تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     09-05-2021

مصائب میں ہم ایک ہیں

بیماری ہو یا موت‘ حالات بہتر ہوں یا بدتر‘ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ یہ پیمان کسی جسمانی تعلق کا انتہائی مقدس بندھن ہے۔ بندھن قانونی بھی ہوسکتے ہیں اور سیاسی بھی ‘ لیکن ان کے پائیدار ہونے کادارومدار اُن کی جذباتی سکت پر ہے ۔ جب دل نہیں ملتے تو بہترین دکھائی دینے والی شادیاں بھی خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر جاتی ہیں ۔ بریگزٹ (برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی)پر غور کریں‘ نامور شخصیات کی دھوم دھام سے ہونے والی شادیوں کو دیکھیں‘ لگتا ہے کہ یہ جوڑے آسمانوں پر بنے تھے لیکن انجام کیا ہو ؟ دوسری طرف جب دوجانی دشمن بحران کے وقت اکٹھے ہوجاتے ہیں تو سیاست‘ معیشت‘ تاریخ اور جغرافیہ غیر اہم دکھائی دینے لگتے ہیں ۔ اس انتہائی مادیت پرست دنیا میں جہاں کووڈ کی وجہ سے اسباب کی قلت ہے اورممالک خود کو کہیں زیادہ غیر محفوظ پاتے ہیں‘ یگانگت کا یہ مظاہرہ انسانیت کے لیے امید کے دیپ جلا رہا ہے ۔ انڈیا کا ''کووڈ کے جہنم میں گرنا‘‘ جیسا کہ برطانوی اخبارات نے لکھا ‘ بہت دل خراش ہے۔ روایتی دشمن کو ایسی آفت کا شکار دیکھ کر عام طور پر کہا جاتا ہے ''تمہارے ساتھ بالکل ٹھیک ہورہا ہے‘ تم اسی کے مستحق ہو‘‘لیکن پاکستان میں حکومتی قیادت سے لے کر عوام تک ''Pakistan stands with India‘‘ کا ٹرینڈ چلا رہے تھے۔
چند ماہ پہلے تک ایسا ٹرینڈ اور جذبہ ناممکن دکھائی دیتا تھا لیکن یہاں ہم انہی لوگوں کے ساتھ یگانگت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مدد کی پیش کش کررہے ہیں جن کے ساتھ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک حالتِ جنگ میں تھے ۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ انسانی قدریں سیاسی عزائم پر غالب آجاتی ہیں ۔ چند ہفتوں کے دوران دوسری مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ پاکستان اور انڈیا منفی کی بجائے بڑی حد تک مثبت طور پر ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں ۔ ایک پاکستان و ی بلاگر دنانیر مبین کی ویڈیو ''پاوری ہورہی ہے‘‘ وائرل ہوگئی تھی پھر ایک انڈین یوٹیوب میوزک کمپوزر ‘ یاش مکھاتے نے اسے اور زیادہ مذاحیہ اور پرکشش بنا دیا ۔اس ویڈیو کی دونوں ممالک میں اس طرح نقل کی گئی کہ اس نے زبان‘ ثقافت اور مزاح کی یکسانیت کو زندہ کردیا ۔ بر صغیر میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس تفریحی سرگرمی میں حصہ لیا۔ اس نے سخت گیر موقف میں کسی قدر نرمی پیدا کردی۔ تاریخ کے اس موڑ پر یہ دونوں واقعات بے معانی اور بے کار کشمکش پر سوچنے اور بات کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ کورونا کی لپیٹ میں آئی ہوئی دنیا میں ہمیں اپنے تعلقات کو نئی عینک سے دیکھنا ہوگا۔
1۔ جنگی ڈیٹرنس : تصور کریں کہ ایٹمی ہتھیار بنانے پر اربوں ڈالر اس لیے خرچ کیے گئے تاکہ ہمسائے کو بتایا جاسکے کہ ''ادھر سے دور رہو‘‘۔ پاکستان اور انڈیاایک دوسرے کی مسابقت میں دفاعی صلاحیت کو بڑھانے اور بہتر بنانے میں لگے ہوئے ہیں ۔ ایک سرسری اندازے کے مطابق ان ہتھیاروں پر بھاری اخراجات اٹھتے ہیں ۔ دنوں میں سے ہر ملک نے ایک بلین ڈالر سے زیادہ کی رقم ایٹمی ہتھیار لے جانے والے چھوٹے میزائل تیار کرنے کے لیے مختص کی ہوئی ہے (انڈیا کے پرتھوی اور اگنی‘ اور پاکستان کے غوری اور غزنوی)۔ اس سے بڑے اورطویل فاصلے پر مار کرنے والے میزائلوں پر رقم کا خرچ دہرے ہندسوں میں ہوسکتا ہے ۔وائرس کے خلاف جنگ میں عالمی معیشتیں زمین بوس ہوگئی ہیں ۔ انڈیا میں وائرس ہر دس منٹ بعد ایک شہری کی جان لے رہا ہے ۔ آکسیجن ختم ہوچکی اور شہری فٹ پاتھوں پر دم توڑ رہے ہیں کیونکہ ہسپتالوں کے پاس اس جان لیوا بحران سے نمٹنے کی گنجائش نہیں ۔ کووڈ کے دنوں میں ہی انڈیا اور چین کے درمیان بھرپور سرحدی جھڑپ دیکھنے میں آئی ۔ اس کے علاوہ لائن آف کنٹرول پر پاکستان کے ساتھ بھی فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا ۔ تنازعات کی بھینٹ چڑھنے والی رقم اور ضائع ہونے والا وقت صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے پر صرف ہوسکتا تھا ۔ اگر یہ آفت بھی ان دونوں ممالک کو اپنے تعلقات پر نظر ثانی پر مجبور نہیں کرتی تو پھر کوئی چیز بھی ایسا نہیں کرسکے گی ۔
2۔ کورونا ‘ غربت اور جنگ : بر صغیر میں دنیا کے غریب افراد کی سب سے بڑی تعداد بستی ہے ۔ انڈیا کے تقریباً تیس فیصد اور پاکستان کے تینتیس فیصد شہری غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا کی چارسوملین آبادی غربت کا شکار ہے اور ان کے پاس صحت اور تعلیم کی برائے نام سہولیات ہیں ۔ دن میں بمشکل ایک وقت کا کھانا نصیب ہوتا ہے ۔ کورونا کی وجہ سے درمیانی طبقے کی معاشی سکت بھی شدید دبائو میں ہے ؛چنانچہ غریب افراد کی تعداد نصف بلین تک پہنچ سکتی ہے ۔ یہ لرزہ خیز حقائق ہیں ۔ یہ صورتحال جرائم ‘ انتہا پسندی اور بیماری کو بڑھائے گی ۔ ایسی گنجان آبادی میں وائرس کے پھیلائو کا اندازہ کریں جسے نہ ایس اوپیز کاکوئی تصور ہو اور نہ ہی ان کی صحت کی سہولیات تک رسائی ہو۔
3۔ تبدیل ہوتی جنگ : وبا کی ابھی ایک لہر گزرتی ہے کہ اس سے بڑی اور زیادہ خطرناک لہر اُبھرآتی ہے ۔ ایک ملک کورونا پر قابو پاتا ہے کہ دوسرے میں وبابے قابو ہوجاتی ہے ۔ یہ ایک سنگین صورتحال ہے ۔ ابھی مکمل یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ کیا موجودہ ویکسین اس کا تدارک کرپاتی ہے۔ انڈیا میں وائرس کی تبدیل شدہ شکل تباہی پھیلا رہی ہے ۔ صرف سفر ی پابندیاں لگانے سے یہ محدود نہیں ہوگا ۔ اس کیلئے ''ہر شخص کی مدد ‘‘ کے عالمی رجحان کی ضرورت ہے ورنہ کچھ ہی دیر کی بات ہے جب یہ ہر جگہ پہنچ جائے گا۔ چرچل نے کہا تھا ''کبھی کسی بحران کو ضائع نہ جانے دیں ‘‘اگرچہ یہ آفت سانس کی ڈوری پر لٹکی ہوئی تلوار سے بھی زیادہ ہلاکت خیز ہے لیکن یہ دونوں ممالک کو غیر روایتی سفارتی سرگرمی شروع کرنے کی دعوت بھی دیتی ہے ۔
1۔ طبی سفارت کاری: نہ صرف عالمی ادارہ صحت بلکہ عالمی تنظیم جیسا کہ گلوبل میڈیکل ایس او ایس فورم کی ضرورت ہے۔ انڈیا کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف ویکسین ہی نہیں اس سے بھی بڑھ کر کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ G-20 اورH-20کی طرح یہ فورم بھی وبا کے بحران سے متاثرہ ممالک میں طبی امداد‘ افرادی قوت اور سہولیات فراہم کرتا ہے۔ ان میں علاقائی تنظیمیں بھی شریک ہوسکتی ہیں جو ان ممالک کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور وہ سہولیات کی قلت کا سامنا کرنے والے ممالک کو اشیا فراہم کرسکتی ہیں ۔ پاکستان نے انڈیا کو مدد کی پیش کش کی ہے۔ مزید جس طرح کی مدد کی جا سکتی ہے ‘ اس کی پیش کش کرنی چاہیے ۔
2۔ کھیلوں کی سفارت کاری : انتہائی دبائو کے عالم میں تفریح اعصاب کو سب سے زیادہ سکون پہنچا تی ہے ۔ فٹ بال سے لے کر کرکٹ تک ہر کھیل لوگوں کو آپس میں جوڑتا ہے ۔کورونا کرکٹ امدادی میچوں کا آغاز ہونا چاہیے ۔ شائقین کو سٹیڈیم میں داخلے کی اجازت دیے بغیر میچوں کے ذریعے آکسیجن اور ہسپتالوں کو درکار اشیا کی فراہمی کے لیے فنڈز اکٹھے کیے جاسکتے ہیں۔ پاکستانی کھلاڑی انڈیا میں اور انڈین کھلاڑی پاکستان میں کھیلنے آسکتے ہیں ۔
3۔ سول سوسائٹی سفارت کاری : فیصل ایدھی نے قدم بڑھایا‘ اُنہوں نے انڈین حکومت کو ایمبولینسوں کی پیش کش کی۔ یہ وقت ہے جب سول سوسائٹی یکجہتی دکھائے اور مل کر کھڑی ہوجائے ۔ ریڈ کراس کے علاوہ چھوٹی مقامی تنظیموں کو مقامی شاخوں کے ذریعے اپنی سرگرمیاں پوری دنیا تک پھیلانی چاہئیں ۔ یہ فیصلہ کن وقت ہے ‘ ہم محض اپنے لیے کام کرتے ہوئے اس عالمی آفت پر قابو نہیں پاسکیں گے ۔ یہ وبا غیر معمولی طرز پر سوچنے ‘ کام کرنے اور آپس میں یگانگت پیدا کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ اگر سات ارب میں سے ایک شخص بھی متاثر ہوتاہے تو باقی 6.999 ارب افراد بھی متاثر ہوسکتے ہیں ۔تو ضروری ہے کہ مصائب کی تاریکی میں امید کی شمع روشن کریں۔ سرنگ کے دوسری طرف روشنی ضرور دکھائی دے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved