یہ مظلوم، مجبور اور مقہور اٹھارہ کروڑ عوام جو آج فی کس 86,000 روپے کے مقروض بنا دیے گئے ہیں‘ ان کے آبائو اجداد بھی اپنی مرضی و منشا کے بغیر قرض پر سود ادا کرنے کی لعنت کا شکار تھے اور یہ اٹھارہ کروڑ بھی اسی قرض اور سود کی لعنت کو بغیر اپنی مرضی اور منشا کے اپنی آئندہ نسلوں کو منتقل کر یں گے۔ یہ مسکین اور سادہ لوح لوگ ہیں جن کے خون پسینے کی محنت سے اس ملک کے ظالم حکمران گزشتہ ساٹھ سال سے قرض اور سود کی اقساط ادا کررہے ہیں۔ یہ لوگ اگر گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں کھولتے ہوئے پانی میں کھڑے ہو کر پنیری نہ لگائیں تو چاول کی فصل پیدا نہ ہو۔ ان کی عورتیں سروں پر دوپٹوں کی ٹوکریاں بنائے کپاس کے پھول نہ چنیں تو روئی کی گانٹھیں تیار نہ ہوں۔ یہ بھوکے ننگے اور مفلس لوگ اگر کماد کے کھیتوں پر کام نہ کریں تو گنوں کی ٹرالیاں شوگر ملوں تک نہ پہنچیں اور چینی کے گوداموں میں ذخیرہ اندوزی نہ ہو۔ آم کے باغات اور کینو کے درخت ہر سال انہی کی محنت سے پھل دیتے ہیں اور پھر ان ساری اشیاء کو دنیا بھر کی مارکیٹوں میں بھیج کر ڈالروں سے سٹیٹ بینک کا پیٹ بھرا جاتا ہے اور غریب عوام کے پسینے سے نچڑے ہوئے ان ڈالروں سے حکمرانوں کے اللّوں تللّوں اور کرپشن پر خرچ ہونے والے قرض کی قسطیں اور سود ادا کیا جاتا ہے۔ ان غریب اور مفلوک الحال لوگوں میں سے لاکھوں ایسے ہیں جو اپنے پیاروں سے جدا ہو کر، اپنا دیس اور گھر بار چھوڑ کر دنیا کے ملکوں میں مزدوریاں کرتے ہیں۔ کوئی بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر میں لگا ہوتا ہے تو کوئی تیل کے کنویں کھودنے میں، کوئی ان ملکوں میں سڑکوں پر بجری کوٹتا ہے تو کوئی ان کے شہروں کو خوبصورت رکھنے کے لیے مالی اور خاکروب کا کام کرتا ہے۔ یہ سب کے سب اپنی محنت کے پسینے سے نچڑے ہوئے ڈالر اسی سٹیٹ بینک کی تجوری کے لیے بھیجتے ہیں جن میں سے کچھ بڑی بے دردی سے قرض ادا کرنے کے لیے اور ایک بڑی مقدار پر تعیش اشیاء خریدنے پر لگا دیا جاتا ہے اور پھر دوبارہ قرض کا کشکول اٹھا لیا جاتا ہے۔ کیا ان اٹھارہ کروڑ غریب عوام میں سے کوئی شخص یا گروہ ہاتھ جوڑکر کسی پارلیمنٹ، ایوان صدر، ایوان وزیراعظم یا وزیر خزانہ کے دفتر کے سامنے جا کر کھڑا ہوا کہ ہمیں یا ہماری نسلوں کودولت کی بہت ضرورت ہے‘ خدا کے لیے دنیا بھر کے سودی مافیا سے قرض لے کر ہماری زندگیاں آسان بنائو، ہم بڑی مشکل میں ہیں؟۔ لیکن ان سب لوگوں سے کون پوچھتا ہے۔ انہیں یہ تک نہیں بتایا جاتا کہ ہم تمہارے نام پر قرض لے رہے ہیں جسے تم اور تمہاری نسلیں ادا کریں گی۔ جمہوریت کا یہ نعرہ کہ لوگوں کی رائے (Will) پارلیمنٹ میں بولتی ہے‘ اس سے بڑا فراڈ، جھوٹ اور فریب انسانی تاریخ میں نہیں ملتا۔ پارلیمنٹ میں جس سودی مافیا کی دولت سے الیکشن لڑنے والے بیٹھے ہوتے ہیں، وہ اسی مافیا کی زبان بولتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح کی سکیموں اور پراجیکٹس کے لیے یہ عالمی سودی مافیا قرضے ا ور امداد لے کر آتا ہے یہ انہی سکیموں کو منظور کرتے ہیں اور اس کا قرض عوام پر لاگو کر دیتے ہیں۔ کوئی بڑی بڑی تعمیراتی سرگرمیوں کی سکیم لاتا ہے‘ کوئی نصاب میں تبدیلی کا پراجیکٹ، کسی نے لوکل گورنمنٹ اور کسی نے ماحولیات کی بہتری کا منصوبہ جیب میں ڈالا ہوتا ہے‘ کوئی انصاف سب کے لیے کا منصوبہ اور کسی کے پاس سود پر مائیکرو کریڈٹ سکیم کے قرضے ہوتے ہیں۔ ان سب کا تعلق ان اٹھارہ کروڑ عوام کی زندگی سے نہیں ہوتا جو بھوک، غربت، بیماری اور جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ان چار سو سے زیادہ عوامی نمائندوں کے پھولے ہوئے پیٹوں کو بھرنے کے لیے کھیتوں اور کھلیانوں میں کھڑے ہو کر زرمبادلہ کماتے ہیں۔ اربوں ڈالر کے قرضے سے جو موٹر وے بنتی ہے اس کے دونوں طرف یہ غریب لوگ اس کا قرض اتارنے کے لیے کھیتوں میں دن رات کام کررہے ہوتے ہیں اوران کے گھروں میں بجلی ہوتی ہے نہ گیس۔ ان کی عورتیں گائے کے گوبر سے اُپلے بناتی ہیں اور موٹروے کے دونوں جانب کچے مکان پر جا بجا یہ اُپلے ان کی غربت کی تصویر دکھاتے ہیں۔ یہ لوگ جب کسی بڑے شہر میں داخل ہوتے ہیں تو انہی کے کمائے ہوئے زرمبادلہ کے بل بوتے پر قرض لے کر خوبصورت ائیرپورٹ بنے ہوتے ہیں جن کے اردگرد سڑکوں پر خوشنما پھول لگے ہوتے ہیں۔ سڑکوں پر نئے ماڈل کی گاڑیاں فراٹے بھر رہی ہوتی ہیں جو اسی زرمبادلہ سے خریدی جاتی ہیں۔ گھروں، دفتروں، دکانوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے ائیرکنڈیشنر اور وہ ٹھنڈا پانی جسے پینے کے لیے یہ لوگ ترستے ہیں اس کے لیے ریفریجریٹر اسی زرمبادلہ سے خریدے جاتے ہیں۔ یہ وہ زرمبادلہ کا گھن چکر ہے جس کے لیے آئی ایم ایف سے قرض لیا جاتا ہے تاکہ ادائیگیوں میں توازن پیدا ہو۔ پھر اس قرض کو چکانے کے لیے اس مزدور، کسان اور عام آدمی پر ٹیکس لگا کر اس کی کھال ادھیڑ کر قرض کی رقم ادا کی جاتی ہے۔ صرف ایک عیاشی یعنی شاندارکاریں باہر سے منگوانے کے لیے 2009-10ء میں تین کروڑ سینتالیس لاکھ ڈالر، 2011-12ء میں پانچ کروڑ بیانوے لاکھ ڈالر اور 2012-13ء میں اب تک تین کروڑ چھیانوے لاکھ ڈالر زرمبادلہ اُڑایا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ وہ کاروں کے پرزہ جات جنہیں باہر سے لا کر یہاں جوڑ کر کار تیار کی جاتی ہے‘ ان پر بھی تقریباً اتنا ہی زرمبادلہ خرچ ہوا۔ گزشتہ پانچ برسوں میں یہ رقم کوئی ایک ارب ڈالر تک جا پہنچتی ہے۔ یہ صرف کاریں ہیں۔ بسیں، ٹرک، موٹرسائیکل وغیرہ ان میں شامل نہیں کہ دلیل دی جاسکے کہ یہ سب عام لوگوں کے لیے کیا گیا۔ اعلیٰ نسل کے موبائل فونوں پر چار کروڑ ستاسی لاکھ ڈالر زرمبادلہ خرچ ہوا۔ سٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر فیشن کے سامان اوردیگر سامان تعیش پر خرچ ہونے والی رقوم کو Others کے کھاتے میں ڈالا گیا ہے جن کا حجم دو ارب 89 کروڑ ڈالر ہے۔ گزشتہ ساٹھ سالوں میں عوامی منصوبوں میں بڑے تین منصوبے بنائے گئے… تربیلا، منگلا اور موٹروے۔ ان سب کا قرض دس ارب ڈالر سے زیادہ نہیں۔ باقی 120 ارب ڈالر کہاں خرچ ہوئے، کس نے خرچ کیے، کس کی مرضی سے یہ قرض لیا گیا؟ یہ ہے وہ سوال جو اس قوم کے اٹھارہ کروڑ لوگوں کو پوچھنا چاہیے کہ تم نے ہمیںاور ہمارے ہر پیدا ہونے والے بچے کو چھیاسی ہزار روپے کا مقروض کردیا ہے۔ یہ تم نے کہاں خرچ کیا؟ خرچ کیا بھی تو اپنے اللّے تللّوں، اپنی شاہ خرچیوں پر! ا پنی کرپشن سے ہمارے سرمائے کو لوٹا اور پھر ہم سے پوچھے بغیر مزید سود پر قرض لے لیا۔ہم یہ قرض واپس نہیں کریں گے۔ جن ارکان پارلیمنٹ نے، جن صدور اور وزرائے اعظم نے خود کو بادشاہ سمجھتے ہوئے یہ قرض لیے ہیں، ان کی جائدادیں بیچو، گاڑیاں نیلام کرو، بینک اکائونٹ منجمد کرو اور اس قوم کو قرض اور سود سے آزاد کرو۔ ایسا دنیا میں بہت دفعہ ہوچکا۔ 1840ء میں 28 امریکی ریاستوں نے ایسا کیا۔ میکسیکو نے اپنے بادشاہ کے قرضے واپس کرنے کے لیے اس کی جائداد بیچنے کے لیے کہا۔ 1923ء میں کوسٹاریکا نے برطانیہ کو قرضہ واپس کرنے سے انکار کیا اور کہا یہ ہمارے عوام پر خرچ نہیں ہوا۔ جس نے لیا اسی کی جائداد سے پورا کرو۔ اس ملک کو سود اور قرض کی لعنت میں دن بدن جکڑنے پر اٹھارہ کروڑ عوام کی خاموشی اللہ کے غضب کو دعوت دیتی ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ میں اور میرا رسولﷺ سود کے خلاف جنگ کے لیے صف باندھے ہوئے ہیں اور ہم لوگ ہیں جو اس کے دشمنوں کے ساتھی ہیں یا پھراس جنگ میں خاموش تماشائی۔ یاد رکھو‘ اگر ہم آج یہ جنگ شروع کرتے ہیں، ایک اعلان کرتے ہیں کہ جس نے قرض لیا اسی کی جائداد سے پورا کرو‘ وہی سود ا دا کرے جو سود پر معاہدے کرتا رہا ہے تو پھر ہم اللہ کی فوج کے سپاہی ہوں گے اور جس فوج کا سپہ سالار اللہ خود ہو اس سے کوئی صدر، وزیراعظم، وزیرخزانہ یا پارلیمنٹ جنگ جیت نہیں سکتی۔ یہ جنگ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے جیتنی ہی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved