست ہے کہ یہ وہی وزرا ہیں جنہیں حکومت میں شامل کرنے کے لیے بڑے چاؤ سے لایا گیا تھا‘ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جھوٹ کے باجے بجانا شروع کر دیں۔پنجاب کی دو لاکھ ایکڑ سے زائد زمین تو ابھی تک ان وزرا کے طاقتور رشتہ داروں اور سرکاری افسران سے واپس لی نہیں جا سکی اور یہ تبرے دوسروں پر کر رہے ہیں۔
اب ایک نظر گزشتہ پندرہ دنوں سے ملکی میڈیا اور سوشل میڈیا پر جاری چینی کی قطاروں پر ہونے والی بحث کا۔ سوشل میڈیا پر جو لمبی لمبی پوسٹیں جا ری کی جارہی ہیں ان کا پس منظر کسی ایک شخص کی مہارت کو ظاہر کررہا ہے جو حکومت کے پائوں تلے سے سب کچھ چھیننے والوں کا ایک کل پرزہ بن کر کام کر رہا ہے۔
سہولت ‘ رمضان بازار تو کہیں سستا بازار کے نام پر ایک کلو چینی دینے کے احکامات اور پھر اس کیلئے طویل قطاریں لگانے کے نایاب مشورے نجانے کس نے دیے لیکن جس نے بھی دیے اس نے رہی سہی کسر نکالنے میں اپنا کردار ادا کرنے کا پورا پورا حق ادا کر کے دکھا دیا۔ ایک سوال تو آگے چل کر بڑی عاجزی سے پوچھا جائے گا لیکن اس ایک کلو چینی کے حصول کے لیے شناختی کارڈ اور پھر انگوٹھے پر انمٹ سیاہی کا نشان لگانے کا جس نے بھی مشورہ دیا اسے حکومت کی جانب سے کوئی اعلیٰ اعزاز دیا جانا چاہیے۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت انہیں یہ اعزاز دینے میں بخل یا لیت و لعل سے کام لیتی ہے تو پھر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو مشترکہ طو رپر اس شخصیت کے لیے'' پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ کا اعلان کرنا چاہئے کیونکہ دوہفتوں سے اس شخص کی مہربانی اور اہلیت نے ٹی وی چینلز پر تحریک انصاف کو گھسیٹنے کے لیے نیا ٹاپک اور حکومت کو ان قطاروں میں لگے مرد و زن کی تنقید کے لامتناہی سلسلے سے فیض یاب ہونا کا موقع فراہم کیا ہے ۔
بڑے صاحبان نے تو کبھی خود جا کر ان قطاروں کو دیکھا بھی نہ ہو گا کہ روزے کی حالت میں اور گرم موسم میں ایک سے دو گھنٹے تک ان قطاروں میں ایک کلو چینی لینے کے لیے لگے ہجوم پر کیا بیت جاتی ہے ‘لیکن جس منظر نے مجھے یہ لکھنے کی تحریک دی وہ کورونا کی روک تھام کے لیے نافذ کی جانے والیSOPs کی بے رحمی سے اڑائی جانے والی دھجیاں تھیں ۔ ان رمضان بازاروں اور سہولت بازاروں میں کورونا کی روک تھام کے لیے نافذ کی گئی پابندیوں کی جس بڑے پیمانے پر خلاف ورزی کی گئی یہ کسی بھی بازار میں آسانی سے ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
آپ نے ہفتہ اور اتواردو دن کیلئے مکمل لاک ڈائون لگا دیا اور شام چھ بجے تمام دکانیں زبردستی بند کرا دیں‘ جس کے لیے یہ جواز پیش کیا کہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں ایس او پیز کی خلاف ورزی ہوتی ہے ‘سماجی فاصلے کا خیال نہیں رکھا جاتا‘ مگر ان لمبی لمبی قطاروں میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہجوم میں ایس او پیز کی خلاف ورزی اور سماجی فاصلے کی خلاف ورزی کسی کو نظر نہیں آتی؟ کاش آپ کروڑوں لوگوں کے کاروبار بند کرتے ہوئے ان قطاروں کی ایک جھلک بھی دیکھنے کی کوشش کرلیتے۔ اگر بغیر پروٹوکول کے وزیر اعظم نے عوام کے مسائل کا جائزہ لینے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا تو کسی رمضان بازار یا سہولت بازار جا کر ایک کلو چینی کے لیے مردوں‘ عورتوں اور بزرگوں کو بھی دیکھ لینا تھا۔ نجانے اس قسم کے دانشمند سرکاری افسران کہاں سے اس حکومت کی قسمت میں لکھ دیے گئے ہیںجو ایسے ایسے نایاب مشورے دے رہے ہیں کہ اپوزیشن کو حکومت کے خلاف کسی قسم کی تحریک چلانے کی نوبت ہی نہیں آنے دیتے۔سیالکوٹ کے رمضان بازار میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعہ پر تحریک انصاف کے اپنے کئی اعلیٰ عہدیداروں اور مقامی رہنماؤں نے اے سی صاحبہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے‘جبکہ بعض لوگوں کی رائے میں فردوس عاشق اعوان درست تھیں ‘ ان حلقوں کا موقف یہ تھا کہ سرکاری افسران چونکہ ریاست سے تنخواہ لیتے ہیں اس لیے عوام کی سہولیات اور خدمات کو یقینی بنانا ان کا فرضِ منصبی ہے۔ چونکہ سیالکوٹ کے بازار میں ناقص پھل رکھا گیا تھا؛چنانچہ اس معاملے میں اے سی صاحبہ کو ذمہ داری لینا چاہیے تھی البتہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاون کے طرز تخاطب اور رویے پر اکثر نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔
بیورو کریسی کی جانب سے بھی اس واقعے پر تشویش ظاہر کی گئی ہے اور حکومت تک جذبات پہنچائے گئے ہیں۔بیورو کریسی کو اپنی ذمہ داریاں سے بہرحال غفلت نہیں برتنی چاہیے ۔رمضان بازاروں اور اتوار بازاروں میں گلی سڑی سبزیوں اور زائد المیعاد اشیا کی شکایات عام ہیں۔میں یہاں کھڈیاں کے رمضان بازار کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنا چاہوں گا جہاں دکانوں پر مہنگے داموں سامان فروخت ہو رہاہے اور انتظامیہ غریب خوانچہ فروشوں کے چالان کرنے میں مصروف ہے۔ اگر ان خوانچہ فروشوں سے ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ پر شکایات ہیں تو جن سڑکوں پر یہ ریڑھیاں اور خوانچے لگائے جاتے ہیں اس سڑک کے آدھے حصے پر ناجائز تعمیرات کرنے والے قبضہ مافیا کو بھی پکڑیں۔ کیا ڈپٹی کمشنر قصور اس سے صورتحال سے لا علم ہیں؟ ماضی میں وزیر اعظم صاحب سے اس قصبے کے سرکلر روڈ کی تعمیر کی درخواست کی گئی تھی‘جس کا وعدہ بھی وہ کر چکے ہیں‘ دیکھئے کب یہ سڑک تعمیر ہوتی ہے‘ لیکن سڑک کی تعمیر سے پہلے سڑک کو ناجائز قابضین سے تو واپس لیں۔
پنجاب حکومت ناجائز قابضین اور تجاوزات کے خلاف آپریشن کے بڑے دعوے کرتی ہے‘ ایسے کچھ واقعات ہوئے بھی ہیں جن میں سرکاری زمینوں کو واگزار کروایا گیا ہے مگر ابھی ایسی بہت سی جگہیں ہیں جن سے قبضے چھڑانا ضروری ہیں۔ حکومت کو ان کارروائیوں کو جاری رکھنا چاہیے۔ پنجاب کابینہ کے اجلاس میں ملک کے اداروں کے بارے باتیں کرنا آسان ہے ‘ذرا وزیر اعلیٰ پنجاب‘ وزیر بلدیات اور چیف سیکرٹری صاحب سرکاری زمینوں پر کئے گئے قبضوں کی کوئی ایک فائل اینٹی کرپشن والوں سے منگوا کر دیکھ تو لیں ہر شہر اور قصبے میں ناجائز تجاوزات اور قبضہ گیری کے عام ہو چکی ہے ۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے ضلعی انتظامیہ کو ذمہ داری لینی چاہیے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے قبضہ مافیا کے خلاف مہم کا انتظار کئے بغیر مقامی انتظامیہ کو چاہیے کہ ایسے جرائم کے خلاف بروقت اقدامات کئے جائیں ۔ بروقت کارروائیوں سے ہی قبضہ گیری کا ٹرینڈ ختم ہو سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved