تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     09-05-2021

تجارتی خسارہ اور حکومتی موقف

حکومتِ پاکستان نے معیشت کو پروان چڑھانے کے لیے برآمدات میں بہتری پر توجہ دی ہے لیکن جن نتائج کی توقع کی جارہی تھی وہ ابھی تک حاصل نہیں ہو سکے ہیں۔ برآمدات بڑھانے کے لیے سب سے زیادہ انحصار ٹیکسٹائل سیکٹر پرکیا گیا ہے اور مراعات بھی منہ مانگی دی گئی ہیں۔ عام انڈسٹری کو بجلی کا ایک یونٹ پچیس سے تیس روپے چارج ہوتا ہے جبکہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو تقریباً نو روپے چارج کیا جاتا ہے‘ جس سے اخراجات کم ہو گئے ہیں اور عالمی مارکیٹ میں پاکستانی کاٹن کی قیمت چین‘ بنگلہ دیش اور بھارت کے برابر ہو گئی ہے۔ اب یہ جواز ختم ہو گیا ہے کہ ہمارے اخراجات عالمی مارکیٹ کی نسبت زیادہ ہیں اس لیے برآمدات نہیں بڑھا سکتے۔ ان تمام تر مراعات کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر پانا باعثِ تشویش ہے۔
دوسری طرف درآمدات میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے جبکہ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ مقامی مینوفیکچرنگ کی صنعت کو فروغ دے کر تجارتی خودمختاری حاصل کی جائے گی تا کہ درآمدات پر زیادہ انحصار نہ کرنا پڑے لیکن حالات اس کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔جولائی 2020ء سے اپریل 2021 ء تک تجارتی خسارہ بڑھ کر تیئس اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر ہو گیا ہے جو کہ سالانہ طے کیے گئے ہدف سے چار اعشاریہ ایک بلین ڈالر زیادہ ہے۔ موجودہ مالی سال کے تجارتی خسارے کا ہدف انیس اعشاریہ سات ارب ڈالر تھا۔ پچھلے سال اسی دورانیے کی نسبت یہ خسارہ تین اعشاریہ نو ارب ڈالر زیادہ ہے جو کہ اکیس فیصد بنتا ہے۔ دس ماہ میں ہی ایک سال کی طے کی گئی حد کو عبور کر جانا اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حکومت کا پالیسی پر کنٹرول نہیں ہے۔ یا تو اہداف غیر حقیقی بنیادوں پر طے کیے جاتے ہیں یا ٹیم میں مطلوبہ قابلیت ہی نہیں ہے۔ اگر برآمدات پر نظر دوڑائی جائے تو یہ دس ماہ میں بیس اعشاریہ نو ارب ڈالر رہی ہیں جو کہ پچھلے سال کے اسی دورانیے کی نسبت دو اعشاریہ پانچ بلین ڈالرز زیادہ ہے۔ پچھلے سال انہی دس ماہ میں اٹھارہ اعشاریہ چار بلین ڈالرز کی برآمدات ریکارڈ کی گئی تھیں۔ تیرہ اعشاریہ پانچ فیصد کا اضافہ بظاہر بہتر دکھائی دیتا ہے لیکن درآمدات میں اضافے کی نسبت اس کی اہمیت مانند پر گئی ہے۔ موجودہ مالی سال کے پہلے دس ماہ میں درآمدات چوالیس ارب ڈالر رہیں جو کہ پچھلے سال کے انہی دنوں کے مقابلے میں سترہ اعشاریہ سات فیصد زیادہ ہیں۔ان میں چھ اعشاریہ سات ارب ڈالر اضافہ تشویش ناک ہے۔مالی سال 2021ء کے لیے درآمدات کا ہدف بیالیس اعشاریہ چار ارب ڈالر تھا جو کہ دس ماہ میں ہی دو اعشاریہ تین ارب ڈالر کے فرق سے بڑھ گیا ہے جبکہ ابھی سال مکمل ہونے میں دو ماہ باقی ہیں۔
نئے وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب کا موقف یہ ہے کہ برآمدات نہ بڑھنا ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے ‘ مگروہ اس کا قصور وار حکومتی پالیسیز کو قرار دینے کی بجائے ملک میں فیملی بزنس ٹرینڈ کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں ‘ مگر یہ مضحکہ خیز دکھائی دیتا ہے۔ ترین صاحب کے مطابق ملک میں برآمدات کا کاروبار دو نسلوں سے آگے نہیں چل پاتا۔ ایک یا دو نسلوں بعد کاروبار یا تو بیچ دیا جاتا ہے یا تقسیم ہو جاتا ہے جس سے کارپوریٹ سیکٹر کمزور ہو رہا ہے۔بقول ان کے برآمدات ایک طویل مدتی کاروبار ہے‘ جب ایک کمپنی کے ساتھ تعلقات قائم کر لیے جاتے ہیں تو نسلوں تک چلتے ہیں‘کاروبار تقسیم ہونے سے کلائنٹ عدم اعتماد کا شکار ہو جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ بہت سے لوگ اس موقف سے متفق ہوں لیکن میرے مطابق جب برآمدات کا ایک کاروبار اگلی نسلوں میں تقسیم ہوتا ہے تو وہ بھی یہی کاروبار کریں گے کیونکہ انہیں کچھ اور آتا نہیں ہے‘جس سے اس شعبے میں ترقی کے امکانات روشن رہتے ہیں۔ دوسری طرف اگر اس طرح کی وجوہات بتا کر برآمدات کی کمی کا دفاع کرنا ہے تو پھر دیگر شعبوں میں بھی وزرا اس طرح کی دلیلیں دے کر اپنی ناکامی چھپانے کا جواز تلاش کر سکتے ہیں کیونکہ پاکستان میں 80 فیصد کاروبار فیملی بزنس کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ درحقیقت پاکستان میں برآمدات کم ہونے کی سب سے بڑی وجہ برآمدی سیکٹر کا پرفارم نہ کرنا ہے اور سونے پر سہاگا یہ کہ حکومت ان سے سوال بھی نہیں کر رہی کہ آپ نے جو مانگا آپ کو دیا ہے‘ اب برآمدات کیوں نہیں بڑھ رہیں؟ عوام کے ٹیکس کا پیسہ سبسڈی کی شکل میں ایکسپورٹرز کی جیب میں جا رہا ہے لیکن مطلوبہ فائدہ حاصل نہیں ہو پا رہا۔تاہم ساری مراعات ایک سیکٹر کی جھولی میں ڈال دینا مناسب نہیں ہے‘ اگر پرفارمنس نہیں مل رہی تو کسی اور برآمدی شعبے پر قسمت آزمائی کرنی چاہیے۔ چاول اور گوشت کی برآمدات حکومتی عدم توجہی کے باوجود بہتر ہے۔ اگر ان کے مسائل کم کر دیے جائیں تو ٹیکسٹائل سے زیادہ بہتر نتائج حاصل کیے جا سکیں گے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے مطابق معیشت کو سات سے نو فیصد ترقی کی ضرورت ہے تا کہ نوکریاں پیدا ہو سکیں اور عوامی قرض بڑھنے سے رک سکے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے مطابق سٹرکچرل اصلاحات کیے بغیر معاشی ترقی اور خاص طور پر برآمدتی شعبے کو ترقی نہیں دی جا سکتی۔ پاکستان شماریات بیوروکے اعدادوشمار کے مطابق پچھلے دو سالوں میں تحریک انصاف برآمدات کا ہدف پورا نہیں کر سکی اور اس سال بھی حالات زیادہ اچھے نہیں دکھائی دیتے۔پاکستان میں ماہانہ اوسطا ًبرآمدات دو بلین ڈالرز ہیں‘ یہ صرف تحریک انصاف کی حکومت میں نہیں بلکہ (ن) لیگ کی حکومت سے چلا آ رہا ہے۔ موجودہ دور میں تقریباً چالیس فیصد کرنسی گرنے کے باوجود بھی ماہانہ برآمدات دو بلین ڈالرز ہیں جو تکنیکی اعتبار سے پچھلی حکومت سے کم ہے۔ روپیہ ڈی ویلیو ہونے کا جو فرق آنا چاہیے تھا وہی ابھی تک حاصل نہیں ہوسکا۔ پی بی ایس کے مطابق اگر ماہانہ بنیادوں پر موازنہ کریں تو اپریل 2021ء کی برآمدات مارچ 2021ء کی برآمدات سے سات اعشاریہ دو فیصد کم ہیں۔ 171 ملین ڈالرز کی برآمدات کم ہوئی ہیں۔ ماہانہ بنیادوں پر شعبہ درآمدات سے کچھ بہتر خبر ہے کہ اپریل میں یہ پانچ اعشاریہ دو بلین ڈالرز ریکارڈ کی گئی ہیں۔ 8.3 فیصد کمی حوصلہ افزا ہے۔مارچ کی نسبت اپریل میں امپورٹ بل 472 ملین ڈالرز کم ہوا ہے۔ اگر برآمدات کا پچھلے سال اسی ماہ سے موازنہ کیا جائے تو تو 129 فیصد اضافہ نظر آئے گا۔ اتنے بڑے فرق کی وجہ معاشی کارکردگی میں بہتری نہیں بلکہ اپریل 2020ء میں کووڈ 19 اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے صرف ایک اعشاریہ تین ارب ڈالرز کی برآمدات ہوئی تھیں۔ اسی طرح درآمدات بھی بڑھی ہیں۔ان میں پچھلے سال اسی ماہ کی نسبت 62 فیصد اضافہ ہوا ہے نتیجتاً تجارتی خسارہ اپریل 2020ء کی نسبت اپریل 2021 ء میں بڑھ گیا ہے۔
تجارتی خسارے کو متوازن رکھنا مقامی صنعتوں کے قیام کے بغیر مشکل دکھائی دیتا ہے۔حکومتی موقف ہے کہ برآمدات کے لیے صنعت لگانا ضروری ہے جس کی مشینری بھی امپورٹ کرنا پڑتی ہے۔ اگر کوئی پرزہ خراب ہو جائے تو وہ بھی درآمد کرنا پڑتا ہے۔ایسے حالات میں درآمدات پر فوری کنٹرول کر لینا شاید ممکن نہ ہو سکے۔ لارج سکیل مینوفیکچرنگ یونٹس میں بہتری دیکھنے میں آ رہی ہے ۔فیکٹریاں لگانے کے لیے درآمدات بڑھ جانا وقتی خسارے کو جنم ضرور دیتا ہے لیکن اس کے مثبت اثرات دور تک ہوتے ہیں۔اس موقف کی تائید کی جا سکتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو تقریباً پونے تین سال گزرچکے ہیں اور ہر مالی سال کے اختتا م پر اسی طرح کی امید دلا کر معاملہ رفع دفع کر دیا جاتاہے۔ پہلے سال کے جو فیصلے لیے گئے ان کے مثبت نتائج تیسرے سال میں تو دکھائی دینا چاہئیں تھے لیکن ایسا نہیں ہو رہا اور آنے والے دنوں میں بھی کوئی مید نظر نہیں آ رہی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved