دانشور‘ روشن خیال حلقوں میں احمد سلیم کے نام اور کام سے کون واقف نہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی جدوجہدِ پیہم‘ علم و حکمت کے رازوں سے پردہ اٹھانے اور تلاشِ حقیقت میں بسر کی۔ ان کا یہ سفر عمر کے اس حصے میں بھی جاری ہے جب لوگ تھک ہار کر گوشہ نشین ہو جاتے ہیں۔ ان کا کام ابھی ختم نہیں ہوا۔ بہت کچھ باقی ہے۔ آخری سانسوں تک وہ علم کے حصول اور اس کو بانٹنے کی تگ و دو میں گزارنے کے متمنی ہیں۔ ان سے مل کر‘ ان کی باتیں سن کر آپ بھی ان کے ہم سفر ہونے کی خواہش پال بیٹھیں گے۔ میری ان سے ملاقات تو دیرینہ ہے‘ اور نیاز مندی بھی‘ مگر پیشہ ورانہ مصروفیات نے اجازت نہ دی کہ ان کی قربت سے فیض حاصل کرتا رہوں۔ کئی سال پہلے جب پاکستان پر ایک کتاب لکھ رہا تھا تو ان کے ساتھ ایک نشست کو ضروری سمجھا۔ ان کی فہم و فراست اور تاریخی حوالوں پر دسترس‘ سب جان کاروں کے لئے سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی کہی بات مستند ہوتی ہے۔ دور دراز کے ملکوں سے پاکستان کے کسی بھی سیاسی‘ سماجی‘ تاریخی‘ مذہبی یا لسانی پہلو پر کام کرنے والے اعلیٰ مقام پر پہنچے ہوئے سکالرز بھی معلومات کے حوالے سے اور واقعات کی تصدیق کے لئے ان سے رابطہ رکھتے ہیں۔ ایسے سکالر جب پاکستان آتے ہیں تو ان سے ملاقات اور رہنمائی حاصل کرنا ان کی سرِ فہرست ترجیح ہوتا ہے۔ ہماری علمی روایت یہی ہے کہ جہاں کہیں ایسے لوگ مل جائیں‘ چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں‘ انہیں تلاش کر کے ان سے کچھ فیض حاصل کیا جائے‘ علم کے کچھ موتی چنے جائیں۔ یہ ایسے علمی سخیوں میں سے ہیں‘ جہاں سے کوئی خالی نہ گیا‘ نہ جا سکتا ہے، ڈھونڈنے والوں کی استعداد اور استطاعت کے مطابق ان کی جھولی میں کچھ ڈال دیتے ہیں۔
کئی سیمینارز اور کانفرنسوں میں بھی ان کے ساتھ شرکت کی۔ ہمیشہ انہیں حلیم طبع‘ میانہ رو اور دوسروں کے موقف کو احترام دیتے دیکھا۔ اپنی بات سادگی اور انکساری سے کرتے ہیں‘ کبھی بھی علمی رعب و دبدبہ یا رعونت کا شبہ نہیں ہوتا۔ دیکھا کہ وہ سب کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں‘ تردید تو کبھی نہیں دیکھی‘ تنقید بھی ایک دوست‘ معلم اور بزرگ کی حیثیت سے کرتے ہیں۔ ایسی ہی خصوصیات عالموں کو ممتاز کرتی ہیں۔ ایک مرتبہ اقلیتوں پر کتاب مرتب کر رہے تھے‘ تو خاکسار کو بھی مدعو کیا اور ایک باب تحریر کر دیا۔ اس طرح وہ لوگوں کو علمی کاموں میں جوڑتے رہتے ہیں کہ مل کر ایک دوسرے کے مختلف علمی دھاروں سے استفادہ ہو۔
چند روز پہلے ان سے ملاقات کی درخواست کی تو اگلے ہی دن آنے کا وقت دے دیا۔ ہماری مغربی سرحدوں کی تاریخ کے بارے میں ان کے کتابی اور دستاویزی ذخیرے سے استفادے کا ارادہ تھا۔ احمد سلیم صاحب جیسے درویش صفت انسان نے چالیس ہزار کتابوں‘ رسالوں‘ اخبارات اور تاریخی دستاویزات کا ضخیم ذخیرہ جمع کر رکھا ہے۔ حیران ہوں کہ انہوں نے یہ عظیم کارنامہ کیسے سرانجام دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ساری زندگی نوکریاں تبدیل کرتے رہے‘ بدلتے ہوئے سیاسی ماحول اور کچھ حکومتوں نے انہیں ٹکنے نہ دیا۔ گزارے کے لئے جانے کون سی ملازمت ہے جو انہوں نے اختیار نہ کی‘ مگر کتاب کا شوق برقرار رہا‘ خریدنے کا اور پڑھنے کا۔ اس شوق کا پیدا ہونا ان کے استاد محترم اور ہمارے دور کے عظیم شاعر اور مفکر فیض احمد فیض صاحب کی کرامت ہے۔ ہارون کالج کراچی میں ان کے شاگرد تھے۔ ان کی روح میں تڑپ دیکھی تو ہیر وارث شاہ ان کے ہاتھ میں تھما دی اور فرمایا: پنجاب کے سماج اور ثقافت پر اس سے بہتر کوئی کتاب نہیں۔ کتاب سے دوستی کی ابتدا اس کلاسیک سے کی‘ اور یہ سفر ابھی تک جاری ہے۔
نوے کی دہائی میں جب ہماری اسمبلیوں پہ ٹوٹنے کی آفت آن پڑی تو ایک اخباری گروپ نے احمد سلیم سے درخواست کی کہ وہ اسمبلیوں کی تاریخ پر ایک کتاب لکھ کر دیں۔ جب وہ ''پاکسان میں ٹوٹتی پھوٹتی اسمبلیاں‘‘ کے عنوان سے کتاب مرتب کر رہے تھے تو انہیں احساس ہوا کہ کوئی بھی ایسی لائبریری اور درس گاہ نہیں‘ جہاں پاکستان کی تاریخ کے بارے میں ایک جگہ سب دستاویزات اکٹھی ہوں۔ کسی اور سے کہنے کے بجائے اس کام کا بیڑا انہوں نے خود اٹھا لیا۔ اپنا گھر تو نہ بنا سکے‘ مگر لا جواب کتب خانہ بنا دیا‘ جو آئندہ نسلوں کے لئے مختلف علمی میدانوں میں تحقیقی مرکز کا کام دیتا رہے گا۔ کتابوں اور رسالوں کو اکٹھا کرنے کے لئے پاکستان کے اکثر بڑے شہروں کے گلی کوچوں‘ کتب فروشوں کے اتوار بازاروں اور کباڑیوں کے اڈوں تک خاک چھانی ہے۔ لندن گئے تو وہاں کے فٹ پاتھوں سے بھی کتابیں خریدیں اور پاکستان لائے۔ میرے خیال میں پُرانے رسائل اور اخباروں کا ذخیرہ جو احمد سلیم کے پاس ہے‘ شاید کسی درس گاہ کی لائبریری میں بھی نہ ہو۔ سرکاری محکمے‘ اور درس گاہوں کی لائبریریاں بڑے رسائل اور اخبارات کباڑیوں کو بیچ دیتے ہیں‘ یہ ان سے خرید کر لاتے رہے۔ نہ جانے کتنا کچھ ردی کے طور پر پکوڑے بیچنے والوں کو سرکاری لوگ دے بیٹھے ہیں۔ پاکستان کا کوئی سیاسی‘ ثقافتی‘ ادبی‘ فلمی رسالہ ایسا نہیں‘ جس کے شمارے ان کے ذخیرے میں موجود نہ ہوں۔ بعض اوقات مضامین کے مصنف ان کے پاس آتے ہیں کہ وہ رسالے کہیں کھو بیٹھے ہیں اور انہیں اپنی تحریروں کی تلاش ہے۔ ابھی تک درویش کے کتب خانے سے کوئی خالی ہاتھ نہیں گیا۔
میں حیران ہوں کہ چالیس ہزار کا ذخیرہ جمع کیسے کیا؟ میں تمام تر وسائل اور امریکی جامعات میں برسوں رہنے کے باوجود چند ہزار تک جمع کر سکا ہوں۔ ان کا جواب ان کی آنکھوں کی چمک میں دیکھا۔ عشق جب ہو جائے تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔ وہ کباڑیوں اور پُرانی کتابوں کے دکان داروں کو کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد میں پیشگی رقم دیتے ہیں‘ اس توقع کے ساتھ کہ جو کام کی کتابیں اور رسائل ان کے پاس آئیں‘ پہلا حق احمد سلیم صاحب کا ہو گا۔ وہ بھی جوہر شناس کی قدر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بازاروں کا چکر لگاتے رہتے ہیں‘ کوئی نئی کتاب نظر آئے تو خرید لیتے ہیں۔
کئی سال پہلے جب ان سے ملاقات ہوئی تھی تو میں نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنا علمی ذخیرہ میری جامعہ کو عنایت کر دیں اور خود بھی پڑھانے کے لئے ہمارے پاس آ جائیں۔ انہیں قائل کرنے کی غرض سے وطنِ عزیز کے مشہور وکیل اور کتاب سے محبت کرنے والے مرحوم خالد اسحاق صاحب کی مثال دی کہ ان کے بچوں نے ان کی وفات کے بعد تقریباً ایک لاکھ کتابیں لمز کی لائبریری کو دی ہیں۔ اب بھی وہی سوال دہرایا تو فرمایا: وصیت نامہ لکھ کر کسی وکیل کو دے دیا ہے‘ نہ کوئی کتاب فروخت ہو گی‘ نہ یہ کتب خانہ اپنی جگہ سے منتقل ہو گا۔ کچھ دوستوں نے ان کے نام پر کتب خانے کی عمارت ایک گھر کی صورت اسلام آباد کے مضافات چھتر کے علاقے میں تعمیر کرا دی ہے۔ آج کل اس ذخیرے کی کیٹلاگنگ ہو رہی ہے۔ اگلے مرحلے میں اس کو ویب پر ڈالا جائے گا‘ اور دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھا ہوا محقق اس تک رسائی حاصل کر سکے گا۔ مستفیض ہو سکے گا۔
سوچتا ہوں‘ ایک درویش نے اپنا سب سرمایہ جو کچھ محنت مزدوری سے کمایا‘ ایک کتب خانہ بنانے میں صرف کر ڈالا۔ یہ ایسی سعادت ہے کہ بڑے بڑے سرمایہ داروں‘ امیروں کو نصیب نہیں۔ ہو بھی کیسے؟ یہ تو سب عشق کی باتیں ہیں‘ درویش ہی کر گزرتے ہیں۔ نوجوانوں کے لئے کہا: انہیں کتاب پکڑا دیں اور کہیں اسے مضبوطی سے تھام لیں‘ خود تھک جانے کی کیفیت بیان کی‘ تو اصرار تھا کہ ''لکھنا بند نہ کرنا‘‘۔ سمت متعین ہو تو سفر جاری رہے‘ یہی تو زندگی ہے اور اس کا راز بھی۔